Daily Roshni News

پیشاب

پیشاب
کل وڑائچ بس میں سفر کر رہی تھی۔ اس بس کا انتخاب ویسے بھی بہت مجبوری میں ہی کرتی ہوں کیونکہ انہوں نے بس کا انفراسٹرکچر تو خوبصورت بنا لیا ہے لیکن ان کے عملے کا رویہ نیو چوہدری/گجر طیارے والا ہی ہے۔
بس کراچی سے ساھیوال جا رہی تھی۔ صادق آباد میں اس کا ایک پڑاو تھا جس کے دو تین گھنٹوں کے بعد ملتان آیا ، جہاں ملتان کی سواریاں اتریں ۔ ایک سات آٹھ سال کی بچی بس کے دروازے پر نیچے اترنے کےلیے پہنچی تو اسے ڈانٹ کر واپس بھیج دیا کہ یہاں صرف سواری اتارنے کی اجازت ہے۔
چیر اس کے کچھ گھنٹوں کے بعد میاں چنوں کے پاس جب بس سواریاں اتار رہی تھی تو پھر وہ بچی آئی کہ اسے واش روم کےلیے جانا ہے۔ لیکن ڈرائیور نے اسے نہیں جانے دیا۔
وہ بچی اپنی سیٹ پر بیٹھ کر رونے لگ گئی۔ بس ہوسٹس نے بھی ڈرائیور سے بس روکنے کا کہا تو اس نے اثر نہیں لیا۔
بچی کی ماں نے بولا کہ اگر بس نہیں رکے گی تو وہ بچی یہاں ہی پیشاب کر دے گی۔
میں نے بھی ڈرائیور سے بولا کہ بچی شوق سے نیچے اترنا نہیں چاہ رہی۔ وہ اس وقت شدید تکلیف میں ہے۔ اگر اس بچی کی جگہ آپ کا بلیڈر بھرا ہوا ہوتا تو میں دیکھتی کہ تب بھی آپ اسی بےحسی کا مظاہرہ کرتے ۔ کمپنی کے اصول جو بھی ہوں، نیچر کی اس کال پر بس نہ روکنا ایک غیر انسانی حرکت ہے۔
میرے غصہ کرنے پر اس نے کہا کہ وہ مناسب جگہ دیکھ کر بس ڈھونڈتا ہے۔ بیشتر مناسب جگہیں آئیں مگر اس کہ تلاش ختم نہ ہوئی اور اس چکر میں مزید بیس منٹ گزر گئے اور اس بچی نے بس میں ہی پیشاب کر دیا۔
اس پر ان کا عملہ کچھ بولتا، میں نے بولا کہ اس بچی کو پورا حق تھا کہ اس صورتحال میں وہ بس میں پیشاب کرے۔
اور جب پانی سر سے گزر گیا تب ڈرائیور نے بس روکی اور پھر بچی کہ والدہ نے برہم ہو کر کہا کہ ہمیں نہیں ضرورت اب بس سے اترنے کی۔
میرے لیے یہ سب دیکھنا شدید تکلیف دہ تھا کہ ایک بچی اتنی تکلیف میں تھی کہ اسے شرم و حجاب کے تقاضے پسِ پیش رکھ کر بس میں پیشاب کرنا پڑا۔ درحقیقت اس بچی نے بس میں نہیں پوری عوام کے چہرے پر پیشاب کیا ہے۔
اب یہ بس سروسز جو کراچی سے پنجاب کے دور دراز کے سفر کرتی ہیں، وہ وڑائچ ہو، ڈائیوو ہو یا فیصل مورز ان سب کی سروسز جو پنجاب کے شہروں میں ہوتی ہے وہ کراچی سے پنجاب کےلیے نہیں ہوتی۔ یہاں یہ لوگ نان اسٹاپ ایریا پر بھی گاڑی روک لیتے ہیں۔ عید کے دنوں سواریاں ٹرمینلز کی بجائے چھوٹے چھوٹے اسٹاپ سے بھی سواریاں اٹھا لیتے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ تب کمپنی کے اصول کہاں جاتے ہیں؟
اب یہ بسیں ہم سے کرائے کی مد میں اتنے پیسے لیتے ہیں، غیر معیاری کھانا دیتے ہیں۔ اپنی طرف سے انہوں نے جہاز کا مقابلہ کر لیا ہے۔۔۔کیسے؟ صرف ایک عورت کو بس ہوسٹس بنا کر۔
ان لگثرری اور ایگزیکٹو ہر اس بس میں جو چار پانچ گھنٹوں سے اوپر کا سفر طے کرتی ہے اس میں واش روم کا ہونا لازم ہے۔
دو سیٹیں ہٹا کر وہاں ایک واش روم کا بندوبست کیا جاسکتا ہے۔
جی سلیپر بس میں واش روم کا بندوبست ہے۔ یہ کمپنیاں آئے روز ایک فیچر لاتہ جائیں گی اور اس چکر میں ہمیں لوٹتی جائیں گی۔
جو نان سلیپر بسوں میں لوگ سفر کرتے ہیں ، وہ انسان نہیں ہیں کیا؟ یا ان کے بلیڈرز بوقتِ ضرورت اتار کر رکھے جا سکتے ہیں؟
کمپنیز کے ان غیر انسانی اصولوں کے خلاف سب کو آواز اٹھانا ہوگی ۔
پیشاب کی حاجت انہتائی فطری عمل ہے جسے ایک حد سے زیادہ نہیں روکا جا سکتا اور روکنا چاھیے بھی نہیں ہے۔ اتنے اہم مسئلے کص بس کمپنیز نے کتنے آرام سے نظر انداز کیا ہوا ہے۔
ہر وہ بس جو واش روم کےلیے کسی نان اسٹاپ پر بس نہیں روک سکتی تو اس بس میں واش روم کا ہونا لازم قرار دیا جائے ۔
برائے کرم اس موضوع پر بات کر کے اس غیر انسانی پریکٹس کو روکا جائے ۔

Loading