Daily Roshni News

کیا وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں سائنس پھل پھول نہیں رہی؟

کیا وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں سائنس پھل پھول نہیں رہی؟

ہالینڈ(ڈیلی روشنی  نیوز انٹرنیشنل )کیا وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں سائنس پھل پھول نہیں رہی؟ اور کیا وجہ ہے کہ ہم بائیو اور فزکس کی بعض چیزوں کو تو مان لیتے ہیں اور بعض کو ماننے سے صاف انکار کردیتے ہیں؟ اور نہ ہی اُسے سازشی تھیوریز قرار دے کر اپنے نصاب کا حصہ بننے دیتے ہیں۔ آج ہم یہی جاننے کی کوشش کریں گئے۔

بندر پہلے انسان تھے یا انسان بندر؟ آپ کو شاید لگے کہ یہ سوال اُتنا ہی فضول ہے جتنی کہ انڈے اور مرغی پر ہونے والے والی بحث، کہ پہلے انڈا آیا یا مرغی؟

اِنسان کے وجود میں آنے کے بارے میں دو بنیادی نظریات پیش کیے جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ تمام انواع سمیت اِسے بھی ایک غیبی طاقت نے تخلیق کیا ہوگا’ (یہ نظریہ وقت کے ساتھ ساتھ غیر معمولی طور پر مختلف تہذیبوں میں بدلتا رہا ہے،) اور دوسرا یہ کہ اِنسان اِرتقائی عمل سے گزرتے ہوئے (بتدریج ارتقا کرتے کرتے) ایک بہت لمبے عرصے کے (گزرنے کے) بعد موجودہ شکل میں ڈھلا ہے، جس شکل میں وہ آج ہمیں نظر آتا ہے۔ اگرچہ ارتقاء کا ٹوٹا پھوٹا تصور ہمیں پرانی کُتب میں بھی کہیں نہ کہیں مل جاتا ہے لیکن تھیوری آف ایولیوشن بائے دا وے آف نیچرل سلیکشن کا نظریہ برطانوی سائنسدان چارلس ڈاروِن نے اُنیسویں صدی میں پیش کیا ؛ جسے آج تک سائنسی حلقوں میں ایک مُستند نظریہ کے طور پر مانا اور پڑھایا جاتا ہے۔ جس کے حق میں ہونے والی بےشمار ریسرچ و تحقیق اور اُس کے نتیجے میں ملنے والے نتائج اِس نظریے کے مستند ہونے میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں چھوڑتے۔

 کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اِنسان جیسا آج ہے، ٹھیک ایسا ہی ہمیشہ سے تھا اور ایسا ہی ہمیشہ رہے گا۔

 ڈارون کے نظریہ ارتقا کو مُسترد کرنے والوں میں جہاں ایک طرف کم پڑھا لکھا اور اِن پڑھ طبقہ ہے وہیں تو دوسری طرف ایک پڑھا لکھا طبقہ بھی (اپنے عقائد و نظریات کے ہاتھوں مجبور ہوکر) اِس مستند نظریہ کو رد کرتا ہوا (یعنی اس نظریہ کی مخالفت کرتا ہوا) ہمیں نظر آتا ہے اور اِسی نیم پڑھے لکھے طبقے میں سے کچھ لوگ ہمارے نظامِ تعلیم کا مستقل حصہ بھی ہیں، یعنی ملک میں نظامِ تعلیم کی ذمہ داریاں ایسے لوگوں کے سپرد کر دی گئی ہیں جن کا مستند سائنسی تعلیم سے دور دور تک کوئی تعلق یا واسطہ نہیں۔ اوپر سے سونے پر سہاگہ کہ ایسے لوگ جدید علوم کی الف ب تک سے نابلد ہوتے ہیں اور نہ ہی اپنے نظریات کو اپنے فرائض سے الگ رکھ پاتے ہیں۔ ہم ایسے ہی لوگوں کو نظام تعلیم کا قلمدان سونپ دیتے ہیں۔ پھر ایسے لوگ سائنس کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھتے ہوئے، ساتھ میں اپنے سپورٹرز کو خوش کرنے کے لیے عوامی امنگوں کا خیال کرتے ہوئے سائنس کو عقائد کی چکی میں پیس کر مرچ مصالحہ لگا کر قومی نصاب تیار کرواتے ہیں، اِس بات سے قطع نظر کہ جدید بائیولوجی، فزکس وغیرہ ہمیں کیا بتاتی ہے۔ لہذا جو سائنس کم اور چوں چوں کا مربع زیادہ لگتا ہے۔

(پھر آپ لوگوں کو ڈاکٹر پرویز ہودبھائی نظام تعلیم پر بات کرتے ہوئے اور نظام تعلیم کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا گلہ کرتے ہوئے برے لگتے ہیں۔)

یہی وجہ ہے وطنِ عزیز ترقی کرنے سے قاصر ہے’

