پیرا سائیکالوجی
مسائل کا حل
تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ پیرا سائیکالوجی ۔۔۔ تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی ) قلندر شعور“ میں ”خواب کی تعبیر کے مقبول سلسلہ کے علاوہ پیرا سائیکالوجی طریقہ علاج کے تحت مسائل کے حل کا سلسلہ شروع کیا جارہا ہے۔ اگر آپ کسی مسئلہ کا حل دریافت کرنا چاہیں تو ادارہ کو خط لکھ سکتے ہیں ۔ خط کے ساتھ ٹوکن منسلک ہونا ضروری ہے۔ ٹوکن جلد شائع کیا جائے گا، انشاء اللہ ۔
پیرا سائیکالوجی سے متعلق گذشتہ اقساط کا خلاصہ پڑھئے:
خیال میں وہ سب موجود ہے جو کائنات میں ہے۔ کائنات کی ابتدا ارادہ سے ہوئی اور ارادہ کا ئنات میں خیال کی ابتدا ہے ۔ آدمی ایجادات کے لئے پہلے سے موجود وسائل” سے مدد لیتا ہے۔ وسائل کو محض مادی اشیا سے منسوب کیا جاتا ہے جب کہ کسی بھی کام کو انجام دینے کے لئے بنیادی وسیلہ خ ی ال ہے۔ سننا دیکھنا، سمجھنا بولنا، کھانا پینا ، چلنا پھرنا ، سونا جاگنا، لکھنا پڑھنا ، غور کرنا۔ خیال کے تحت ہے۔ خیال پر عمل کو فرو جب اپنے ارادہ سے منسوب کرتا ہے تو مسائل شروع ہوتے ہیں ۔ مسائل کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ذہن رک گیا ہے ۔
زندگی تین معین دائروں میں گزرتی ہے۔ فزکس وسائل کی دنیا ہے۔ فرد وسائل استعمال کرتے ہوئے جن تجربات سے گزرتا ہے وہ سائیکالوجی ہے۔ وسائل اور ان کی طرف متوجہ ہونے کا خیال جہاں سے آرہا ہے وہ علم پیرا سائیکالوجی ہے۔ شے کی طرف متوجہ ہونے سے شے کی خصوصیات منتقل ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس فرد خیال کے سورس، خیال کی تحریکات اور خیال کے نظام پر متوجہ ہو جائے تو ذہن شکوک و شبہات اور ٹوٹ پھوٹ سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ اب آپ پڑھئے کہ توجہ کی مدد سے فرد طبیعیات میں رہتے ہوئے پیرا سائیکالوجی کے زون میں کیسے داخل ہو سکتا ہے۔
مابعد النفسيات ( پیرا سائیکالوجی) میں مریض کے ماحول اور نفسیات کا ادراک کر کے علاج کیا جاتا ہے کہ ذہن کہاں الجھ گیا ہے ۔ چوں کہ ہر عمل کا تعلق خیال سے ہے لہذا فرد کی توجہ تبدیل کرنے سے مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔
فرد کو ذہنی طور پر مضبوط بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ اسے سکھایا جائے کہ مایوسی یا ذہنی تناؤ سے توجہ کیسے تبدیل کریں۔ یعنی فرد کی نفسیات میں تصرف !
آدمی حالات و واقعات اور ماحول میں موجود چیزوں کو نفسیات کے مطابق دیکھتا ہے۔ کوئی فرد بڑی سےبڑی بات کو نظر انداز اور کوئی چھوٹی بات کو مسئلہ بنا لیتا ہے۔ فرق رویہ کا ہے جو ماحول سے بنتا ہے اور ماحول کی بنیاد طرز فکر ہے ۔ یہی طرز فکر نفسیات ہے۔
نفسیات اور طبیعیات کی دنیا کو سمجھنے کے لئے ما بعد النفسیات کا علم راہ نمائی کرتا ہے۔
علم مابعد النفسیات انکشاف کرتا ہے کہ دنیا میں کسی عمل کی تکمیل خیال آئے بغیر نہیں ہوتی۔ روحانی علومبتاتے ہیں کہ انسان تین پرت کا مجموعہ ہے۔
ا۔ صفات
۲۔ ذات
۳۔ مادی جسم
پرت کیا ہے؟ پیاز کی مثال سے سمجھیں۔
پیاز پرتوں کا مجموعہ ہے۔ پرتوں کو احتیاط سے الگ کریں، پیاز نظر نہیں آئے گا، میز پر ذرات بکھرےہوں گے۔ پیاز کہاں گیا۔؟
ذات اور صفات جاننے کی دوطرزیں ہیں۔
