Daily Roshni News

گنتی کی ابتدا اور اسکا ماخذ ۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیریوسف

گنتی کی ابتدا اور اسکا ماخذ

تحریر۔۔۔حمیریوسف

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ گنتی کی ابتدا اور اسکا ماخذ ۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیریوسف )ایک نئی تحقیقاتی رپورٹ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ شاید نینڈرتھلوں نے جدید انسانوں سے پہلے گننا سیکھا ہوگا۔

آثار قدیمہ کے شواہد بتاتے ہیں کہ انسان کم از کم 50,000 سالوں سے گنتی کر رہے ہیں۔ تاہم، انسانی گنتی کا پچھلا  سب سے اب تک کا پرانا قابل اعتماد ریکارڈ تقریباً 20,000 سال پرانا تھا، جو ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو میں دریافت ہونے والی ایشانگو  Ishango  (کانگو کا ایک شہر)ہڈی ہے۔ ہڈی میں لمبے عمودی نشان ہوتے تھے، جو تین کالموں میں گروپ ہوتے ہیں، ہر ایک کو سیٹ میں تقسیم کیا جاتا ہے۔اس سے سائنسدانوں اور ماہر بشریات یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ جدید انسان، یعنی ہومو سیپینز نے آج سے قریبا 25 سے 30 ہزار سال بولنے کے ساتھ ساتھ گننا بھی شروع کردیا تھا ۔ لیکن اب کچھ ملنے والی نئی معلومات کے مطابق، نینڈرتھلز اس سے بھی کافی عرصے پہلے  اعداد کو گننا سیکھ گئے تھے، جو انکی دماغی کیفیت کی بڑھتی ہوئی صلاحیت کا اظہار کرتا ہے۔

آثار قدیمہ کے ماہرین  قبل از تاریخ ، قدیم عددی نظاموں کے شواہد تلاش کر رہے ہیں تاکہ  ان قدیم انسانوں کی کچھ پیش رفتوں کو تفصیل سے بیان کیا جا سکے، جو ماڈرن انسان سے پہلے اپنا وجود رکھتے تھے۔

گننا سیکھنا اور حساب کرنے کی صلاحیت نے انسانوں کو تکنیکی ترقی کی نئی بلندیوں تک پہنچا دیا ہے۔ تاہم، فرانس ایک قدیم شہر  میں Angoulªme کے قریب Les Pradelles  کے علاقے میں ایک حالیہ نئی دریافت یہ  ظاہر کرتی ہے کہ شاید جدید انسان ، گنتی کے عددی اشارے کے نظام کو تیار کرنے میں اکیلے نہیں تھے، شاید نینڈرتھلز ، ماڈرن انسانوں سے پہلے ہی گننا سیکھ گئے تھے۔  نینڈرتھل ہومو سیپینز کے قریب ترین معدوم رشتے دار ہیں، یا وہ  انسان جو زیادہ متنوع آلات استعمال کرتے تھے، آگ پر قابو پاتے تھے، پناہ گاہوں میں رہتے تھے، کپڑے بناتے اور پہنتے تھے، ہنر مند شکاری تھے اور پودوں کی خوراک اور بہت سےجانور بطور غذا  کھاتے تھے۔

سمتھسونین نیشنل میوزیم آف نیچرل ہسٹری کے مطابق، “فوسل اور جینیاتی شواہد دونوں اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ نینڈرتھل اور جدید انسان 700,000 اور 300,000 سال پہلے کے درمیان ایک مشترکہ اجداد سے  ارتقاء پذیرہوئے۔ نینڈرتھل اور جدید انسان ایک ہی نسل  (ہومینائڈ )سے تعلق رکھتے ہیں اور ایک ہی جغرافیائی علاقوں میں آباد تھے، مغربی ایشیا 30,000-50,000 سال تک ان انسانی نسلوں کا وجود ملتا ہے۔”

