پلوٹو نظام شمسی کا کوئی اہم سیارہ نہیں بلکہ ایک بونا سیارہ ہے۔
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )امریکی ریاست ایریزونا میں فلیٹ سٹاف کے تحقیقی ادارے نے اس فیصلے کو متنازع سمجھا۔ امریکی ماہر فلکیات کلائیڈ ڈبلیو ٹامبو نے 18 فروری 1930 کے دوران پلوٹو کو بطور ایک سیارہ دریافت کیا تھا۔ اس روز کو آج بھی پلوٹو کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔
آبزرویٹری کے مؤرخ شینڈلر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پلوٹو سے جڑی ہر بڑی دریافت کا تعلق فلیٹ سٹاف سے ہے۔‘
’تو یہ ہمارے لیے کچھ حد تک قابل قبول نہ تھا۔ ہم نے آئی اے یو کے اس فیصلے کو ناقص سمجھا تھا۔‘
غیر متوقع نتیجہ
مگر اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ زمین کا ’جما ہوا ہمسایہ‘ کافی توجہ بٹور رہا ہے۔ گذشتہ 17 برسوں کے دوران لوول آبزرویٹری نے اس معاملے پر اس قدر دلچسپی دیکھی ہے کہ وہ 2024 تک مہمانوں کے لیے ایک نیا سینٹر بنائے گی۔
شینڈلر کا کہنا ہے کہ ’2006 تک ہمارے پاس سالانہ 60 ہزار مہمانوں کی صلاحیت تھی۔ 2019 میں کووڈ 19 سے قبل ہمارے پاس قریب ایک لاکھ لوگ آ رہے تھے جو ’مجھے پلوٹو سے محبت ہے‘ نامی تہوار اور دیگر تقاریب میں حصہ لے رہے تھے۔‘
ہم یہاں مذاق میں کہتے ہیں کہ یہ تنازع کاروبار کے لیے اچھا ثابت ہوا اور کاش یہ پہلے ہی ہوگیا ہوتا۔‘
پلوٹو کو بونا سیارہ قرار دینے اور نظام شمسی کے نمایاں سیاروں سے باہر کرنے کا فیصلہ آج بھی بعض لوگوں کو پریشان کرتا ہے۔ اور لوول آبزرویٹری کے علاوہ بھی پلوٹو کے کئی حمایتی پائے جاتے ہیں۔
2015 میں پلوٹو پر تحقیق کرنے والی ناسا ٹیم کے سائنسدان ایلن سٹرن بھی آئی اے یو کے فیصلے کے ناقدین میں سے ہیں۔ اگست 2006 میں پراگ میں میٹنگ کے دوران آئی اے یو کے 424 افراد کے وفد نے ووٹنگ کے ذریعے یہ فیصلہ کیا تھا۔
سٹرن بی بی سی کو بتاتے ہیں کہ ’سائنس میں ووٹنگ سے کام نہیں چلتا۔ ہم تھیوری آف ریلیٹیوٹی یا کوانٹم فزکس پر ووٹنگ نہیں کرتے۔‘
’آئی اے یو کو اس بات پر بھی ووٹ ڈال لینا چاہیے کہ کیا آسمان ہرا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ یہ سچ ہے۔‘
تو کیا پلوٹو سیارہ ہی ہے؟
پلوٹو کے تنازع میں ایک بات سب ہی پوچھتے ہیں کہ کیا پلوٹو اب بھی کوئی سیارہ ہی ہے۔
سیاروں کی تاریخ قدیم یونان سے جڑی ہے۔ پرانے وقتوں میں عطارد (مرکری)، زہرہ (وینس)، مریخ (مارس)، مشتری (جوپیٹر) اور زحل (سیٹرن) کو دریافت کیا گیا جنھیں انسانی آنکھ سے دیکھا جاسکتا تھا۔ وہ ان کی حرکات کو بھی دیکھ سکتے تھے جو ستاروں سے زیادہ تھیں۔ اسی لیے انھیں سیارے یا پلینٹ کا نام دیا گیا، کیونکہ یہ بھٹکتے رہتے ہیں۔
مگر پلوٹو کیا ہے، یہ ایک الگ ہی کہانی ہے۔ 1930 میں دریافت کے بعد پلوٹو کو فوراً نظام شمسی میں شامل کر لیا گیا تھا۔ ماہرین فلکیات نے آئندہ دہائیوں کے دوران اس بات پر بحث کی کہ آٹھویں سیارے نیپچون کے مدار کے بعد کائپر بیلٹ میں مزید دریافتیں ہوسکتی ہیں۔
1992 میں مزید قیاس آرائیاں ہوئیں جب ’1992 کیو بی آئی‘ کی دریافت ہوئی۔ یہ پہلا کائپر بیلٹ آبجیکٹ (کے بی او) تھا۔ اس کا قطر 160 کلو میٹر تھا جو کہ پلوٹو کے قطر (2376 کلو میٹر) سے کافی چھوٹا ہے۔
پھر 2000 کی دہائی میں تین بڑے کے بی آوز دریافت ہوئے جن کا موازنہ حجم میں پلوٹو سے ہوسکتا تھا۔
ان میں سے ایک ایرس تھا جسے 2005 میں دریافت کیا گیا۔ خیال تھا کہ یہ پلوٹو سے بڑا ہے۔ اس سے متاثر ہو کر ناسا نے جولائی میں اعلان کیا کہ ’سائنسدانوں نے نظام شمسی کا دسواں سیارہ دریافت کر لیا ہے۔‘
