Daily Roshni News

کیا ہم ایٹم کو “دیکھ” سکتے ہیں؟۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن

 

کیا ہم ایٹم کو “دیکھ” سکتے ہیں؟

تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ کیا ہم ایٹم کو “دیکھ” سکتے ہیں؟۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن)جی ہاں!! مگر کیسے؟ یہ جاننے کے لیے سب سے پہلے ہم یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم دیکھتے کیسے ہیں؟

دیکھنے کا عمل تین چیزوں پر منحصر ہے۔

  1. روشنی

2.انسانی آنکھ

3.نظر آنے والی شے کا سائز

1.روشنی دراصل توانائی کی ایک صورت ہے۔ یہ برقناطیسی موج ہوتی ہے۔ موج کے اہم خصوصیت اسکے اُتار چڑھاؤ ہیں۔ کس موج کے دو متواتر اُتار یا متواتر چڑھاؤ کا درمیانی فاصلہ ویویولینتھ کہلاتا ہے۔ فاصلے کی اکائی میٹر ہے۔ تاہم روشنی کی موج کا ویویولینتھ یعنی دو متواتر اُتار یا چڑھاؤ کا فاصلہ میٹر سے کئی گنا کم ہوتا ہے۔

عموماً جو روشنی ہم دیکھتے ہیں اسکی ویولینتھ 380 سے 700 نینومیٹر کے درمیان ہوتی ہے۔ نینومیٹر ایک میٹر کا ایک اربواں حصہ ہوتا ہے۔ 380 نینومیٹر  ویوولینتھ کی روشنی کا رنگ بنفشی ہو گا جبکہ 700 نینو میٹر ویویلینتھ کی روشنی کا رنگ سُرخ۔

انسانی آنکھ ان دو ویویلینتھ اور انکے درمیان کی ویویولینتھ کی روشنی کو دیکھ سکتی ہے۔ اگر  روشنی 750 نینومیٹر کی بجائے مثال کے طور پر 780 نینومیٹر کی ہو گی تو آپ نہیں دیکھ سکتے۔ اسے انفراریڈ روشنی کہتے ہیں۔ 780 نینو میٹر سے 1 ملی میٹر ویویلینتھ کی روشنی انفرایڈ کہلاتی ہے۔ ایسے ہی کوئی بھی روشنی جو 380 کی بجائے فرض کیجئے 300 نیومیٹر کی ہو تو اسے بھی آپ نہیں دیکھ سکتے۔ 380 نینومیٹر سے 10 نینومیٹر ویوولینتھ کی روشنی  الٹرا وائلٹ روشنی کہلاتی ہے۔ آپ انفراریڈ یا الٹروائلٹ روشنی اس لیے نہیں دیکھ سکتے کہ انسانی آنکھ میں موجود خلیے جو روشنی کو ڈیٹیکٹ کرتے ہیں، 380 سے 750 نینومیٹر ویوولینتھ کی رینج میں ہی حساس ہوتے ہیں۔ سو اگر کسی شے میں سے اس ویولینتھ کے علاوہ کوئی اور ویولینتھ کی روشنی خارج ہو گی تو آپ اسے انکھ سے نہیں دیکھ پائیں گے۔مثال کے طور پر ریڈیو ویووز جنکی ویویلینتھ چند ملی میٹر سے کئی سو کلومیٹر تک ہو سکتی ہے۔ البتہ ایک پرانا تھکا ہوا بابا آدم کے زمانے کا ریڈیو انہیں ڈیٹیکٹ کر لے گا؟ تو کیا آپکی آنکھ اس تھکے ہوئے ریڈیو سے زیادہ گئی گزری ہے؟ نہیں۔ کیونکہ انسانی آنکھ ارتقائی طور پر جس ماحول میں بنی اس ماحول میں خوراک کے ذرائع اور بقا  کے لیے اس ویویولینتھ رینج میں دیکھنا بقا کے امکانات کو بڑھاتا تھا۔ مخلتف جاندار مخلتف ماحول میں ارتقاء پذیر ہوئے اور مخلتف خوراک کے ذرائع پر پلے بڑھے لہٰذا مختلف جانوروں میں اس ویویولینتھ رینج کے علاوہ بھی دیکھنے کی صلاحیت ہے۔ مثال کےطور پر شہد کی مکھی جو الٹراوئلٹ میں یعنی 380 نینو میٹر سے نیچے کی ویوولینتھ میں بھی دیکھ سکتی ہے۔یا پھر کچھ قسموں کے سانپ یا چمگادڑ جو انفراریڈ رینج یعنی 700 نینومیٹر ویوولینتھ سے سے زیادہ ویویولینتھ میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔

