Daily Roshni News

کیا امیر بننا چاہتے ہیں یا دولت مند؟

کیا امیر بننا چاہتے ہیں یا دولت مند؟

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مارچ2020

ہالینڈ(ڈیلی روشنی انٹرنیشنل ۔۔۔کیا امیربننا چاہتے ہیں یا دولت مند)دولت کی خواہش کرنا غلط نہیں بس اس بات کا خیال رکھا جائے کہ اس کے حصول کے ذرائع درست ہوں۔

پیسہ کمانے کا کسے شوق نہیں ؟ ہر شخص دولت مند بنے کے خواب دیکھتا ہے کوئی اس میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پیچھے لوگ صرف خوابوں تک ہی رہتے ہیں۔

اس وقت پوری دنیا میں تقریبا 450 افراد ارب پتی ہیں جن میں سے زیادہ تر تعد اور امریکہ میں ہے، ایسے اکثر لوگ پیسے سے پیسہ کما کر دنیا کو اپنی منی میں سموئے ہوئے ہیں۔

اگر ان امیر لوگوں کی دولت کا ایک چھوٹا حصہ  دنیا کے تمام غریبوں میں بانٹ دیا جائے تو دنیا سے غربت کے خاتمے میں بہت مدد ملے گی اور ان چند امیر لوگوں کے پاس دولت کے انبار رہیں گے۔ ایسے لوگوں کو دیکھ کر رشک سب ہی کرتے ہیں مگر ان کی زندگی سے سیکھنے کی ایک فیصد بھی کوشش نہیں کرتے جو سب کے لیے کسی المیے سے کم نہیں۔

نوجوان تعلیم کے حصول کے بعد جب عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو ان کی اکثریت کے کام کرنے کا بنیادی مقصد دولت کا حصول ہوتا ہے

گریجویٹ ہونے کے بعد اگلے کئی سالوں سے کو شش یہی رہتی ہے کہ کچھ مزید سرٹیفکیٹس حاصل کر کے ، امتحان دے کر یا اسپیشل کلاسزے کر قابلیت کو کاغذ پر دنیا سے منوالیں اور پہلے سے زیادہ پیسے کمائیں۔

بہتر نتائج کے لیے طرز زندگی میں مثبت تبدیلی لائیے

عملی زندگی میں آہستہ آہستہ کچھ نئی عادتیں اپنائی جاتی ہیں۔ اسے شام محنت کرتے ہیں تا کہ پیسہ کمائیں؛ اور پھر زیادہ سے زیادہ پیسہ بچانے کی کوشش کی جاتی ہے تا کہ اپنی دیگر خواہشات پوری کی جا سکیں۔ اس طرح کئی لوگ رفته رفته ایک چوہادوڑ“ (Rat Race)کا حصہ بن جاتے ہیں جس میں صبح سویرے گھروں سے نوکری کے لیے

نکل جاتے ہیں، دن بھر محنت کرتے ہیں، شام میں ٹریفک سے لڑ کر گھر پہنچتے  ہیں ، رات میں ذاتی کام نمٹاتے ہیں اور سو جاتے ہیں۔ پھر میں روز مرہ عادت بن جاتی ہے۔ .

اس چوہا دوڑ کا ایندھن یہ سوچ ہوتی ہے: ”زیادہ کماؤ تا کہ زیادہ خرچ کر سکوں۔ اس عمل میں مسئلہ یہ ہے کہ تیس سال تک آٹھ گھنٹے روزانہ کام کر کے ، ایک ہی روٹین رکھ کر امیر تو بن سکتے ہیں، مگر دولت مند نہیں۔

امیر نہیں، دولت مند بنو!

امیر آدمی سے اگر مال چھین لیا جائے تو وہ غریب بن جاتا۔ مگر جب دولت مند سے مال چھین جائے تو وہ کچھ عرصے میں دوبارہ دولت مند بن سکتا ہے۔ دولت مند بنا بنیادی طور پر ایک صلاحیت کا نام ہے۔

انسان لاٹری نکلنے سے، وراثت میں جائیداد ملنے سے، امیر گھر میں پیدا ہونے سے، دولت مند گھرانے میں شادی ہونے سے ، یا رفته رفته پیسے جمع کرنے سے امیر بن جاتا ہے۔ مگر اکثر یہ پیسہ انسان کے پاس زیادہ عرصے تک نہیں رہتا؛ کیونکہ انسان کا امیر یا غریب ہوتا اس کی سوچ سے وابستہ ہے۔

اخراجات کنٹرول کیجیے

دولت مند ہونے کے اصول، امیر بننے سے ذرا مختلف ہیں ۔ دولت مند بنے کا بنیادی اصول سرمایہ کاری کرنا ہے۔ اگر ایک شخص پندرہ ہزار ماہانہ کمائے، ایک ہزار انویسٹ کرے اور باقی چودہ ہزار میں گزارا کرے تو ایسا شخص تو دولت مند بن سکتا ہے، مگر ایک شخص اگر ماہانہ دو لاکھ کمائے اور دو لاکھ ہی خرچ کر دے ، تو وہ وقتی امیر ترین جائے گا، مگر دولت مند بھی نہیں بن سکتا۔

