Daily Roshni News

کہانی کندھے پر رکھی ایک چادر کی ۔۔۔ انتخاب۔۔۔احمد نواز فردوسی (ہالینڈ)

کہانی کندھے پر رکھی ایک چادر کی ۔۔۔

انتخاب۔۔۔احمد نواز فردوسی (ہالینڈ)

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ کہانی کندھے پر رکھی ایک چادر کی ۔۔۔ انتخاب۔۔۔احمد نواز فردوسی (ہالینڈ)وہ بھی دنیا کے ایک امیر ترین ملک کے والی شہزادے سے ملنے آیا تو ایک ڈالر ریال درھم دینار یہاں تو کیا دنیا میں  کسی سے نہیں مانگا ۔۔۔۔۔۔ نہ مجبوری نہ ضرورت کا اشارہ

سارا “جہاں “آج بھی ان کے مٹنے کے خواب دیکھتا ، کوئی ایک بھی ان کا محض زندہ وجود تک تسلیم کرنے کو تیار نہیں لیکن آسمانوں سے کرم کی برستی برکھا دیکھئے کہ آج ان کے ملک میں مہنگائی منفی ایک فیصد ہے یعنی دنیا میں سب سے کم ترین ۔۔۔۔۔۔ خشک بنجر زمین سے تیل نکل آیا ہے ، جہاں ایک سال پہلے تک ریلوے کا وجود سرے سے تھا ہی نہیں وہاں اعلیٰ ترین ٹرینیں چل پڑی ہیں ،

 یہ سر کے بال منڈائے حج مکمل کرنے والا خوبرو نوجوان بھی اسی ملک کا وزیر دفاع ہے ،اسے سر کے سارے بال صاف میں کوئی عار محسوس نہیں ہوئی کیونکہ یہ مولوی  ہے ، اسے لباس میں کسی کمتری کا احساس نہیں ، نہ یہ ، نہ ان کا کوئی ایک فرد کسی ٹائی پینٹ کا خیال تک دل میں لا سکتا ہے کہ اس سے عزت ملے گی ۔۔۔۔ یہ ی  ع   قوب ہے

یہ کل بھی ایسے تھے ، آج بھی ویسے ہیں، یہ ہمیشہ ہی جیسے تھے کل بھی ایسے ہی ہوں گے ۔۔۔۔۔۔۔

اس کے کندھے پر رکھی چادر کی کہانی جانتے ہیں ؟

جب امریکا کے فر عـــو ن وقت “جھاڑی ”  نے اس کے والد گرامی بنام ایک  عمر سے کہا تھا کہ “ہمارے بدترین دشمن کو ہمارے حوالے کردو ورنہ حکومت سے بھی جاؤ گے اور سب تباہ و فنا بھی ہو جائے گا، تم ہمیں جانتے نہیں،”

تو پتہ ہے اس نے کیا کہا تھا ۔۔۔۔۔؟

“جاؤ ، جو کرنا کر لو، میرے کندھے پر رکھی میری یہ چادر میری حکومت اور ملک سے بھی قیمتی ہے ، میں اسے سردی گرمی میں اوڑھتا استعمال کرتا ہوں ، نیچے بچھا کر بیٹھ بھی جاتا ہوں اور اس پر نماز بھی ادا کر لیتا ہوں ۔۔۔۔۔ میں حکومت چھوڑ سکتا لیکن یہ چادر نہیں چھوڑ سکتا۔۔۔”

پھر اس نے چادر کندھے پر رکھی اور سب کچھ سے منہ موڑ کر کسی نامعلوم مقام کی طرف روانہ ہوگیا۔۔۔۔۔

زمانہ بدلا اور زمینوں فضاؤں کی خدائی کے دعوے دار کہ جو کہتے سمجھتے تھے کہ ہم ہی مارتے زندہ کرتے ہیں ،وہ سب ان کے پاؤں دہلیز پر ڈھیر ہو گئے ۔۔۔۔۔۔ ناک رگڑ رگڑ کر معافیاں مانگیں ، الٹے سیدھے ہوئے ، ان کے دفتر مرکز جہاں انہوں نے کہے وہاں بنائے تو بدلے میں فقط جاں بخشی چاہی اور جوبائڈن نے تو یہ بھی کہا کہ

“میرے سامنے اس ملک کا نام نہ لو ،وہاں تو سوائے موت کے اور کچھ نہیں ، 22 کھرب ڈالر مجموعی اور ایک ارب ڈالر ہر ہفتے پھونکا لیکن سوائے لاشوں کے کچھ نہ ملا ، نکل جانے میں ہی بھلائی تھی۔۔۔۔۔۔”

جی ہاں، یہ عزت کی چادر ہے ، بالکل ویسی ہی قمیض جیسی کے بارے حضور محمد کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے سب کو عزیز از جان حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو فرمایا تھا، اللہ تجھے یہ قمیض (چادر) پہنائے گا ، لوگ اتارنے کی بڑی کوشش کریں گے لیکن تم اسے کبھی مت اتارنا ، پھر وہ خون میں لت پت ہوئے لیکن وہ  نہ اتاری ۔۔۔۔۔۔۔

چودہ سو سال بعد ہم نے وہ منظر اپنی آنکھوں سے ایسے دیکھے کہ جنہیں دیکھنے کو امت صدیوں ترستی رہی اور کٹتی مرتی رہی۔۔۔۔۔۔ افغان باقی کہسار باقی ،کی روایات پھر سے تازہ ہو گئیں  اور لاکھوں جانوں کے ٹکڑے کروا کر یہ امت کے بیٹے صدیوں کا قرض اتار گئے ۔۔۔۔۔۔

سلام تم پر سلام تم پر،کہ ہمیں ہر سانس فخر ہے تم پر

Loading