پرسکون نیند اور صحت مند زندگی
آپ کے ہاتھوں میں ہے۔۔
تحریر۔۔۔حنا عظیم
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ پرسکون نیند اور صحت مند زندگی آپ کے ہاتھوں میں ہے۔۔ تحریر۔۔۔حنا عظیم)یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، برکلے میں نیورو سائنس اور سائیکالوجی کے پروفیسر اور سلیپ اینڈ نیورو امیجنگ لیبارٹریز کے ڈائر یکٹر میتھیو واکر Matthew Walker کی حالیہ تحقیق کے مطابق و کسی بھی انسان کی اچھی صحت بنانے میں غذا اور ورزش کے بعد نیند تیسرے ستون کا درجہ رکھتی ہے“۔ حالیہ ریسرچ کہتی ہیں کہ نیند کی اہمیت اور میکانیت کو بھی اسی طرح کیجیئے جس طرح کھانا کھانے اور پانی پینے کے میکانیت کو آپ اہم رکھتے ہیں۔ وزن کو قابو میں رکھنے کے لئے ہمیں کتنا کھانا چاہیے یہ ہم جانتے ہیں ۔ ہما ری اسکن کے گلو کے لئے کتنا پانی پینا اچھا ہے ۔ یہ بھی ہمیں پتا ہے مگر جب سونے کی بات آتی ہے تو عام طور سے قیاس کیا جاتا ہے کہ اگر آپ گھنٹہ بھر بھی سو کر اٹھ گئے اور دوبارہ نیند نہیں آرہی تو کوئی بات نہیں آپ کی نیند کی ضرورت اتنی ہی ہو گی۔ اگر آپ بھی ایسا ہی کھتے ہیں تو پھر یہ آرٹیکل غور سے پڑھیئے۔ نیو سائینٹسٹ میں شائع ہونے والے اس آرٹیکل جس کو User’s Sleep Guide کا نام دیا گیا ہے۔ اس آرٹیکل میں بتایا گیا ہے کہ نیند کیسی اور کتنی ہونی چاہیے اور یہ کہ نیند ہماری زندگی کے لیے اتنی ہی ضروری ہے جتنی کی غذا اور پانی۔ سچ تو یہ ہے کہ نیند ہی وہ بنیاد ہے۔ جس پر باقی دوستون انحصار کرتے ہیں۔ نیند میں کسی بھی طرح کی کمی یا زیادتی براہ راست ہمارے مدافعتی نظام اور غذا کو متاثر کرتی ہے۔ اس کے علاوہ نیند کی کمی کی بڑھتی ہوئی شکایت لوگوں میں ڈپریشن، بائی پولر ڈس اوڈر Bipolar Disorder(شخصیت میں بیک وقت مثبت منفی دو مخالف حالتوں کا پایا جانا)، شیزو فیر بنیا اور الزائمر جیسی ذہنی بیماریوں کا باعث بھی بنتی جا رہی ہے۔ یو کے رائل سوسائٹی فار پبلک ہیلتھ کے کی ایک تحقیق کے مطابق ہر برطانوی باشندہ روزانہ ایک گھنٹہ کم نیند لیتا ہے۔ ایک سروے کے مطابق امریکہ میں 17 فی صد لوگ بے خوابی کا شکار ہیں۔ نوجوان طبقے میں سے ہر تیسرے شخص میں انسومنیا کی شکایت بھی سامنے آرہی ہے۔
نیند کودھوکا
پہلے کام پھر آرام …. کیا یہ مثبت رویہ ہے؟ نہیں قطعی نہیں ۔ عموما! امتحانات کے دوران بعض طالب علم یہ روٹین اپناتے ہیں کہ متواتر سونے کے بجائے کچھ گھنٹے سوتے ہیں اور کچھ گھنٹے تیاری کرتے ہیں، انہیں یہ یادر ہے کہ نیند مسلسل ہونی چاہیے نہ کہ قسطوں میں۔ نیند پوری کیے بغیر جاگنا فائدہ مند نہیں۔ 19 سالہ میری اسٹیور Marie Staver نے ایسا ہی کیا۔ وہ اپنے کالج کا کام وقت پر ختم کرنے کے لیے بے حد پریشان تھی۔ وقت کم اور مقابلہ سخت۔ اسے ہر حال میں اپنے پر اجیکٹ پورے کرنے تھے تو اس نے زیادہ سے زیادہ کام کے لیے اپنی نیند کو قربان کیا۔ اپنے سونے کے لئے اس نے اوبرمین سلیپنگ شیڈول Uberman sleeping schedule کو فولو کیا۔ جس کے مطابق وہ اگلے 6 ماہ تک روزانہ ہر 4 گھنٹے کے بعد صرف 20 منٹ کی نیند لیتی۔ یعنی وہ ایک دن میں 2 گھنٹے کی نیند لیتی۔ نیند کے اس شیڈول سے میری اسٹیور کا کام تو وقت پر ختم ہو گیا۔ لیکن کیا نیند کے ساتھ اتنا برا سلوک اس کی صحت کے لیے اچھا ثابت ہوا ….؟
اوبرمین سلیپنگ شیڈول
یہاں ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ اوبر مین سلیپنگ شیڈول کیا ہے …. ؟ یہ ایک سے زیادہ مراحل میں نیندکو پورا کرنے کی ایک شکل ہے ان مراحل کو آپ ٹکڑے یا وقتے بھی کہہ سکتے ہیں۔ عموما دو طرح کے شیڈول ہوتے ہیں۔ جنہیں سونے کے دورانئے کو تین قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
مونوفيز Monophasic سلیپ: جو عام طور سے لی جاتی ہے۔ چو میں گھنٹوں میں ایک بار رات کی نیند۔ بانی فیز Biphasic سلیپ: جس میں رات کی نیند کو چومیں گھنٹوں میں سلیپ یا دو فکروں میں منقسم کر دیا جاتا ہے۔