پانی سے پیاس بجھتی ہے، بجلی بنتی ہے ، یہ زندگی کوبرقرار رکھتا ہے اور تخلیقی عناصر میں بنیادی عنصر ہے۔ یہ پانی کی صفات ہیں۔ پانی بذات خود کیا ہے ، اس سے یہ واقف ہونے کے لئے ان مقداروں کا وقوف حاصل کرتا ہے جن سے پانی بنتا ہے۔ کسی چیز کا وصف معلوم کر لینا شعور کے دائرہ کار میں ہے لیکن اس کی حقیقت تک پہنچنے کے لئے شعور سے ماورا ایک اور شعور ہے جسے لاشعور کہتے ہیں۔
پانی کی حقیقت کیا ہے یہ امر ان لوگوں پر منکشف ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے نائب ، پیغمبران کرام اور خاتم م النبین حضرت محمد کے روحانی علوم کے وارث ہیں ۔
ایسے بندے خلیفہ الارض ہیں۔ایک شخص کا نام زید ہے۔ زید ماضی میں خود غرض تھا لیکن اب لوگوں کا ہم درد ہے۔ ممکن ہے کہ مستقبل میں اس کی صفات میں مزید تبدیلی واقع ہو۔ سطحی شعور کی رائے زید کے بارے میں بدلتی رہے گی ۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ زید خود غرض تھا تو بھی زید تھا اور جب نرم دل بنا تب بھی زید رہا، اسے اچھے اور برے کی سند ماحول نے دی۔
روحانی علوم سے واقف ہستیوں کے لیے زید کھلی کتاب ہے کیوں کہ وہ ظاہر میں نہیں اللہ کی دی ہوئی بصارت سے باطن سے واقف ہوتے ہیں ۔
صفات در اصل ذات کا تعارف ہیں۔ روحانی انسان صفات کے ذریعے ذات مطلق کی تلاش میں رہتا ہے۔ خالق کا ئنات اللہ نے آسمانی کتابوں میں صفات کو اپنی نشانیاں قرار دیا ہے کہ بندہ صفات کے ذریعے ذات کا عرفان حاصل کرے۔
پیاز کی پرتیں پیاز کی صفات ہیں ۔ ان پرتوں میں ذات تک پہنچنے کی خصوصیات ہیں۔ پیاز کے پرت سے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ پیاز ہے ۔ اسی طرح پانی کےقطرہ میں سمندر کی مقدار میں ہیں ۔ مٹی کے ذرہ میں پہاڑ ریکارڈ ہے ۔ بات پرت، قطرہ اور ذرہ کے ندردیکھنے اور تفکر کرنے کی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو دین فطرت پر پیدا کیا ہے، ماں باپ کی تربیت اور ماحول اسے تعصبات میں تقسیم کر دیتی ہے ۔ دین فطرت یہ ہے کہ بندہ کو کامل یقین ہو کہ اسے پیدا کرنے ، رزق دینے ، کفالت اور تمام ضروریات پوری کرنے والی ذات صرف اللہ تبارک و تعالیٰ ہے۔ وہ خود کو اللہ کے سپرد کرتا ہے۔یہ نیوٹرل طرز فکر ہے۔
جو لوگ علم میں راسخ ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہمارا اس بات پر یقین ہے کہ ہر شے اللہ کی طرف سے ہے۔“ (العنكبوت: ٢٩)
اس کے برعکس رخ شیطانی طرز فکر ہے۔ جب شیطانی طرز فکر تناور درخت بنتی ہے تو شاخوں پر وہم ، پریشانی ، نافرمانی ، خوف، بے سکونی ، کینہ اور حسد جیسےپھل لگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں،
اور ناپاک بات کی مثال ایک بری ذات کے درخت کی ہے جو زمین کی سطح سے اکھاڑ پھینکا جاتا ہے، اس کے لئے کوئی استحکام نہیں ہے۔“ (ابراهیم: ۲۶)
اللہ سے دوری شک اور بے یقینی کو جنم دیتی ہے ۔ جس دماغ میں شک ہے وہاں شیطنت ہے اور جہاں اللہ ہے وہاں یقین ہے۔ اور یقین قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنے سے مستحکم ہوتا ہے۔ ہم آسودہ یا غم زدہ زندگی گزارنے کے قانون سے ناواقف ہیں اور آسودگی کے حصول کے لیے ایسے قدم اٹھا لیتے ہیں جن میں مایوسی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ زندگی کا تجزیہ کریں تو آدھی سے زیادہ مایوسی میں گزر جاتی ہے کیوں کہ ہم نہیں جانتے کہ وہ کون سا راستہ ہے جہاں مسرت کی قندیلیں روشنی بکھیر رہی ہیں ۔ وہ کون سی فضا ہے جس میں شبنم موتی بن جاتی ہے۔ وہ کون سا ماحول ہے جو پُرسکون ہے۔ وہ کون سی خوش بو ہے جس سے شعور روشن ہوتا ہے۔ ہم نا خوش اس لئے ہیں کہ اللہ کی رضا میں راضی نہیں رہتے اور اپنی مرضی کے نتائج چاہتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے کہ ہمارا علم محدود ہے۔رحیم و کریم ہستی اللہ کا فرمان ہے،
