پاکستان کے کس شہر میں وقت سب سے تیز چلتا ہے؟
تحریر۔۔۔ ڈاکٹر احمد نعیم
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ پاکستان کے کس شہر میں وقت سب سے تیز چلتا ہے؟۔۔۔ تحریر۔۔۔ ڈاکٹر احمد نعیم )آئن اسٹائن کے نظریہ اضافیت کے مطابق وقت مطلق نہیں بلکہ یہ اضافی انداز میں فریم آف ریفرینس کے لحاظ سے سست یا تیز ہو سکتا ہے۔ اس تناظر میں ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ پاکستان کے کس شہر میں وقت سب سے زیادہ تیز چلتا ہے؟
آئن اسٹائن کے نظریہ اضافت کے دو حصے ہیں جنہیں سادہ انداز میں مندرجہ ذیل نکات میں بیان کیا جا سکتا ہے:
- نظریہ عمومی اضافیت کے مطابق زیادہ مضبوط کشش ثقل کے نزدیک وقت آہستہ گزرتا ہے یعنی کسی جگہ پر کشش ثقل جتنی زیادہ ہوگی وہاں پر وقت اتنا ہی سست گزرے گا۔
- نظریہ خصوصی اضافیت کی رو سے روشنی کی رفتار کے قریب سفر کرنے پر وقت سست گزرتا ہے یعنی کسی جسم کی رفتار جتنی زیادہ تیز ہوگی اس کے لیے وقت اتنی ہی سست رفتار سے چلے گا۔
اب ان نکات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس سوال کا تجزیہ کرتے ہیں کہ پاکستان میں وقت کہاں سب سے زیادہ تیزی سے گزرتا ہے؟۔
- سطح سمندر سے بلندی
Gravitational Time Dilation:
آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کے مطابق کمزور کشش ثقل والے مقامات پر وقت زیادہ تیز گزرتا ہے اور طاقتور کشش ثقل والے مقامات پر نسبتاً سست ہوتا ہے۔ گویا جب ہم سطح سمندر سے بلند مقامات پر جاتے ہیں تو وہاں کشش ثقل کم ہوتی ہے جس کے نتیجے میں وقت زیادہ تیز گزرتا ہے۔
لہذا، وہ شہر جو سطح سمندر سے زیادہ بلند ہیں، وہاں وقت زیادہ تیز گزرے گا یا کہا جا سکتا ہے کہ وہاں لوگوں کی گھڑیاں زیادہ تیز چلیں گی۔
- زمین کی گردشی رفتار کا فرق
Time Dilation due to Relative Velocity:
زمین اپنے محور پر گھوم رہی ہے اور زمین کی گردشی رفتار خط استوا پر یا اس کے نزدیکی مقامات پر سب سے زیادہ ہوتی ہے اور جیسے جیسے خط استوا سے دور جاتے جائیں، زمین کی گردشی رفتار بھی کم سے کم تر ہوتی جاتی ہے۔ اب چونکہ نظریہ اضافیت کے تحت ہم جانتے ہیں کہ تیز رفتار پر وقت سست ہو جاتا ہے، چنانچہ خط استوا کے قریبی علاقوں میں وقت اضافی طور پر سست چلتا ہے جبکہ خط استوا سے دور زمین کی محوری رفتار کم ہونے کی بنیاد پر وقت بھی نسبتاً تیز چلتا ہے۔
واضح رہے کہ گردشی رفتار کا یہ فرق سطح سمندر سے بلندی کے فرق کی نسبت کم موثر ہے لیکن ہم یہاں دونوں عوامل کو مد نظر رکھتے ہوئے بات کریں گے۔
چنانچہ پاکستان کے مختلف شہروں کی سطح سمندر سے بلندی کو دیکھتے ہوئے وقت کی رفتار وہاں سب سے زیادہ تیز ہوگی جہاں سطح سمندر سے بلندی سب سے زیادہ ہوگی۔
اس پس منظر میں کہا جا سکتا ہے کہ شمالی پہاڑی علاقہ جات میں وقت کی رفتار باقی پاکستان کی نسبت سے تیز ہوگی۔
پاکستان کے مشہور شمالی پہاڑی مقامات میں سے اسکردو شہر میں وقت کی رفتار سب سے زیادہ تیز ہوگی کیونکہ اس کی بلندی سطح سمندر سے تقریباً 2,500 میٹر (8,200 فٹ) ہے جو پاکستان کے نامی گرامی شہروں میں سب سے زیادہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہنزہ بھی ایک اہم امیدوار ہے جہاں بلندی سکردو سے تھوڑی ہی کم یعنی تقریباً 2400 میٹر (7800 فٹ) ہے۔ ان کے علاوہ چیدہ چیدہ شہروں میں مری تقریباً 2,291 میٹر (7,514 فٹ) کی بلندی کے ساتھ، چترال تقریباً 1,500 میٹر (4,920 فٹ) کے ساتھ اور ایبٹ آباد تقریباً 1,260 میٹر (4,134 فٹ) کی بلندی کے ساتھ اہم نام ہیں۔ سطح سمندر سے کافی بلند ہونے کی وجہ سے ان مقامات پر وقت سب سے زیادہ تیز چلے گا جبکہ پاکستان کے دیگر شہروں سے ان کا فاصلہ بہت زیادہ نہ ہونے کی وجہ سے گردشی رفتار کا فرق نظر انداز کیا جا سکتا۔
