وہ رات جب ستارے گرنے لگے
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل)12 نومبر 1833 کی رات دنیا نے ایک ایسا حیرت انگیز نظارہ دیکھا جو تاریخ میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگیا۔ آسمان سے آگ کی برسات ہو رہی تھی جسے دیکھ کر بہت سے لوگوں کو لگا کہ شاید قیامت آ گئی ہے۔
یہ شہابیوں کی ایک برسات بلکہ طوفان تھا اور اتنا زبردست کہ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے آسمان جل اٹھا ہو۔
بوسٹن میں اندازہ لگایا گیا کہ ہر گھنٹے میں 72,000 شہاب ثاقب گر رہے تھے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تاریخی بیانات کی بنیاد پر نو گھنٹوں کے دوران 240,000 سے زیادہ شہاب ثاقب آسمان پر چمکے۔
یہ واقعہ “وہ رات جب ستارے ٹوٹ کر برسے” یا “وہ رات جب آسمان سے ستارے گرنے لگے* کے نام سے مشہور ہوا۔ عینی شاہدین کے مطابق ہر منٹ میں ہزاروں روشن لکیریں آسمان پر نمودار ہو رہی تھیں۔ آنے والے کئی دنوں تک اخبارات میں حیرت زدہ لوگوں کے بیانات شائع ہوئے۔ الینوائے کے ایک اخبار نے لکھا: “یوں لگا جیسے پورا آسمان آگ کی لپیٹ میں ہے۔”
لاکوتا قبائل نے اس واقعے کی یاد میں اپنا کیلنڈر دوبارہ ترتیب دیا جبکہ ابراہم لنکن اور فریڈرک ڈگلس جیسی اہم شخصیات نے بھی بعد میں اپنی تحریروں میں اس کا ذکر کیا۔
یہ واقعہ سائنسی تحقیق کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔
ییل یونیورسٹی کے ماہر فلکیات ڈینیسن اولمسٹیڈ نے اس واقعے کی تحقیقات کیں اور عوام سے مدد لے کر اس وقت کی ایک بڑی سائنسی تحقیق کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے مختلف علاقوں سے ملنے والی تفصیلات کا جائزہ لے کر نتیجہ اخذ کیا کہ یہ شہاب ثاقب برج اسد (Leo) کے ایک مخصوص مقام سے آ رہے تھے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ زمین ایک دم دار ستارے کے باقی ماندہ ملبے میں سے گزر رہی تھی۔
یہ تحقیق نہ صرف شہابی بارشوں بلکہ عام لوگوں کی سائنسی تحقیق میں شمولیت (citizen science) میں دلچسپی بڑھانے کا باعث بنی۔
آج بھی لیونیڈ شہابی بارش، جو دم دار ستارے ٹیمپل-ٹٹل کی باقیات کے سبب وقوع پذیر ہوتی ہے، ہر سال نومبر کے وسط میں اپنی جھلک دکھاتی ہے۔
تصویر: 1889 میں بنایا گیا ایک تصویری خاکہ جس میں 13 نومبر 1833 کی شہابی بارش کا منظر دکھایا گیا ہے۔