2021 کی شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق، نینڈرتھلوں نے جدید انسانوں سے پہلے عددی اشارے کا ایک نظام تیار کیا  تھا۔ کچھ اسکالرز کو نینڈرتھل کی استعمال شدہ اشیاء کے  آثار  میں گنتی کے شواہد جیسی چیزیں بھی ملی ہیں، جیسے بعض جانوروں کی ہڈیوں  پر نشانات کے نمونوں کو دہرانا۔ مثال کے طور پر، کریمیا میں ایک نینڈرتھل سائٹ سے 40,000 سال پرانی  کسی پرندے (غالبا کوے ) کی ہڈی میں سات نشانات ہیں جو کہ جدید  انسان کے بچوں  کے لکھنے کی طرح ،باقاعدگی کے ساتھ اسی طرح کی ہڈی کو نشان زد کرتے ہیں۔ تاہم، فرانس میں لیس پرڈیلس کی ایک ہڈی میں ایسے نشانات ہیں جو معمول کے مطابق نہیں ہیں اور ممکنہ طور پر ایک ہی سیشن میں بنائے گئے تھے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ عددی معلومات کو ریکارڈ کرنے کے بجائے  ان پر گننا سیکھ  رہے ہوں گے۔ ان ہڈیوں پر ٹیلی مارکس جیسے نشانات پائے گئے تھے، جیسے آج بھی شماریات میں انکا استعمال کرتے ہیں۔

اب گننے کی قدیم انسان کو ضرورت کیوں پیش آئی، وہ اس لیے کہ ان لوگوں کو اپنے وسائل پر نظر رکھنے کے لیے،  کہا جاتا ہے کہ شمار کرنے کی صلاحیت ابتدائی انسانوں کے لیے بقا کی مہارت کے طور پر تیار ہوئی ہے۔ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ زبانوںاور بولنے کے ارتقاء نے قدیم لوگوں میں گنتی اور ریاضی کی مہارتوں کی نشوونما میں ایک اہم اثر ڈالا۔

جریدہ نیچر میں شائع ہونے والی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ  گنتی کے اعداد کے ماخذ پر بہت زیادہ سائنسدانوں کا اتفاق نہیں ہے اور علم ادراک کے سائنس دان cognitive scientists، ماہر بشریات اور ماہر نفسیات موجودہ نمبر سسٹمز کے درمیان فرق کو سمجھنے کے لیے  قدیم زمانے کی ثقافتوں کو دیکھ رہے ہیں۔ ماہرین آثار قدیمہ نے بھی قدیم عددی نظاموں کے شواہد تلاش کرنا شروع کر دیے ہیں تاکہ عددی نظام کی پہلی قبل از تاریخی ترقی کی کچھ تفصیل بیان کی جا سکے۔

ایک 60,000 سال پرانے لگڑبھگڑ ( ہائینا ،  hyena)کی ہڈیوں کا ٹکڑا بھی ایک ایسے نظریہ کا باعث بنا ہے کہ نینڈرتھلوں میں  نمبروں کےشمار ہونے کی علمی صلاحیت تھی۔ مزید برآں، 29 گہرے نشانوں کے ساتھ ایک بابون  (ایپس کی ایک قسم) کاریشہ اس بات کی نشاندہی کرسکتا ہے کہ یہ نشانات  کچھ عددی مقدار کو ریکارڈ کرنے کے لیے استعمال کیے گئے تھے۔

تاہم، میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ فار ایوولیوشنری انتھروپولوجی کے ایک ارتقائی ماہر حیاتیات رسل گرے  Russell Gray کہتے ہیں کہ اعداد کی گنتی کی اصل ، دراصل  ابھی تک سائنسی تحقیق کا نسبتاً غیر دریافت شدہ  موضوع ہے، جسکے بارے میں حتمی ابھی تک کوئی بات نہیں کی جاسکتی۔ اسکے حتمی جواب کے لیے کہ گنتی کا آغاز کہاں اور کس دور میں ہوا، مزید شواہد ملنے کے اوپر انحصار کرتا ہے۔

مزید معلومات کے لیے آپ ان لنکس پر اسٹڈی کرسکتے ہیں

https://www.scientificamerican.com/article/how-did-neanderthals-and-other-ancient-humans-learn-to-count/

https://www.indiatoday.in/science/story/origin-of-number-report-suggests-neanderthals-might-have-learnt-to-count-before-modern-humans-1810312-2021-06-03

تحریر و تحقیق

#حمیر_یوسف

Loading