اس پر آئی اے یو نے کمیٹی بنائی تاکہ یہ تعین کیا جاسکے کہ سیارے سے کیا مراد ہے۔ اس کا مقصد ایک حتمی مسودہ تیار کر کے ارکان کے سامنے پیش کرنا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ابتدائی منصوبے میں پلوٹو کو سیارہ ہی سمجھا جانا تھا۔ تاہم پلوٹو کے پانچ میں سے ایک بڑے چاند شیرون کو بھی سیارہ تصور کیا جانا تھا۔ اس کے ساتھ 1801 میں مریخ اور مشتری کے بیچ خلائی اجسام ایرن اور سیرس کو بھی سیارے کا درجہ مل جانا تھا۔
مگر آخر کار آئی اے یو نے سیارے کی تعریف پر ووٹنگ کرائے جس میں یہ تقاضے طے پائے: یہ ستارے کے گرد گھومتا ہے، گریویٹی کی قوت سے یہ گول ہوتا ہے اور یہ اتنا بڑا ہو کہ گریویٹی سے اس کے مدار میں موجود دیگر اجسام دور ہوگئے ہوں۔
آخری اصول کی وجہ سے پلوٹو کو سیارہ نہ مانا جاسکا کیونکہ اس کا مدار دیگر برفیلے کے بی آوز سے ملا ہوا ہے۔
لہذا ایک نئی کیٹگری بنائی گئی جس کا نام ’بونا سیارہ‘ یا ڈوارف پلینٹ ہے۔ پلوٹو کو اسی میں شامل کر لیا گیا۔
تاہم ہر کوئی اس منطق سے مطمئن نہ ہوسکا۔ سٹرن جیسے ماہرین ’مدار میں کسی ہمسائے کے نہ ہونے‘ کے اصول پر سوال اٹھاتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ زمین بھی 2006 میں بنائی گئی سیارے کی تعریف پر پورا نہیں اترتی کیونکہ اس کے مدار کے قریب 12 ہزار سے زیادہ ستارچے (ایسٹرائیڈز) ہیں۔
ایک دوسرا تنازع یہ تھا کہ ووٹ ڈالنے والوں کی تعداد 27 ہزار کے وفد میں سے 20 فیصد سے بھی کم تھی۔ پراگ میں اس 10 روزہ کانفرنس کے آخری روز منتظمین نے ووٹنگ کرائی تھی۔
سٹرن سمجھتے ہیں کہ ’آئی اے یو نے اپنا مذاق بنایا کیونکہ میں اب بھی کئی ساتھیوں کو یہی سنتا ہوں کہ پلوٹو ایک سیارہ ہے۔‘
ناسا کے سائنسدان کا کہنا ہے کہ ان کی طرح سیاروں پر تحقیق کرنے والے ماہر آئی اے یو کے اصولوں کو نظر انداز کرتے ہیں اور سیاروں کی جیو فزیکل تعریف اپناتے ہیں: یعنی اس کے پاس اتنی گریویٹی ہو کہ یہ گول رہے اور اس کا ماس اس قدر کم ہو کہ اس کے اندر نیوکلیئر فیوژن نہ ہوسکے۔ ان قوانین کے تحت پلوٹو اور دیگر بونے سیارے نظام شمسی کے پلینٹ ہی مانے جائیں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے یہ چیز سب سے زیادہ پریشان کرتی ہے کہ ووٹ تو کوئی سائنسی عمل نہیں۔‘
سٹرن کو اس وقت خوشی ہوئی جب ناسا کے نیو ہورائزنز مشن سے ملنے والی معلومات میں ان کی رائے درست ثابت ہوئی۔ جنوری 2006 میں آغاز کے نو سال بعد یہ مشن پلوٹو پہنچا اور بونے سیارے کے بارے میں متعدد دریافتیں کی گئیں جن سے سائنسدانوں نے پلوٹو کا نیا ماڈل تیار کیا۔
ان میں سے ایک دریافت یہ تھی کہ پلوٹو میں زیر زمین ’وسیع، مائع، پانی کا بحر‘ ہوسکتا ہے۔
’ہم نے ثابت کیا کہ پلوٹو ہماری سوچ سے زیادہ پیچیدہ ہے اور اس سے مجھے یقین ہوگیا کہ سیارے کی موجودہ تعریف درست نہیں۔‘
’ہمیں پھر بھی پلوٹو سے محبت ہے‘
آئی اے یو کی موجودہ سربراہ اور امریکی ایسٹرو فزیسسٹ ڈیبرا المیگرین نے بی بی سی کو بذریعہ ای میل بتایا کہ انھیں اس بحث پر کوئی حیرانی نہیں۔
انھوں نے 2018 میں یہ عہدہ سنبھالا اور ان کا کہنا ہے کہ ’پلوٹو ہم میں سے کئی لوگوں کی زندگی میں دریافت ہوا تو یہ ہماری روایت کا حصہ ہے۔‘
’اکثر بچے خلا میں سب سے پہلے سیاروں کے بارے میں پڑھتے ہیں۔‘
تاہم ان کا خیال ہے کہ آئی اے یو آنے والے وقت میں فوراً پلوٹو کو سیاروں کی فہرست میں شامل نہیں کرے گا اور سفارتی اعتبار سے ایسا لگتا ہے کہ اب آگے بڑھنے کا وقت ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’پلوٹو بونے سیاروں کی فہرست میں رہے گا تاہم سیاروں کے نظام میں ارتقا کو سمجھنے میں اس کی اہمیت نہیں بدلے گی۔‘
آئی اے یو کی سربراہ کے مطابق اس بحث سے لوگوں کو علم فلکیات کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ تو یوں ٹوئٹر پر کلائیڈ ٹامبو کے پیروڈی اکاؤنٹس اور فلیگ سٹاف میں موجود بیلٹ بوکس سے زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