Daily Roshni News

کامیابی کے دروازے خود پر کھولیے!

کامیابی کے دروازے خود پر کھولیے!

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ فروری 2019

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ کامیابی کے دروازے خود پر کھولیے! )خود کو دوسروں کی مرضی کے سانچے میں ڈھالنا، انفرادیت اور خود اعتمادی کو ختم کر دیتا ہے۔

جاپان کا یا ماموٹو ذہنی طور پرمعذور پیدا ہوا تھا۔ چھ ماہ کی عمر میں ڈاکٹروں نے اس کے والدین کو بتا دیا تھا کہ وہ بہرہ ہے۔ اس سے اس کی قوت گویائی اور ذہانت بھی بری طرح متاثر ہوئی تھی۔اور یاما موٹو کا امستقبل تاریک دکھائی دیتا تھا۔

خصوصی تعلیم کے ایک استادکاشی کا واسا کی نے اس بچے میں خصوصی دلچسپی لینی شروع کی۔ رفتہ رفتہ یا ماموٹو نے کلاس میں مسکرانا شروع کر دیا پھر وہ بلیک بورڈ پر لکھے ہوئے حروف اور رسالوں میں چھپے ہوئے کارٹون کاپی پر اتارنےلگا۔ ایک روز اس نے شہر کے قلعہ کا خاکہ بھی بنالیا۔

استاد کا واسا کی نے بچے کو یہ ڈیزائن لکڑی کے ایک ٹکڑے پر بنانے کی ترغیب دی اور اس کی توجہ پر نٹ میکنگ پر مرکوز کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ یا ما موٹو اس کام میں لگا رہا، یہاں تک کہ اس نے اس فن کے ایک مقابلے میں پہلا انعام حاصل کر لیا۔ یا ماموٹو اب جاپان کا مشہور فن کار ہے۔ لوگ اس کے فن پاروں کی تلاش میں رہتے ہیں۔

گویا اہم یہ نہیں کہ یا موٹو میں عام بچوں کے مقابلے میں بہت کم صلاحتیں تھیں۔ اہم بات تو یہ ہے کہ اس نے اپنی معمولی صلاحیتوں کے حصار میں بند رہنے کے بجائے اپنے امکانات پر نظر رکھی۔ یوں بتدریج آگےبڑھتا چلا گیا۔

انسان جیسا سوچتا ہے، ویسا بنتا ہے۔ محبت کھیل اور دوستی کے معاملے ہوں یا کاروبار اور پیشے کے امور ، انسان کی کامیابی کا بڑی حد تک دارو مدار اس کے تصور ذات پر ہوتا ہے۔ شاید یہ مشکل اصطلاح ہے۔ اسے آسان الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ تصور ذات سے مراد یہ ہے کہ اپنے بارے میں ہماری رائے کیا ہے۔ اپنی قدر و قیمت کا یقین رکھنےوالے لوگ کامیابیوں اور مسرتوں کی طرف تیزی سے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ زندگی کی اچھی چیزیں پکے ہوئے پھل کی طرح ان کی جھولی میں گرتی رہتی ہیں۔ ان کے تعلقات پائیدار ہوتے ہیں۔ ان کے خواب ادھورے نہیں رہتے اور منصوبے اکثر مکمل ہو جاتے ہیں۔ لگتا ہے کہ خوشیاں ان کی منتظر رہتی ہیں اور وہ جب چاہیں ہاتھ بڑھا کر انہیں پکڑ لیتے ہیں۔ دوسری طرف ایسے لوگ ہیں جن کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ ناکامیاں اور شکستیں ان کے مقدر میں لکھی ہیں۔ ان کے خواب اور منصوبے ہوا میں بکھر جاتے ہیں۔ اکثر اوقات وہ خود ہی اپنی ممکنہ کامیابیوں کا پانسہ پلٹ دیتے ہیں اور کوئی تدبیر ان کے کام نہیں آتی۔

کئی انفرادی مسائل عام طور پر اس لیے پیدا ہوتے ہیں کہ لوگ اپنے آپ کو قبول کرنے، خود اعتمادی پیدا کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ کوئی کاتب تقدیر ان کے مقدر میں ناکامیاں نہیں لکھتا۔ وہ خود ہی اپنے حالات کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ چنانچہ جب یہ لوگ خود اعتمادی کو بڑھاتے ہیں، اپنے قوت بازو پر بھروسا کرنا سیکھنے لگتے ہیں تو ان کی مشکلات خود بخود کم ہونے لگتی ہیں، ان کے حالات بدلنے لگتے ہیں اور ایک نئی زندگی کا احساس بیدار ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ گویا تصورات ذات میں مثبت تبدیلیاں پیدا ہوتے ہی ان کی زندگی میں بہار آجاتی ہے اور ان ناکامیوں کا اندھیرا چھٹ جاتا ہےانہوں نے مقدر کا لکھا سمجھ رکھا تھا۔

ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ کوئی شخص اپناتصور ذات تبدیل نہیں کر سکتا، کیونکہ اس کی جڑیں بہت گہری ہوتی ہیں۔ اس کی تشکیل کرنے والے کئی عوامل اس شخص کے قابو میں نہیں آتے۔ انسانی رویوں اور سماج کے کچھ ماہرین اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے۔ مانا کہ تصورات ذات کو بدلنا دشوار ہوتا ہے مگر یہ کام محال نہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ ابتداء میں خود کو کمتر سمجھنے والا شخص شخص عمر بھر ناکامیاں ہی سمیٹتا رہے۔ وہ منفی رویوں سے نجات پاسکتا ہے، اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے درکار صحت مند اعتماد حاصل کر سکتا ہے اور زندگی کو سنوار سکتا ہے۔یہ کام کیسے ہوتا ہے ….؟

حدود کے بجائےامکانات پر نگاہ رکھیں: اس ہدایت کے بعض الفاظ خاصے مبہم ہیں، لیکن اس کا مطلب سیدھا سادھا ہے۔ مراد یہ ہے کہ یہ نہ دیکھیں کہ راہ میں کون کون سی رکاوٹیں ہیں بلکہ پہلے یہ دیکھیں کہ کیا کچھ کیا جا سکتا ہے۔ ایک شخص کالج کی تعلیم سے فارغ ہوا تو ایک آسامی کے لیے انٹرویو دینے پہنچ گیا۔ پندرہ ہیں دوسرے امیدواروں کے ساتھ اس کا بھی انٹرویو ہوا لیکن اسے مسترد کر دیا گیا۔ اس پر اس نے متعلقہ عملے کو ایک خط لکھا کہ انٹرویو لینے والوں کو امید واروں کے ماضی کے تجربے اور امتحانی نتائج کی بنیاد پر فیصلے کرنے کے بجائے یہ بھی دیکھناچاہیے کہ وہ آئندہ کیا کر سکتے ہیں۔

بہت سے لوگ اس فکر میں گھلتے رہتے ہیں کہ وہ دوسروں کی طرح اسمارٹ اور پر کشش نہیں ہیں۔ نہ ہی ان کی طرح ہنس مکھ اور اچھی اچھی متاثر کن گفتگو کر سکتے ہیں، لہذا وہ خود کو کمتر محسوس کرتے ہیں۔ ایسے افراد دراصل ایک نقصان دہ عادت میں مبتلا ہیں۔ یاد رکھیے، یہ عادت خود اعتمادی کو مجروح کر دیتی ہے۔

وہ کام کریں جو کرسکتے ہیں:بہت سے لوگ اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کے باوجود ناکام رہتے ہیں۔ مسئلہ یہ نہیں کہ وہ اپنے فطری میلان سے بے خبر رہتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اپنی صلاحیتوں کو اچھی طرح ترقی نہیں دیتے۔

نوجوان سرجن، تجربہ کار ماہرین کی نگرانی میں برسوں کام کرتے ہیں۔ یوں سر جن کے طور پر ان کی اہلیت نکھرتی چلی جاتی ہے اور ان کی مجموعی کار کردگی بہتر ہو جاتی ہے۔ وہ دوسروں کو دیکھتے ہیں کہ وہ ان سے زیادہ کامیاب ہیں۔ یوں وہ حسد کرنے لگتے ہیں، حوصلہ ہار دیتے ہیں۔ جو ہمت نہیں ہارتے، اپنی صلاحیتوں کو مسلسل ترقی دیتے