  1. کسی شے کا سائز یہ تعین کرتا ہے کہ آپ اسے دیکھ سکتے ہیں یا نہیں۔

انسانی آنکھ ایک باریک انسانی بال کو، جسکی موٹائی تقریباً 0.04 ملی میٹر ہوتی ہے، باآسانی دیکھ سکتی ہے۔ایک مادہ انسانی انڈے جسکا سائز تقریباً 0.12 ملی میٹر ہوتا ہے، آپ بہتر روشنی میں غور کرنے پر اسے بھی دیکھ سکتے ہیں۔

 مگر دیکھنے کے عمل میں اور بھی بہت سے عوامل شامل ہیں۔مثال کے طور پر کوئی شے آپکی آنکھ سے کتنی قریب ہے یا کتنی دور۔ کیا آپ کسی شے کو انفرادی طور پر دیکھ سکتے ہیں یا نہیں۔ یعنی فرض کیجئے کہ دو نہایت چھوٹے نقطے کسی کاغذ پر ہوں اور ایک دوسرے کے بے حد قریب ہوں تو کیا آپ یہ جان سکتے ہیں کہ وہ ایک نقطہ ہے دو نقطے اور اُنکے درمیان فاصلہ ہے؟ دور سے وہ دونوں آپکو شاید ایک نقطہ نظر آئیں مگر قریب سے آپکو وہ دو مختلف نقطے نظر آئیں گے۔ اس تفریق کی صلاحیت کو ہم سائنسی اصطلاح میں ریزولوشن کہتے ہیں۔

ریزولوشن کو آپ اکثر اپنے موبائل فون کے کیمروں سے لی گئی تصاویر میں بھی دیکھتے ہیں۔ جب آپ ہائی ریزولوشن کیمرا سے تصویر لیتے ہیں تو اسے زوم یعنی بڑا کرنے پر اسکے پکسل خراب نہیں ہوتے یعنی تصویر کی کوالٹی بہتر رہتی ہے۔ پرانے موبائل کیمروں سے تصویر لیکر اسے زوم کریں تو پکسلز ” پاٹ” جاتے تھے یعنی خراب ہو جاتے تھے۔  سو ریزولوشن دیکھنے کے عمل میں دو انتہائی ننھے نقطے،  پکسلز یا کسی ننھی اشیاء میں تفریق کرنے کی صلاحیت کو متاثر کرتی ہے۔ زیادہ ریزولوشن ہو گی تو نہات چھوٹی اشیاء بھی نظر آئیں گی۔ ویسے ہی جیسے بیگم کو آپ میں یا اپکے خاندان میں بوقتِ لڑائی ہر چھوٹی برائی نظر آتی ہے۔

اس تناظر میں  ریزولوشن کیوں اہم ہے؟

 یہ اس لیے اہم ہے کہ ہم ننھی  اشیاء کو جس روشنی کی مدد سے دیکھتے ہیں، وہ دراصل دو چیزوں پر منحصر ہے۔  اول اس روشنی کی ویویلینتھ اور دوم جس آلے سے دیکھتے ہیں (مثلاً کیمرا، دوربین، خوربین یا آنکھ) اُسکے اپرچر پر یعنی اُس شگاف پر جس سے روشنی اس آلے میں داخل ہوتی ہے۔

اگر ہم کسی دیکھنے والے آلے جسکا ذکر اوپر مثالوں میں دیا ہے، کا اپرچر بڑا کر دیں تو اسکی ریزولوشن بڑھ جائے گی اور یوں ہم دو انتہائی چھوٹی چیزوں کو بھی تفریق سے الگ الگ دیکھ پائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ سائنسدان خلا میں بڑی بڑی دوربینیں بھیجتے ہیں جیسے کہ ہبل یاجیمز ویب ٹیلیسکوپ جنکے مِررز کا سائز کئی میٹرز میں ہوتا ہے جس سے انکا اپرچر بہت بڑا ہو جاتا ہے  تاکہ دور سے آنے والی  ننھی سی روشنی کو زیادہ سے زیادہ رقبے میں جمع کر کے اسے دیکھا جا سکے اور یوں با آسانی معلوم کیا جا سکے کہ اس روشنی میں کونسی اور کتنی کہکشائیں ہیں یا کونسے اور کتنے ستارے ہیں؟

مگر جب بات آتی ہے زمین پرچھوٹے خوردبینی جانداروں ، خلیوں، خلیوں کے اجزا کی، جنکا سائز مائیکرو میٹر سے نینو میٹر میں ہوتا ہے، تو آپ کو انہیں دیکھنے کے لیے زیادہ روشنی جمع کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ آپ ان اشیاء کو معمولی سی روشنی سے بھی دیکھ سکتے ہیں۔لہذا خوردبین کا اپرچر کسی ٹیلیسکوپ کے اپرچر سے کئی گنا چھوٹا ہوتا ہے۔ ورنہ اس قدر روشنی سے آپ کسی ننھے شے کو دیکھ ہی نہیں پائیں گے۔ یہ ایسے ہے جیسے آپ سورج کی روشنی میں موبائل فون کی سکرین صحیح طور پر نہیں دیکھ پاتے۔ لہٰذا آپ کسی چھوٹی سی شے کو دیکھنے کے لیے ریزولوشن میں اضافہ خوردبین کا اپرچر بہت بڑا کر کے نہیں دیکھ سکتے۔  یہ ایک بے کار خیال ہے۔

