Daily Roshni News

پی ٹی آئی کو سرٹیفکیٹ تب ملے گا جب پارٹی آئین کے مطابق انتخابات ہوں گے: سپریم کورٹ

سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات اور بلےکے انتخابی نشان کے معاملے کی سماعت جاری ہے۔

سپریم کورٹ میں پشاور ہائیکورٹ فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر دوسرے روز سماعت ہو رہی ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بینچ میں شامل ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے دو سوالات ہیں کہ کیا عدالتی دائرہ اختیار تھا یا نہیں، کیا الیکشن کمیشن کے پاس انٹرا پارٹی الیکشن کی چھان بین کا اختیار ہے یا نہیں۔

پی ٹی آئی وکیل بیرسٹر علی ظفر کے دلائل

پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا عدالت کی معاونت کروں گا لیکن آج انتخابی نشان، حتمی فہرستوں کے اجراء کی آخری تاریخ ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا عدالت کو ادراک ہے، عدالت پر ایک بوجھ فیصلہ لکھنے کا بھی ہے جو وکیل پر نہیں ہے،وکیل تو بس دلائل دےکر نکل جاتے ہیں ہمیں فیصلہ لکھنے کے لیے بھی وقت درکار ہوتا ہے۔

وکیل علی ظفر نے کہا آئین اور الیکشن ایکٹ الیکشن کمیشن کوانٹرا پارٹی الیکشن کے جائزےکی اجازت نہیں دیتے، انتخابی نشان انٹرا پارٹی انتخابات کی وجہ سے نہیں روکا جا سکتا، آرٹیکل 17 دو تحت سیاسی جماعتیں بنانے کا اختیار دیتا ہے، سپریم کورٹ بھی آرٹیکل 17 دو کی تفصیلی تشریح کر چکی ہے۔

 الیکشن کمیشن نے بلے کا نشان چھین کر بظاہر بدنیتی کی ہے: علی ظفر

علی ظفر نے کہا کہ انتخابات ایک انتخابی نشان کے ساتھ لڑنا سیاسی جماعت کے حقوق میں شامل ہے، سیاسی جماعت کو انٹراپارٹی انتخابات کی بنیاد پر انتخابی نشان سے محروم کرنا آرٹیکل 17 دو کی خلاف ورزی ہے، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے ساتھ امتیازی سلوک برتا ہے، الیکشن کمیشن نے بلے کا نشان چھین کر بظاہر بدنیتی کی ہے، الیکشن کمیشن کورٹ آف لا نہیں جو فیئر ٹرائل دے سکے۔

انہوں نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ پی ٹی آئی کے کسی ممبر نے انٹرا پارٹی انتخابات کو چیلنج نہیں کیا، اگر انتخابات چیلنج بھی ہوتے تو یہ سول کورٹ کا معاملہ بنتا ہے، الیکشن کمیشن کے پاس از خود نوٹس کا اختیار نہیں ہے، الیکشن کمیشن کا انتخابی نشان سے انکار آرٹیکل 17 کی خلاف ورزی ہے، الیکشن کمیشن عدالت نہیں ہے، الیکشن کمیشن احکامات حقائق کے برعکس، صوابدیدی ہوں تو عدالت کو جوڈیشل ریویو کا اختیار ہے، بنیادی سوال یہ ہےکہ سیاسی جماعت یا افراد کے سول رائٹس کا فیصلہ آرٹیکل 10 اے کے تحت فئیر ٹرائل سے ہو سکتا ہے، الیکشن کمیشن کا فیصلہ آرٹیکل 10 اے سے متصادم ہے کیونکہ ایسا کوئی ٹرائل نہیں ہوا۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ پی ٹی آئی سیاسی جماعت ہے جو پرائیویٹ شہریوں کی تنظیم ہے، الیکشن کمیشن کو ازخود طور پر شکایت کنندہ اور فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہے، پی ٹی آئی نے 8 جون 2022 کو پہلا انتخاب کرایا، 23 اکتوبر کو الیکشن کمیشن نے کہا کہ یہ غلط الیکشن ہیں، دوبارہ 20 دن میں کرائے جائیں، الیکشن کمیشن نے یہ فیصلہ اس وقت دیا جب سپریم کورٹ نے 8 فروری کی تاریخ کا فیصلہ دیا، الیکشن کمیشن کے حکم نامے میں تسلیم شدہ ہے کہ انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے تھے۔