تاہم ابھی تک ہم نے پاکستان کے بڑے شہروں کی بات نہیں کی لہٰذا اب پاکستان کے صوبائی دارالحکومتوں کی بھی بات کر لیتے ہیں۔
کراچی کی بلندی سطح سمندر سے صرف 10 سے 30 میٹر تک ہے جو اسے پاکستان میں زمین کے مرکز سے قریب ترین شہر بنا دیتی ہے۔ لہٰذا نظریہ اضافیت کے مطابق، کراچی میں کشش ثقل زیادہ ہونے کی وجہ سے وقت سست گزرتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ کراچی پاکستان کے انتہائی جنوب میں واقع ہونے کی وجہ سے خط استوا کے قریب بھی ہے جس کی وجہ سے وہاں زمین کی محوری گردش زیادہ تیز ہوگی اور اس بنیاد پر بھی وقت سست گزرے گا۔ اسی طرح پشاور جو کراچی سے زیادہ بلندی پر ہے، وہاں وقت تیز گزرے گا جبکہ پشاور چونکہ خط استوا سے دور ہے، اس لئے وہاں گردشی رفتار کے نسبتاً کم ہونے کی وجہ سے بھی وقت نسبتاً تیز گرے گا۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ پشاور میں وقت سب سے تیز گزرے گا، ابھی اور بھی شہر باقی ہیں۔ لاہور کی بات کریں تو لاہور کی سطح سمندر سے بلندی اور خط استوا سے فاصلہ کراچی اور پشاور کے درمیان درمیان ہے، اس لئے لاہور میں اضافی اثرات درمیانے درجے کے ہوں گے اور یوں وقت کراچی سے تیز لیکن پشاور کی نسبتاً آہستہ گزرے گا۔ اب آتے ہیں کوئٹہ کی طرف جو صوبائی دارالحکومتوں میں سب سے زیادہ بلندی پر ہے اور اس بلندی کے باعث وہاں وقت سب سے زیادہ تیز چلے گا جبکہ خط استوا سے نسبتاً دور ہونے کے سبب گردشی رفتار نسبتاً کم ہونے کی وجہ سے بھی وہاں وقت تیز گزرے گا۔ چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ صوبائی دارالحکومتوں میں کوئٹہ میں وقت سب سے زیادہ تیزی سے چلتا ہے اور کراچی میں سب سے سست گزرتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے بڑے شہروں میں سے کراچی میں گھڑیاں سب سے سست جبکہ کوئٹہ میں گھڑیاں سب سے زیادہ تیز چلتی ہیں۔
اس کے علاوہ ایک تیسرا نکتہ زمین کی غیر مساوی گولائی اور خط استوا پر تھوڑا سا باہر کی جانب نکلے ہونے کی وجہ سے زمین کے مرکز سے فاصلے کا فرق ہے یعنی خط استوا زمین کے مرکز سے سب سے زیادہ فاصلے پر ہوتا ہے اور جیسے جیسے قطبین کی جانب جاتے جائیں، یہ فاصلہ کم ہوتا جاتا ہے۔ لیکن یہ فرق بہت ہی معمولی ہے یعنی زمین کے استوائی رداس اور قطبی رداس میں صرف 22 کلومیٹرز کا ہی فرق ہے اور پھر پاکستان کی حدود کے اندر یہ فرق اتنا کم ہے کہ یہ وقت کی رفتار پر کوئی قابل قدر اثر نہیں ڈال سکتا اور اسی لئے ہم یہاں اسے نظر انداز کر رہے ہیں۔ زیادہ قابل ذکر وجوہات سطح سمندر سے بلندی اور زمین کی اضافی گردشی رفتار کا فرق ہی سمجھی جائیں گی۔
یاد رہے کہ وقت کی رفتار کا یہ فرق انتہائی معمولی یا کم یعنی صرف مائیکروویو سیکنڈز تک ہی ہوتا ہے اور اسے روزمرہ زندگی میں محسوس نہیں کیا جا سکتا اور اس فرق کو جانچنے کے لئے عام گھڑیاں مناسب نہیں بلکہ ایٹمی گھڑیوں کی ضرورت ہوگی لیکن نظریہ اضافیت کے مطابق یہ فرق ایک کائناتی حقیقت ہے جسے باقاعدہ طور پر تجربات سے ثابت بھی کیا جا چکا ہے۔
(تحریر: ڈاکٹر احمد نعیم)