Daily Roshni News

نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر

نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر

وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰسین وہی طٰہٰ

عشق ِ مصطفیؐ

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )عشق  سے مراد محبت میں شدت کا پیدا ہونا جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

ایمان والے اللہ سے شدید محبت کرتے ہیں۔ (سورۃ البقرہ۔ 165)

جب انسان کے قلب پر شدید محبت کا قبضہ ہو جاتا ہے تو اسے محبوب کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔

مولانا رومؒ فرماتے ہیں:

عشق ایک ایسا شعلہ ہے جب یہ بھڑک اٹھتا ہے تو معشوق کے سوا تمام چیزوں کو جلا دیتا ہے۔

حضرت امام غزالیؒ فرماتے ہیں:

مرد کو چاہیے کہ دریائے عشق میں غواصی کرے، اگر اس کی موجِ مہر اس کو ساحل تک پہنچا دے تو

  فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا

(سورۃ الاحزاب۔71۔

 ترجمہ: وہ بڑی کامیابی سے سرفراز ہوا) اور اگر نہنگ قہر اس کو نگل جائے تو  فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہ  

 (سورۃ النسا۔100۔

 ترجمہ: اس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ثابت ہو گیا)۔

فیض احمد فیض کے بقول عشق کی بازی میں ہار جیت کا تصور کرنا ہی محال ہے یہاں ہار بھی جیت ہی ہے:

گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا

گر جیت گئے تو کیا کہنا، ہارے بھی تو بازی مات نہیں

روح کی غذا عشق ہے، اسی سے معرفت نصیب ہوتی ہے۔ تمام انبیا اور اولیا کرام عاشق ہوئے ہیں کوئی بھی عشق سے خالی نہ تھا۔

عشق کی برکت سے عاشق کو بے پناہ قوت حاصل ہوتی ہے وہ ابوالوقت اور ابوالحال بن جاتا ہے۔ نفس اور آفاق اس کے زیر نگین ہو جاتے ہیں۔

علامہ محمد اقبالؒ ’بالِ جبریل‘میں فرماتے ہیں:

عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام

اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں

’بالِ جبریل‘ میں ہی ایک اور جگہ لکھتے ہیں:

صدقِ خلیلؑ بھی ہے عشق، صبرِ حسینؓ بھی ہے عشق

معرکۂ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق

عشق وہ جوہر ہے جو اگر مٹی میں شامل ہو جائے تو اسے بھی تاریخ کا حصہ بنا دیتا ہے۔ عشق ہی راہِ فقر کی کلید ہے اور عشق ہی منزل تک پہنچاتا ہے۔ راہِ فقر عشق  ہی ہے۔

علامہ محمد اقبالؒ اپنی نظم ’مسجد قرطبہ‘ میں لکھتے ہیں:

مردِ خدا کا عمل عشق سے صاحبِ فروغ

عشق ہے اصل حیات، موت ہے اس پر حرام

تند و سبک سیر ہے گرچہ زمانے کی رو

عشق خود اک سیل ہے، سیل کو لیتا ہے تھام

عشق کی تقویم میں عصر رواں کے سوا

اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام

عشق دم جبرئیل، عشق دل مصطفیؐ

عشق خدا کا رسول، عشق خدا کا کلام

عشق کی مستی سے ہے پیکرِ گل تابناک

عشق ہے صہبائے خام، عشق ہے کاس الکرام

عشق فقیہ حرم، عشق امیر جنود

عشق ہے ابن السبیل، اس کے ہزاروں مقام

 عشق کے مضراب سے نغمہء تار حیات

عشق سے نورِ حیات عشق سے نارِ حیات

(بالِ جبریل)

اللہ تعالیٰ کا اپنے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عشق

پہلا عشق خود ذاتِ باری تعالیٰ نے اپنے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے کیا۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ فرماتے ہیں:

جب ربِ ودود نے اپنے محبوب کا نور پیدا کیا تو فرمایا اَنْتَ عشقی وَ اَنَا عشقک   یعنی اے میرے محبوبؐ، حسن ازلی کے مظہر اور میری قدرت کے شاہکار آپ میرا عشق ہیں اور میں آپ کا عشق ہوں۔

 جب عشق (اللہ تعالیٰ) نے اپنا دربار سجایا تو سب سے پہلے اپنی ذات سے نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  کو ظاہر کیا پھر آپؐ کے نور سے تمام مخلوق کی ارواح کو پیدا کیا گیا اور یہی حقیقت محمدیہ ہے جس کے ظہور کے لیے یہ کائنات پیدا کی گئی۔ خود حضور علیہ الصلوٰۃو السلام نے فرمایا:

اَنَا مِنْ نُّوْرِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَکُلُّ خَلَائِقِ مِنْ نُّوْرِیْ

ترجمہ: میں اللہ کے نور سے ہوں اور تمام مخلوق میرے نور سے ہے۔

یعنی تخلیق میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اوّل ہیں اور ظہور میں آخر ہیں، اس لیے آپؐ اوّل بھی ہیں اور آخر بھی۔ علامہ اقبالؒ

نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر

وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰسین وہی طٰہٰ

(بالِ جبریل)

اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب سے محبت و عشق  کا اظہار قرآنِ مجید میں بیشمار مقامات پر کیا ہے۔ محبوب کی بات کو اپنی بات کہا اور اس کی اطاعت کو اپنی ہی اطاعت قرار دیا۔

جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔

مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہ

 (سورۃ النسا۔80)

ترجمہ: جس نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔

جن لوگوں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کی اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں فرمایا ان کی بیعت در حقیقت اللہ سے بیعت ہے۔

بے شک جو لوگ بیعت کرتے ہیں آپؐ سے وہ اللہ سے ہی بیعت کرتے ہیں اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھ پر ہے۔

(سورۃ الفتح۔10)

اللہ نے اپنے محبوبؐ کو رحمت اللعالمین بنایا ہے ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ

(سورۃ الانبیا۔107)

ترجمہ: اور ہم نے آپ ؐ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پرمکمل کیا، آپؐ کی سیرت کے ہر پہلو، ہر ادا اور ہر قول کو محفوظ فرما دیا اور آپؐ کی اتباع ہر مسلمان پر لازم قرار دے دی۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب سے عشق و محبت کو ہی ایمان کی کسوٹی بنا دیا ہے۔ عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  کے بغیر ایمان کامل ہی نہیں ہو سکتا۔

حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے لیے اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘ (صحیح بخاری)

معرفتِ الٰہی کے لیے معرفتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہونا ضروری ہے اور معرفتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم عشق سے حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے صحابہ کرام، فقرائے کاملین اور اولیا کرام نے عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر زور دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو صحابہ کرامؓ کا عشقِ رسول اتنا پسند آیا کہ سب کو حکم دیا کہ ایسے ایمان لاؤ جیسے میرے محبوب کے صحابہ کرامؓ ایمان لائے ہیں۔

ہر فقیر اپنے دور میں اپنے انداز میں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا نمونہ بنا اور اس کی چال ڈھال عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا درس دیتی رہی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سارے فقرا عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں فنا ہوتے ہیں تو اس لیے ہر دور میں مرشد راہبری کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ چونکہ یہ فقرا فنا فی الرسول ہوتے ہیں اس لیے یہ طالبوں کی تربیت بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طریقہ کے مطابق ہی فرماتے ہیں۔

Loading