پولی نیز Polyphasic سلیپ : جس میں رات کی نیند کو ایک ہی بار پورا کرنے کے بجائے دو سے زیادہ ٹکڑوں یا وقفوں میں بانٹ دیا جاتا ہے اور وقفوں میں نیند پوری کی جاتی ہے۔ اس طریقہ کار کا مقصد جاگنے کے دورانیہ کو زیادہ سے زیادہ بڑھانا ہوتا ہے۔ یہ شیدول خاص طور سے پائلٹ اور آرمی فورسز کیلئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ پولی فیرک سلیپ کو ماہرین عام لوگوں کے لیے انتہائی نقصان دہ مانتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ رات کی نیند کو بار بار توڑنے سے آپ انسومنیا کے مریض بن سکتے ہیں۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے اسکول آف میڈیسن میں سائکاٹری ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر جیروم سیگال Jerome Siegal نے اپنی ٹیم کے ساتھ افریقہ اور جنوبی امریکہ کے 3 قبائل کو وزٹ کیا۔ انہوں نے دیکھا کہ وہاں لوگ غروب آفتاب کے بعد مزید 3 گھنٹے جاگتے اور پھر اسکے بعد لیے آرام کو فوقیت دیتے ہیں۔ جیروم قسطوں میں نیند لینے کا قدرتی طریقہ نہیں مانتے۔ پولی فیرک کسی بھی طرح ایک بار کی بھر پور نیند کا نعم البدل نہیں ہے۔ کیونکہ ایک بار کی بھر پور نیند سے ہمارے دماغ کو مکمل طور پر موقع مل جاتا ہے اور وہ جسم کے تمام نظام اور ان میں مرمت کرنے کا کام سکون سے انجام دے پاتا ہے ۔ ہم کئی بار نیند کے مختلف مراحل سے خاص طور سے ریم REM سلیپ سے گزرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ایک بار اپنی قدرتی نیند کو دھوکا دینے میں ہم کامیاب ہو جائیں۔ مگر صحت کا نقصان کیسے پورا ہو گا….؟
نیند کی موروثی عادت
تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ نیند کے دورانئے کا دارومدار ہماری جبین یا
موروثیت پر بھی ہوتا ہے۔ ہر فرد کی جبین الگ ہوتی ہے اس لیے نیند کا دورانیہ بھی سب میں الگ ہوتا ہے۔ ایسے کئی لوگ ہیں جو سونے کی عادت اپنے اباؤ اجداد سے لیتے ہیں ۔ یہ جملے بھی سننے میں عام ہیں کہ یہ تو بالکل اپنی امی کی طرح دیر تک سوتی ہے یا دادا کی طرح چار گھنٹوں میں اٹھ جاتی ہے۔ ایک دفعہ آنکھ کھل جائے تو پھر نیند نہیں آتی۔ وغیرہ وغیرہ۔ عادتیں موروثی ہونے کے باوجود ماہرین کی رائے ہے کہ جسمانی اور روحانی اور ذہنی صحت کو بر قرار رکھنے کے لئے بہر حال آپ کو نیند کے لیے ایک مناسب دورانیہ دینا چاہیے یا یوں کہئے کہ نیند کو بھی آپ کی توجہ کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی کہ آپ کے کسی اور کام کو۔
ہمیں کتنا سونا چاہیئے؟
دورانئے کی وضاحت کرتے ہوئے ماہرین کہتے ہیں کہ نیند کے دورانیے کا گہرا تعلق ہماری عمر سے ہے۔ یعنی ایک بچے کی، ایک نوجوان کی اور ایک بزرگ کی نیند اور اس کے دورانے میں خاصہ فرق ہوتا ہے۔ اس کے لئے ایک سروے کیا گیا تا کہ یہ جانچا جا سکے کہ عام طور سے کس عمر کے لوگ کتنی نیند لیتے ہیں اور کتنے دورانیے کی لینا چاہتے ہیں۔ ذیل میں اس سروے چارٹ کو ملاحظہ فرمائیں جو یہ بتاتا ہے کہ زندگی کے مختلف مراحل اور عمروں میں آدمی کو کتنا سونا چاہیے۔ آپ اس چارٹ سے مستفید ہونے کے لئے اپنی عمر کے حساب سے معمول کو پر کیے اور اندازہ لگایئے کہ آپ کی نیند کیسی ہے؟ اگر اس نقشے کے مطابق ہم اپنی نیند کا اندازہ لگالیں تو ہمیں صبح اٹھنے کے لیے الارم کلاک کی ضرورت نہیں۔ جیسے ہی ہماری نیند پوری ہو گی ہم خود خود جاگ جائیں گے۔
کیا زیادہ سونا عمر کو کم کرتا ہے؟ صبح سویرے جب میٹھی نیند کی گہری خاموشی میں بے ہنگم آواز کا الارم کلاک شور مچاتا ہے۔ کئی بار تو اس کے مسلسل شور سے اس پڑوس کے لوگ بھی بیدار ہو جاتے ہیں۔ سوائے ان کے جن کے لئے یہ الارم بیچ رہا ہوتا ہے۔ ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی نیچے میں کالج آف نرسنگ اینڈ ہیلتھ اینوویشن کے پروفیسر شان سنگسٹیڈ
Shawn Youngstedt کے مطابق نوجوانوں کی ایک تعداد ایسی بھی ہے جس پر ہم پھٹنے کا بھی کوئی اثر نہیں ہو تا، ایسے لوگ الارم کا وقت تو۔۔۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ فروری 2017