جمہوریت ملک کیساتھ سیاسی جماعتوں کے اندر بھی ہونی چاہیے: چیف جسٹس

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے فیصلے میں کسی بے ضابطگی کا ذکر نہیں کیا، الیکشن کمیشن نے فیصلے کی جو وجوہات دی ہیں وہ عجیب ہیں، الیکشن کمیشن نے انتخابات کو درست کہا چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی غلط قرار دی، الیکشن کمیشن نے کہا تعیناتی درست نہیں اس لیے انتخابات تسلیم کرینگے نہ ہی نشان دینگے، کل مخدوم علی خان نے تکنیکی نوعیت کے اعتراضات کیے تھے، مخدوم علی خان کا نکتہ پارٹی کے اندر جمہوریت کا تھا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا جمہوریت ملک کیساتھ سیاسی جماعتوں کے اندر بھی ہونی چاہیے، بنیادی سوال جمہوریت کا ہے پارٹی آئین پر مکمل عملدرآمد کا نہیں، کم از کم اتنا تو نظر آئے کہ انتخابات ہوئے ہیں، انتخابات جو بھی ہوں ہر کوئی ان سے خوش نہیں ہوتا، اکبر بابر بانی رکن تھے وہ پسند نہیں تو الگ بات لیکن انکی رکنیت تو تھی، صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ درخواست گزار پارٹی رکن نہیں تھے، اکبر بابر نے اگر استعفیٰ دیا یا دوسری پارٹی میں گئے تو وہ بھی دکھا دیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا صرف سوشل میڈیا یا میڈیا پر الیکشن کمیشن پر الزامات عائد کرنا کافی نہیں، الیکشن کمیشن کی بدنیتی ثابت کرنا ہو گی، الیکشن کمیشن نے بتایا کہ پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران شوکاز نوٹس کیے گئے، الیکشن ایکٹ کو چیلنج نہیں کیا گیا اس لیے ایکٹ پر کوئی بات نہیں کریں گے، کیا آپ کی حکومت میں الیکشن کمیشن ایک آزاد آئینی ادارہ تھا جو اب کسی کے ماتحت ہو گیا؟

الیکشن کمیشن نے ازخود تو کارروائی نہیں کی شکایات ملنے پر کارروائی کی: جسٹس مظاہر

بیرسٹر علی ظفر نے کہا الیکشن ایکٹ کو ہم بھی چیلنج نہیں کر رہے، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کیا پی ٹی آئی نے اپنا جاری کردہ شیڈول کو فالو کیا تھا؟ کیا انتخابات شفاف تھے کچھ واضح تھا کہ کون الیکشن لڑ سکتا ہے کون نہیں؟

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا آپ لیول پلینگ فیلڈ مانگتے ہیں اپنے ارکان کو بھی تو لیول پلینگ فیلڈ دینی ہو گی، الیکشن کمیشن نے ازخود تو کارروائی نہیں کی شکایات ملنے پر کارروائی کی۔

وکیل پی ٹی آئی نے کہا الیکشن کمیشن نے ایسی کسی بے ضابطگی کی نشاندہی نہیں کی، تمام سوالات کے جواب دستاویزات کے ساتھ دوں گا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے پوچھا جب پارٹی الیکشن ہو رہا تھا اس وقت پارٹی ہیڈ کون تھا، جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا اس وقت سربراہ بانی پی ٹی آئی تھے، جبکہ جسٹس محمد علی مظہر  نے کہا الیکشن کمیشن نے الیکشن ایکٹ کے سیکشن 215کے تحت اقدام کیا۔

مبینہ طور پر آج فوج کی مداخلت نظر نہیں آرہی: چیف جسٹس پاکستان

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہم عمومی طور  پر اسٹیبلشمنٹ کا لفظ استعمال کر دیتے ہیں، ہم کیوں دیانت داری کے ساتھ فوج کا لفظ استعمال نہیں کرتے؟ مبینہ طور پر آج فوج کی مداخلت نظر نہیں آرہی، آپ یہ الزام لگاسکتے ہیں کہ فوج مداخلت کر رہی ہے، آپ کی درخواست پر 12دنوں میں انتخابات کی تاریخ دی گئی، آپ کی جماعت خوش تھی،سب خوش تھے، آج پاکستان میں عدالتوں تک رسائی حاصل ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ایسی بات نہیں ہے کہ کوئی درخواست دائر نہیں کر سکتا، جب آپ حکومت میں تھے ہمیں وہاں بھی جانا ہوگا، جب آپ کو الیکشن کمیشن نے پہلا نوٹس جاری کیا، میڈیا میں آ کر الزامات لگا دینے سےآئینی ادارے کمزور ہوتے ہیں، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ الزامات نہ لگائیں اگر وہ سچے ہیں، جب آپ حکومت میں تھے الیکشن کمیشن نے آپ کو نوٹس کیا تھا، ہمیں دیکھنا ہو گا اس وقت کیا بدنیتی کی گئی؟ 