پھر دوسرا طریقہ کیا ہے جس سے آپ ننھی اشیاء کو طاقتور خوردبینوں سے دیکھ سکیں؟  یعنی باالفاظِ دیگر ریزولوشن بڑھا سکیں۔

وہ طریقہ  یہ ہے اس روشنی کی ویویلینتھ کو کم کر کا جائے، جس سے آپ ان چیزوں کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ تاہم یہاں مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپکی انکھ مبارک 380 نینومیٹر سے نیچے کی ویویلینتھ پر کچھ نہیں دیکھ سکتی۔ دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ آپکی آنکھ بنفشی روشنی(380 نینومیٹر یا اس سے قریب کی ویوولینتھ کے لیے) زیادہ حساس نہیں۔ انسانی آنکھ  500 نینو میٹر ویویلینتھ، جہاں سے نیلا رنگ سبز رنگ میں بدلنے لگتا ہے، کو زیادہ بہتر طور پر دیکھ سکتی یے۔ لہذا عمومی طور پر سائنسی تجربہ گاہوں میں موجود عام خوردبینوں میں اسی ویوولینتھ ( یعنی 500 نینومیٹر یا اس سے زائد ویوولینتھ) کی روشنی کو استعمال کیا جاتا ہے۔  اس ویویولینتھ پر آپ اس سے ویوولینتھ سے آدھی سائز یعنی 250 نینومیٹر کی شے کو ہی دیکھ سکتے ہیں۔ تناظر کے لیے: ایک انسانی خلیے کا اوسط سائز 20 سے 30 مائیکرمییٹر ہوتا ہے سو اسے آپ آسانی سے عام خوردبینوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ ایک عام وائرس کا سائز 20 سے 400 نینومیٹر کا ہوتا ہے، سو اس میں سے بھی کئی بڑی سائز کے وائرس آپ خوردبین سے دیکھ سکتے ہیں۔ جبکہ انسانی ڈی این اے کا سائز 2.5 نینو میٹر ہوتا ہے۔ اسے آپ عام دوربین سے نہیں دیکھ سکتے۔ یہاں یاد رکھئے کہ ہم ایک واحد ڈی این اے کی بات کر رہے ہیں۔

اس سب کہانی میں ایٹم کہاں گیا؟

ایک ہائڈروجن ایٹم کا سائز تقریباً 120 پیکو میٹر ہوتا ہے۔ ایک پیکومیٹر ایک نینو میٹر کا ہزارواں حصہ ہوتا ہے۔ گویا آپ ایٹم کو کسی عام دوربین سے عام طریقے سے تو کبھی بھی نہیں دیکھ سکتے۔

تاہم آپکو اب تک اس ساری بِپتا سے  یہ بات سمجھ میں آچکی ہو گی کہ دیکھنے کا عمل اتنا سادہ نہیں لیکن کسی چھوٹی شے کو دیکھنے کے عمل میں سب سے اہم شے ریزولوشن ہے جو یہ فیصلہ کرتی ہے کہ ہم کتنی چھوٹی شے دیکھ سکتے ہیں اور آپ نے دیکھ لیا کہ عام روشنی سے ہم ایٹم چھوڑیے، انفرادی ڈی این اے بھی نہیں دیکھ سکتے۔ مگر کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ ہم ایٹم کو کسی اور طریقے سے بھی نہیں دیکھ سکتے؟ کیا سائنس یہاں ہار مان کر بوریا بستر لپٹ کر واپس چلی جائے گی؟ ہر گز نہیں۔ وہ انسان ہی کیا جو عقل کا استعمال نہ کرے اور مشکلات کو مواقعے نہ سمجھے۔

ہم ایٹم بالکل دیکھ سکتے ہیں، مگر یہاں ہم لفظ “دیکھنے” کو مشاہدے کی طرف لے جاتے ہیں کیونکہ جدید سائنس کی دنیا اور اس قدر علم کے بعد تجاہلِ عارفانہ اگر کوئی مصر ہو کہ دیکھنے اور سائنسی مشاہدہ کرنے میں منطقی اعتبار سے فرق ہے تو یہ اسکی صوابدید۔

ہم ایٹم کیسے سائنسی اعتبار سے “دیکھ” سکتے یعنی یا مشاہدہ کر سکتے ہیں، یہ جانیے اگلی قسط میں

جاری ہے….

 #ڈاکٹر_حفیظ_الحسن

Loading