اور شاید تم کو بری لگے ایک چیز ، اور وہ بہتر ہو تمہارے لئے ۔ اور شاید تم کو اچھی لگے ایک چیز ، اور وہ بری ہو تمہارے لئے ۔ اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔“ (البقرة: (۲۱۶)
ایک خاتون نے خط میں لکھا،
میرے شوہر لندن کی رنگین فضاؤں میں گم ہو گئے اور انہیں میرا کوئی خیال نہیں رہا۔ نشہ کی بری عادت کے سبب مارکٹائی سے بھی باز نہیں آتے تھے ۔ آپ کو خط لکھ کر مسئلہ بتایا ۔ آپ نے علاج تجویز کیا کہ اپنے شوہر کی بڑی تصویر بنا کر کمرے میں پیروں کے رخ
دیوار پر الٹی لٹکا دیں ۔
میں نے یہاں ایک بہت اچھے مصور سے شوہر کی بہت اچھی خوب صورت رنگین تصویر بنوائی اور عمدہ قسم کے فریم میں لگوا کر حسب ہدایت تصویر کو الٹا لٹکا دیا۔ تصویر میرے اور شوہر کے درمیان ضد اور بحث کا موضوع بن گئی۔ شوہر نے مجھ سے قطعاً لا پروائی اختیار
کر لی اور بات چیت بند کر دی۔
ہوتا یہ تھا کہ شوہر جیسے ہی کمرے میں داخل ہوتے ، تصویر سیدھی کر دیتے اور جیسے ہی وہ کمرے سے باہر نکلتے میں تصویر کو الٹا کر دیتی ۔ اس خاموش لڑائی یا ذہنی کش مکش نے یہ رخ اختیار کیا کہ شوہر نے اپنا سر ہانا پیروں کی طرف کر لیا تا کہ لیٹتے وقت انہیں تصویر نظر نہ آئے۔ میں نے تصویر اتار کر دوسری طرف لٹکا دی جہاں لازماً ان کی نظر پڑے۔ یہ سلسلہ اکیس روز تک یوں ہی چلتا رہا۔ بالآخر ایک دن انہوں نے مجھ سے از خود بات کی ۔ اکیس روز کے عرصہ میں ان کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ یہ تھے۔
میں اب بہت تھک گیا ہوں، ٹوٹ گیا ہوں۔اگر ہم دونوں ذہنی طور پر ہم آہنگ نہیں ہوئے تو میں بکھر جاؤں گا ۔“
تصویر کا الٹ پھیر جاری رہا۔ آپ کی ہدایت تھی کہ شوہر کتنا ہی احتجاج کریں، تصویر سیدھی نہ ہونے دیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ شوہر گھر پر وقت کی پابندی کے ساتھ آتے جاتے ہیں۔ نشہ کم کر دیا ہے، لیکن ابھی تک وہ پوری طرح میری طرف متوجہ نہیں ہوئے البتہ ضروریات کا کافی حد تک خیال رکھتے ہیں۔کیا تصویر الٹنے کا عمل جاری رکھوں۔؟
خط کے جواب میں خاتون کو بتایا گیا، تصویر الٹنے کا عمل جاری رکھیں لیکن اس میں یہ تبدیلی کر لیں کہ جب آپ کے شوہر سو جائیں ، تصویر الٹی کر دیں اور ان کے بیدار ہونے سے پہلے تصویر کو سیدھا کر دیں ۔ گیارہ روز یہ عمل کرنے کے بعد تصویر کو اس کمرے سے الگ کر دیں اور تصویر کی جگہ اپنی اور اپنے شوہر کی تصویر لٹکادیں ۔ اتاری ہوئی تصویر کو سمندر سپرد کر دیں ۔
گیلی مٹی۔ پختہ اینٹ
حضرت شہاب الدین سہروردی فرماتے ہیں۔ حق الیقین وہ حالت ہے جو پر دہ قلب کو چاک کر کے قلب کے مرکز میں نقطہ سیاہ تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ نوع آدم کے لئے بہترین عطیہ، عمدہ اور اشرف حال ہے ۔ اس حال اور مشاہدہ کا وہی تعلق ہے جو پاتہ اینٹ کا خاک سے ہوتا ہے۔ خاک پہلے گیلی مٹی بنتی ہے پھر کچی اینٹ اور آخر میں پختہ اینٹ بنتی ہے۔ اسی طرح مشاہدہ اصل بنیاد ہے۔ مشاہدہ سے خا کی بنیاد قائم ہوتی ہے۔ پھر کچی اینٹ کی مانند بقا کا وجود ہوتا ہے۔ اس کے بعد حق الیقین حاصل ہو جاتا ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ ستمبر 2019