//ارتقاء مخالفین لوگوں کا کہنا ہے کہ ارتقاء کی تھیوری سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھانا بند کر دی جانی چاہیے کیونکہ یہ سائنس کی کسوٹی پر سچ ثابت نہیں ہوتی۔ ہمارے آبا و اجداد نے نہ کھبی  تحریری طور پر اور نہ ہی زبانی طور پر ہمیں یہ بتایا کہ انھوں نے کسی بندر کو انسان میں تبدیل ہوتے ہوئے خُود اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ نہ ہم نے کسی (پرانی) کتابوں میں ایسا پڑھا ہے اور تو اور نہ ہی ہم نے اپنے بزرگوں کے قصے کہانیوں میں ایسی کوئی بات سنی ہے۔۔! ظاہر ہے یہ بھی صرف ایک تھیوری ہے جو وقت کے ساتھ بدل جائے گی۔ //

جبکہ آج ہم جانتے ہیں اور بڑے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ ڈارون نے یہ کھبی نہیں کہا کہ انسان پہلے بندر تھے اور وہ بندروں سے ارتقاء کرتے ہوئے انسان بن گئے’ (اور یہ بھی کہ نظریہ ارتقاء اب ڈراون سے بہت آگے بڑھ چکا ہے اب اِس میں جدید جینیٹکس کی سٹڈیز بھی شامل ہوچکیں ہیں اور بہت سے فاسلز بھی دریافت کیے جاچکے ہیں۔ جن مسنگ لنکس (یعنی گمشدہ کڑیوں) کا ارتقاء مخالت لوگ کھبی گلہ کرتے ہوئے نظر آیا کرتے تھے یا ہیں وہ کڑیاں بھی بہت حد تک دریافت کرلی جاچکی ہیں’)

آخر میں اِتنا ہی کہ۔۔۔۔۔۔۔

ہمیں یہ بات جان لینے اور سمجھ لینے کی اَشد ضرورت ہے کہ انسان اور بندر دو الگ انواع سے تعلق رکھتے ہیں اور اِن  دونوں ہی انواع کا ارتقائی سفر ایک جد سے تو ضرور شروع ہوا، تاہم ایک دوسرے سے نہیں۔۔نہ بندر سے انسان بنے اور نہ ہی انسانوں سے بندر۔ بلکہ ایک جد پرائیمیٹ سے تھوڑے تھوڑے بدلاؤ کے چلتے ایک بہت لمبے وقت کے بعد لگ بھگ 47 ملین سال قبل ایک نوع بنی، جنہیں ہم بندر بولتے ہیں اور پرائیمیٹ سے ہی ایک دوسری شاخ نکلی (اولڈ ولڈ مونکیز اور ایپس کی ) اور آج سے کوئی لگ بھگ 40 ملین سے قبل بوزنے وجود میں آئے جن میں بھی آگے چل کر چھوٹے چھوٹے بدلاؤ ہوتے چلے گئے اور بالاخر لگ بھگ 28 ملین سال بعد آج سے لگ بھگ 2.5 ملین سال قبل پہلی انسانی نسل وجود میں آئی جسے ہم ہومو ہیبیلیس بولتے ہیں اور موجودہ انسان لگ بھگ 2 سے دھائی لاکھ سال پہلے وجود میں آئے۔

اِس بنا پر ماہرین حیاتیات بندر ایپس اور ہومو انواع کو ارتقائی رشتے دار کہتے ہیں ( یعنی کزنز) کیونکہ اِن تمام انواع کا جد ایک ہی تھا۔ یعنی پرائیمیٹ، امید ہے اب آپ کو ارتقائی کزنز والی بات سمجھ میں آگئی ہوگی۔

اگر آپ کا سوال ہے بندر آج بھی بندر کیوں ہے تو میں آپ کے لیے بتاتی چلوں کہ بندروں کی بھی آج موجودہ دور میں 220 سے 250 کے لگ بھگ الگ الگ خصوصیات کی حامل زندہ نسلیں موجود ہیں’

پھر اگر فزکس کی بات کی جائے تو اِسی طرح ہم فزکس کی بھی بہت سی چیزوں کے انکاری ہیں جیسے:

1_ انسان کا چاند پر جانا

2_زمین کا فلیٹ نہ ہوکر گول ہونا

3_زمین کا سورج کے گرد گھومنا

4_زمین کا اپنے گرد گھومنا

5_آسمان نام کی شے کو زبردستی منوانا وغیرہ وغیرہ

نوٹ: آج کے دور میں سائنس اور مذہب دونوں کو الگ رکھنا بے حد ضروری ہے اور وقت کی اشد ضرورت بھی ہے، ورنہ آپ سائنس کی بعض چیزوں کو تو مانوں گئے جوکہ آپ کے عقائد پر پوری اُترتی ہونگیں جبکہ بعض کے انکاری بن جاؤں گئے۔ جو آپ کے عقائد کے منافی ہونگیں۔ پھر آپ کو سائنس ایک شیطانی علم اور مستند سائنس پڑھانے والے اساتذہ غیر ملکی ایجنٹ نظر آئیں گئے، کیونکہ وہ آپ کے عقائد کی تائید نہیں کرتے۔

نوٹ : اس آرٹیکل کا کچھ حصہ بی بی سی اردو سے لیا گیا ہے۔

 اضافہ و تلخیص :  بنت احق

Loading