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہمیں اس بات کا اندازہ لگانے کیلئے پوری ٹائم لائن دیکھنا ہوگی، اچانک الزام لگانا کہ اسٹیبلشمنٹ الیکشن کمیشن پراثرانداز ہو کرکچھ کر رہی ہے ہم اس بات کو یقینی طور  پر سنیں گے، اس اسٹیبلشمنٹ پر اس وقت آپ کا یہ الزام نہیں ہوگاکہ یہ الیکشن کمیشن کے ساتھ ملے ہوئے ہیں، اگر آپ اسے ڈرامائی اور سیاسی رنگ دینا چاہتے ہیں تو پورا متن بیان کریں یا اپنے کیس کو قانون تک محدود رکھیں۔

سرٹیفکیٹ پارٹی آئین کے مطابق انتخابات سے مشروط ہے: جسٹس مسرت ہلالی

پی ٹی آئی وکیل نے کہا الیکشن ایکٹ کے مطابق ہر سیاسی جماعت نے پارٹی انتخابات کے7 دن میں سرٹیفکیٹ دینا ہے، جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے کہا سرٹیفکیٹ پارٹی آئین کے مطابق انتخابات سے مشروط ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا الیکشن کمیشن کو انٹرا پارٹی انتخابات کی اسکروٹنی کا اختیار نہیں ہے، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا اصل مسئلہ ہی دائرہ اختیار کا بنا ہوا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا ایک ہی دکھڑا ہے کہ پارٹی انتخابات کرا لو، جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا پارٹی الیکشن کرائے لیکن وہ الیکشن کمیشن نے نہیں مانیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا 14 درخواست گزاروں کو الیکشن کیوں لڑنے نہیں دیا؟ جس پر علی ظفر نے کہا کسی کو اعتراض ہے تو سول کورٹ چلا جائے، چیف جسٹس نے کہا ہم جمہوریت کیساتھ کھڑے ہیں چاہے وہ گھر کے اندر ہو یا باہر ہو،  آپ تسلیم کرلیں جمہوریت چاہیے یا نہیں؟آپ کو سیاست چاہیےجمہوریت نہیں چاہیے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی کو سرٹیفکیٹ تب ملے گا جب پارٹی آئین کےمطابق انتخابات ہوں گے، جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے کہا الیکشن کمیشن انٹرا پارٹی انتخابات کی بنیاد پر ایسا حکم نہیں دے سکتا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے یہ ایسی بات ہےکہ پاکستان اور انگلینڈ کا ٹیسٹ میچ ہے،کھیلے نہیں مگر سرٹیفکیٹ مل گیا، پارٹیوں میں بڑےعہدوں پربڑی سیاسی شخصیات ہوتی ہیں، ہو سکتا ہے احترام میں ان بڑی سیاسی شخصیات کےخلاف کاغذات جمع نہ کرائے گئے ہوں، جو چھوٹے عہدے ہیں ان پربھی بلامقابلہ امیدوار منتخب ہوئے، اس طرح پارٹی انتخاب کی ساکھ نظر نہیں آتی۔

سیاسی پارٹیوں کے اندربھی جمہوریت ہونی چاہیے: چیف جسٹس پاکستان

بیرسٹر علی ظفر نے کہا فرض کریں کوئی بھی الیکشن لڑنے نہیں آیا تو کیا الیکشن کالعدم ہو جائے گا، جس پر چیف جسٹس نے کہا پوری جمہوریت پر چلیں گے، لنگڑی لولی والی بات نہیں ہو گی، اگر 8 فروری کو 326 ارکان کوبلامقابلہ جتواکر آجائیں تو میں ایویں نہیں مانوں گا، سرکار 326 امیدواروں کو ان کےگھروں میں بند کردے اور 326 امیدواروں کو بلامقابلہ منتخب کرائے، قانونی طور پر تو الیکشن ہوگا لیکن میں تو اسےالیکشن نہیں مانوں گا، سوچ سمجھ بھی کوئی چیز ہوتی ہے، پارٹیوں کے اندربھی جمہوریت ہونی چاہیے، کاغذ کے ٹکڑوں پر نہیں چلتا ایک چیز ہے کہ کچھ ہوا یا نہیں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی نے ویب سائٹ پر تو اعلان نہیں کیا، مخصوص لوگوں کو کیسے پتا کہ الیکشن ہے، جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا پارٹی الیکشن کےکاغذات نامزدگی ویب سائٹ پر بھی تھے اور صوبائی الیکشن کمیشن میں بھی تھے ، پارٹی الیکشن ہونے کے بعد کاغذات نامزدگی ویب سائٹ سے ہٹا دیے گئے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا یہ تو پھرآپ تسلیم کر رہےہیں کہ آپ نے پارٹی کے آئین کی خلاف ورزی کی، آپ کےآئین میں درج ہےکہ پارٹی چیئرمین کا الیکشن 2 سال بعد اورباقی عہدیداروں کا 3سال بعد ہونا ہے، سب جانتےہیں کہ سیاسی جماعتوں کے بڑے بڑے عہدوں پرکون کون لوگ موجود ہوتے ہیں، شاید عزت میں یا کسی اور  وجہ کے تحت ان عہدوں پر کوئی سوال نہیں اٹھاتا، چلیں ان بڑے عہدوں پر نہ سہی چھوٹے عہدوں پر تو الیکشن ہونے چاہئیں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ کے انٹراپارٹی الیکشن بلامقابلہ ہوئے ہیں تو پھرآپ کےمطابق جوپشاورکےعلاقے چمکنی میں اتنے لوگ اکٹھے تھے وہ کیوں آئے، کیا وہاں کسی نے بھی کسی ایک عہدیدارکے بلامقابلہ منتخب ہونے پر سوال نہیں اٹھایا؟ 

پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا ہر جماعت کے پاس ایک بڑا لیڈر ہوتا ہے، سیاسی جماعتوں میں اس لیڈرکی عزت کےتحت لوگ ان کے فیصلے کی مخالفت نہیں کرتے، پی ٹی آئی کے پاس بانی پی ٹی آئی جیسی قیادت ہے جس کے فیصلے پر لوگوں نے اعتراض نہیں کیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے معذرت کےساتھ پھر یہ جمہوریت نہیں آمریت ہے، میں اسے آمریت کہوں گا، کچھ عہدیداروں پر اعتراض نہ ہو سمجھ آتی ہے مگر کسی پر اعتراض نہ ہونا سمجھ سے باہر ہے۔

علی ظفر نے کہا اگر یہ بھی سمجھ لیاجائےکہ انٹرا پارٹی انتخابات کے مقام پرکوئی نہیں آیا تو بھی الیکشن پر سوال نہیں ہو سکتا۔

اکبر ایس بابر بانی ارکان میں سے نہیں ہیں، یہ بھی پتا چل گیا ہے: بیرسٹر علی ظفر 

چیف جسٹس نے استفسار کیا بیرسٹرگوہر  یا آپ نے پی ٹی آئی کب جوائن کی؟ جس پر  بیرسٹر گوہر نے کہا میں نےکچھ عرصہ قبل سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کی جبکہ علی ظفر نے بتایا کہ بیرسٹر گوہر پہلے پیپلز پارٹی میں تھے، چیف جسٹس نے کہا تو ہم ایک ایسے پارٹی سربراہ کی بات پریقین کریں جو  2 سال پہلے آیا، اکبرایس بابرپر نہ یقین کریں جو بانی رکن ہیں؟ علی ظفر نے کہا اکبر ایس بابر کو 2018 میں پی ٹی آئی سے نکال دیا تھا، چیف جسٹس پاکستان نے کہا دکھائیں برطرفی کا لیٹر،کل سے یہی تو مانگ رہے ہیں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا اکبر ایس بابر پارٹی ممبر نہیں ہیں تو اس کے ثبوت دکھائیں، جس پر علی ظفر نے کہا مجھے پارٹی کی ہدایات ہیں کہ اکبر ایس بابر سمیت دیگر درخواست گزار  رکن نہیں ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ کو ہدایات کس نے دی ہیں؟ جس پر بیرسٹر علی  ظفر نے کہا پارٹی چیئرمین کی ہدایت ہے کہ درخواست گزار ممبر نہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہدایات وہ چیئرمین دے رہے ہیں جو 2 سال پہلے پارٹی میں آئے۔

علی ظفر بولے پی ٹی آئی کی ویب سائٹ اور رابطہ ایپ پر تمام ممبرز کی تفصیل موجود ہیں، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بولے ویب سائٹ کوئی ثبوت نہیں ہوتا، آپ کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں بھی الیکشن لڑنے دیا جائے بس اتنی سی بات ہے، آپ کو ان کی شکل کیوں بری لگتی ہے اگر ایک آدھ سیٹ لے بھی گئے تو کیا ہوگا۔

پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا اکبر ایس بابر بانی ارکان میں سے نہیں ہیں، یہ بھی پتا چل گیا ہے، چیف جسٹس نے کہا پتا کیا چل گیا ان کا قد کاٹھ آپ سے کہیں زیادہ ہے، علی ظفر آپ نے کب پارٹی جوائن کی، جس پر علی ظفر بولے میں نے تو ابھی حال ہی میں پارٹی جوائن کی ہےڈیڑھ سال پہلے، میں اس سے پہلے کسی سیاسی جماعت میں نہیں تھا۔

Loading