دولت کا حصول مثبت سوچ سے ہے

 ایک نظریہ یہ ہے کہ اگر دنیا کی ساری دولت ام لوگوں میں برابر تقسیم کر دی جائے تو چھ سال میں غریب پھر سے غریب اور امیر پھر سے مالدار ہو جائیں گے۔ ایسا کیسے ممکن ہے؟

اگر کسی شخص کو دو کروڑ روپے آج مل جائیں تو وہ کیا کرے گا…؟ وہ تمام خواہشات پوری کرنے کی کوشش کرے گا جو آج تک پیسوں کی کمی کی وجہ سے پوری نہ ہو سکی ہوں۔

لوگوں کی اکثریت ایسا ہی کرتی ہے۔ یہ ایک مکمل سبجیکٹ ہے جسے Behavioral Finance کرداری مالیات) کے نام سے پڑھایا جاتا ہے۔

جب بھی اپنی جیب سے کوئی رم خرچ کی جائے تو کسی دوسرے انسان یا ادارے سے کچھ خدمات پایمال حاصل کی جاتی ہیں اور اس طرح پیسے ہاتھ سے نکل کر سودا بیچنے والے کی ملکیت بن جاتے ہیں۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کیونکہ سوداگر

سپلائز سائیڈ پر کھڑا ہوتا ہے اور اسے سپلائر بنے کا ہنر آتا ہے، وہ بھی بغیر کوئی امتحان پاس کیے۔ دولت کے حصول کے لیے سپلائر سائیڈ پر آنا ضروری ہے۔

سرمایہ کاری کیجیے

 سرمایہ کاری سے مراد یہ ہے کہ آج دولت کو کی ایسی جگہ خرچ کرنا، جہاں سے کل نفع ملنے کی امید ہو۔ اگر کسی شخص کے پاس دولت سے مزید دولت حاصل کرنے کا علم موجود ہے تو وہ سرمایہ کار ہے اور اگر بغیر یہ علم حاصل کیے، کل نفع ملنے کی امید پر آج مال خرچ کر رہا ہے تو جواری ہے، سرمایہ کار نہیں۔ اکثر ناواقف لوگ حصص مارکیٹ میں ہی جوا کھیلتے ہیں ۔

دولت کے حصول کے چند مفید طریقے

 جو لوگ نوکری کرتے ہیں یا اپنے کاروبار پر خود سے شام بیٹھتے ہیں، وہ راست آمدن (Active Income) کماتے ہیں جس کے لیے انہیں روزانہ آٹھ سے دس گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے۔ یہ  افراد عام طور پر چوہا دوڑ کا حصہ ہوتے ہیں کیونکہ| جس دن وہ کام کرنا بند کردیں گے، اس دن انہیں پیسے ملنا بند ہو جائیں گے۔

کاغذی اثاثوں میں سرمایہ کاری کر کے نفع کمانے کو ’’پورٹ فولیو انکے“ Portfolio (Income)کہتے ہیں۔ اس میں سرٹیفکیٹ آف ڈپازٹ، سکوک، میوچوئل فنڈ اور حصص کی تجارت شامل ہیں۔

اس کام میں دو فائندے ہیں: ایک تو چھوٹی رقم سے سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے، اور دوسرا اگر اس کام کو سوچ سمجھ کر کیا جائے تو بندے میں مالیاتی تعلیم اور بزنس کی سوجھ بوجھ پیدا ہوتی ہے۔

جس کاروبار میں صبح سے شام تک کام نہ کرنا پڑے اور اس کام میں ملازم یا بزنس ہر گزرتے وقت کے ساتھ پیسے کما کر دے، اسی کمائی کو بالواسطہ آمدن (Passive Income) کہتے ہیں۔ اس میں کارپوریٹ انویسٹمنٹ، ریئل اسٹیٹ اور دیگر بزنس شامل ہیں۔

دولت مند لوگ جب پیسہ کماتے ہیں تو وہ = کمائے ہوئے پیسے دوبارہ سے نفع بخش کاروبار میں لگاتے ہیں۔ اس طرح وہ امیر سے امیر تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ دوسرے

لوگ ان کے لیے کام کرتے ہیں اور وہ قائم کردہ بزنس سسٹم کا چل کھاتے ہیں۔

ڈل کلاس شخص دس پندرہ لاکھ کی گاڑی تو قسطوں پر خرید لے گا لیکن ایک لاکھ کی سرمایہ کاری نہیں کرے گا، کیونکہ رقم ڈوبنے کے ڈر سے اس نے سر مایہ کاری سیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی، جبکہ اس کی خرید گاڑی بھی اسے بڑا مالی نقصان دے سکتی ہے۔

اگر کوئی شخص دولت حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے نون سازی کرنا ضروری ہے، اسےخرچے پر کنٹرول کرنا ہو گا، سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔ Active incomeسے رقم بچا کر Portfolio incomeمیں لگانا ہو گی۔ زیادہ سے زیادہ اثاثے بنانے کی کو شش کر نا ہو گی۔ تب ہی ویرے دھیرے Passive income کا حصول ممکن ہو گا۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مارچ2020

Loading