رہتے ہیں ، وہی بالآخر سر خرو ہوتے ہیں۔

خود کو کامیاب تصور کریں ایک ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ میں اگر جان سکتا کہ میرے مریض دل ہی دل میں میرے بارے میں کیا باتیں کرتے ہیں تو مجھے یقین ہے کہ ان باتوں کی اکثریت منفی قسم کی ہوتی۔ ان کا اندازہ کچھ اس قسم کا ہوتا کہ آج پھر میں حسب معمول لیٹ ہو گیا ہوں۔ آج میرا لباس بہت ہی عجیب سا لگ رہا ہے، میں نے پھر حماقت کردی ہے۔ وہ ضرور مجھے احمق تصور کر رہا ہو گا۔ اس قسم کے ہزاروں خیالات روزانہ لوگوں کے ذہنوں میں ابھرتے ہیں، لہذا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ ہمارے تصور ذات کو کمزور کرتے ہیں اور یوں ہم اپنے آ۔ آپ کو بے دقعت سمجھنے لگتے ہیں۔

خود اعتمادی پیدا کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ خود کو کامیاب اور باوقار فرد تصور کیا جائے۔ اس مقصد کو پانے کے لیے روزانہ مشق کرنی چاہیے۔ تخیل کی دنیا میں، خیالوں ہی خیالوں میں، اعتماد اور وقار کے ساتھ کسی مشکل چیلنج کا مردانہ وار مقابلہ کیجیے۔ مثلاً اگر لوگوں کے سامنےبولنے سے گھبراہٹ محسوس ہو تو ہر روز تصور کی

دنیا میں کسی بڑے اجتماع کے سامنے اعتماد سےکھڑے ہو جائیں اور تقریر شروع کر دیں۔ روزانہ کی مشق سے اس قسم کے مثبت تصورات ذہن کی گہرائیوں میں اتر جاتے ہیں اور شخصیت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ گویا کامیابی کی توقع کرنا کامیابی کے لیے تیار ہونا ہے۔

اس بات کو ذہن نشین کر لیں کہ جب آدمی خود کو کامیاب اور خوش بخت تصور کرنے لگے تو پھر کامیابی اور خوش بختی کے دروازے بھی کھلنے لگتے ہیں۔

لوگوں کی توقعات سے جان چھڑائیں:جس لمحے کوئی شخص اپنی اندرونی خوبیوں، اندرونی قوتوں کو پہچان لیتا ہے وہ لمحہ اس شخص کی زندگی میں سب سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔

اگر لوگ اپنی فطرت اور اپنی اصلیت پر مصنوعی نقاب چڑھانا ترک کر دیں، تو ان میں سے اکثر دیکھیں گے کہ ان کی فطری امتیازی صفات خود بخود نمایاں ہونے لگیں گی۔ اس طرز عمل سے ان لوگوں کی انفرادیت نشو و نما پانے لگتی ہے۔ دوسروں کی مرضی کے مطابق ڈھلنے کی خواہش کی مزاحمت کرنا اور خود چھوٹی چھوٹی انفرادی خصوصیات کو فروغ دینا ہی وہ اقدامات ہیں، جو آزادی اور خود اعتمادی کی بنیاد بنتے ہیں۔

دوستوں کا حلقہ بنائیں: خود اعتمادی پیدا کرنے کا ایک مفید طریقہ یہ ہے کہ زندگی میں بہت سی محبتیں سمیٹی جائیں۔ لہذا مضبوط اور اپنائیت بھرے تعلقات بنانے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ ایسے مددگاری تعلقات پیدا کرنے کے لیے دوستوں کا حلقہ وسیع کرنا اور نت نئے دوست بنانا ضروری نہیں۔ پہلے سے موجود دوستیوں میں مزید گہرائی پیدا کر کےبھی یہ مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔

عزیز و اقارب سپورٹ کا بڑا وسیلہ بن سکتے ہیں۔ لہذا والدین، بہن بھائیوں اور دوسرے قریبی رشتہ داروں سے میل جول بڑھائیں اور ان کے دکھ سکھ میں شرکت کریں۔ ایک خوش باش شخص کو یہ کہتے سنا گیا کہ والدین ، بہن بھائیوں اور دوسرے عزیز سے ہر ملاقات کے بعد اس کا یہ احساس بڑھ جاتا ہے کہ وہ کون ہے، کہاں سے آیا ہے اور کہاں جانا چاہتا ہے ….؟ سچ تو یہ ہے کہ اپنے عزیزوں اور پرانے دوستوں کے ساتھ اس قسم کے رابطے شناخت کو اجاگر کرتے ہیں۔ دنیا میں صلاحیتوں کی تقسیم پا نسیم پر پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ بس یہ کرنا چاہیے کہ قدرت نے جو صلاحیتیں عطا کی ہیں، ان کو ترقی دیں اور بہتر طریقے سے ان کو استعمال کریں۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ  فروری 2019

Loading