Daily Roshni News

چاند پر جانے کی دوڑ کیوں۔۔۔ تحریر۔۔۔ثاقب علی

چاند پر جانے کی دوڑ کیوں

تحریر۔۔۔ثاقب علی

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ چاند پر جانے کی دوڑ کیوں۔۔۔ تحریر۔۔۔ثاقب علی)اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں چاند پر اترنے کی دوڑ نے ایک بار پھر سے 50 اور 60 کی دہائیوں کا منظر پیدا کردیا ہے۔ اس وقت یہ دوڑ سیاسی زیادہ تھی لیکن اب یہ دوڑ معاشی اور تکنیکی ہے۔ اس مضمون میں آپ کے سامنے معاشی پہلو کے ساتھ ساتھ اس دوڑ میں شامل ممالک کی موجودہ تیاری و صلاحیت کا جائزہ بھی لیا جائے گا۔

امریکہ، چین، روس، انڈیا، جاپان، متحدہ عرب امارات، یورپین اسپیس ایجنسی، کینیڈا، اور آسٹریلیا کی سرکاری و نجی کمپنیاں چاند اپنا مشن بھیجنے کی تگ و دو میں ہیں اور اب تک ٹیکنالوجی کے حساب سے تین ممالک باقی ممالک سے تھوڑے آگے ہیں جن میں امریکہ، چین اور انڈیا شامل ہیں۔  اور ان تینوں میں سے چین اپنی سرعت کی وجہ سے آگے ہے۔ چین تھوڑ ے سے وقت میں چاند کی سطح پر اپنا مشن اتار چکا ہے، چاند کے دوسرے رخ (far side) پر بھی مشن اتار چکا ہے، چاند کی مٹی کا نمونہ زمین پر لا چکا ہے (Chang’e 5) اور جلد ہی چاند کے دوسرے رخ کا نمونہ بھی زمین پر لانے والا ہے (Chang’e 6).

امریکہ کا آرٹیمس پروگرام اسی سال یا اگلے سال چاند کے مدار میں اپنے خلاباز بھیجے گا اور 2026 تک چاند پر خلابازوں کو اتارے گا۔ لیکن امریکہ کو ڈر ہے کہیں چین ان سے پہلے یہ کام نہ کرلے کیونکہ اگر آرٹیمس پروگرام میں تاخیر ہوئی تو چین بازی لے جائے گا۔ چین اپنے لانچ سسٹم کی طاقت کو لے کر ابھی تھوڑا پیچھے ہے مثلاً چین کا Long March 5 لانچ سسٹم چاند کے مداد میں 8 ہزار کلوگرام پے لوڈ لے جاسکتا ہے اور ناسا کا SLS Block 1 چاند کے مدار میں 27 ہزار کلوگرام لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اگر ایلون مسک کی کمپنی SpaceX اپنی Starship کا کامیاب تجربہ کرلیتی ہے تو اس کی پے لوڈ کی مقدار سب سے زیادہ ہوگی۔ اس کے علاوہ امریکہ کی کچھ نجی کمپنیاں بھی چاند پر پے لوڈ لے جانے کی صلاحیت رکھتی ہیں جیسے SpaceX اور ULA. ایسے ہی بھارت ابھی چاند کی دوڑ میں اس لحاظ سے پیچھے ہے (بھارت کا LVM3 چاند تک 3 ہزار کلوگرام لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے) لیکن وہ دنیا کا پہلا ملک ہے جس نے چاند کے جنوبی قطب کے قریب ترین اپنا مشن کامیابی سے اتارا ہے۔

چین اگر اپنا Long March 9 لانچ سسٹم بنا لیتا (جو ابھی جاری ہے) تو وہ چاند پر 53 ہزار کلوگرام اور مریخ پر 40 ہزار کلوگرام پے لوڈ لے جاسکے گا۔

 لانچ سسٹم کی پے لوڈ لے جانے کی صلاحیت چاند پر انفراسٹرکچر ( Lunar Base and Orbital Station) بنانے میں سب سے زیادہ مددگار ہوگی۔ جو ملک بھی اپنا انفراسٹرکچر بنانے میں کامیاب ہوگا وہی چاند کی اس دوڑ میں آگے آگے ہوگا کیونکہ وہاں پر بیس بنانا، وہاں پر Mining کی مشینری لگانا اور وہاں سے قیمتی عناصر کی زمین تک ترسیل میں نمبر لے جانا ہی ابھی تک کے بڑے مقاصد ہیں۔

چاند پر پانی کی تلاش اس لیے ضروری ہے کہ وہاں پر آکسیجن اور ہائیڈروجن کی فراہمی ممکن ہو تاکہ راکٹ فیول اور انسانی استعمال کے لیے کوئی مسئلہ درپیش نہ ہو۔ جنوبی قطب پر پانی کی موجودگی کے کافی شواہد موجود ہیں۔

چاند پر تمام خلائی ایجنسیوں کے لیے سب سے دلکش عنصر ہیلیم-3 (³He) ہے جو ہیلیم کا ایک انوکھا isotope ہے جو مستقبل کی انرجی سمجھا جاتا ہے اور نیوکلیئر فیوژن میں اس کا کامیاب استعمال ایک انقلاب برپا کر سکتا ہے۔ دنیا گلوبل وارمنگ کی طرف جا رہی ہے اور ایسی صورت میں ایسے عنصر کی وافر مقدار میں فراہمی ایک نعمت کے ساتھ ساتھ اس کو حاصل کرنے کی جنگ میں بہت سی مشکلات بھی پیدا کر سکتی ہے۔ ہیلیم 3 کیوں اتنی اہم ہے اس پر اگلے مضمون میں بات کریں گے۔ اس کے علاوہ Rare Earth Metals کی موجودگی بھی اس دوڑ میں ولولہ لانے کی ایک وجہ ہے۔

 اگر کچھ لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں اتنا پیسہ خلائی مشنوں پر لگایا جارہا ہے تو اس کا جواب سادہ سا ہے کہ اس دوڑ میں نجی کمپنیوں کی شمولیت اس بات کو واضح کرتی ہے کہ اس میں یقیناً ایک کاروباری پہلو بھی ہے کیونکہ نجی کمپنی کبھی بھی اپنا سرمایہ بے سود نہیں لگاتی۔ اس کے علاؤہ اس خلائی تحقیق سے درجنوں قسم کی انڈسٹری جنم لیتی ہے جس سے ملازمت کے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور اس تحقیق کی پروڈکٹس خلاء میں جانے سے پہلے زمین والوں کے لیے انتہائی کار آمد ثابت ہوتی ہیں۔

اگلے مضمون میں ہم ہیلیم-3 اور باقی عناصر کی اہمیت پر بات کریں گے۔

پارٹ(۱(

Loading