Daily Roshni News

گھر آیا تو؟۔۔۔تحریر۔۔۔سارہ خان۔۔۔(قسط نمبر2)

گھر آیا تو۔۔۔؟؟

تحریر۔۔۔سارہ خان

(قسط نمبر2)

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔گھر آیا تو؟۔۔۔تحریر۔۔۔سارہ خان )صحن جو کبھی ہری بھری گھاس ، رنگ برنگے پھولوں اور دل فریب نقش و نگار کی تتلیوں کا مسکن تھا۔ وہاں جگہ جگہ سوکھی جھاڑیاں تھیں ۔ دل بھر آیا۔ تیزی سے مکان کے اندر داخل ہوا۔

چاند کی چودھویں تاریخ تھی۔ سمندر کی تیز بھری موجوں کی طرح اس کے اندر بھی جذبات میں تلاطم تھا۔ خاموشی میں جھینگروں کی آواز کے سوا کوئی آواز نہ تھی ۔ دروازہ کے پاس رک کر وہ تھوڑی دیر خاموش کھڑا رہا۔ کھٹکھٹایا۔ اندر سے آواز آئی تو خود کو روک نہ سکا اور دروازہ کو دھکا دیتے ہوئے گھر میں داخل ہو گیا ۔ گھپ اندھیرا تھا۔ ہاتھ کو ہاتھ بجھائی نہ دیتا۔ دیواروں کو سولتا ہوا کمرے میں گیا تو کسی چیز سے پیر ٹکرایا اور وہ اچھلتی ہوئی دور جا گری۔ اسٹیل کا برتن تھا جس سے ماحول میں تھوڑی دیر کے لئے شور برپا ہوا اور پھر وہی ۔ وحشت ناک خاموشی۔ دوسرے کمرے میں گیا تو اس کے قدم لرز گئے ۔ ہمت جواب دے گئی ۔ گھپ اندھیرے میں سامنے بیوی بیٹھی ہوئی نظر آئی۔ بولنے کا یارا نہ تھا۔ بیوی نے سامورائی کو دیکھا ہمشکل سے بول پائی ۔ لہجہ میں شدید نقاہت تھی۔

خوش آمدید میرے ہر دل عزیز شوہر ! بہت انتظار کروایا۔ کوئی لمحہ ایسا نہ تھا جب تمہیں یاد نہ کیا ہو ، ایک پل کے لئے نہیں بھولی لیکن تم نے تو پلٹ کر خبرتک نہ لی ۔ کیا میں یاد نہیں آئی۔؟” یہ کہتے ہوئے چہرہ پر عجیب مسکراہٹ تھی ۔ سامورائی لرز گیا ۔ خیال تھا کہ بیوی اسے دیکھتے ہی لڑے گی ، گھر میں داخل نہیں ہونے دے گی ، نفرت کا اظہار کرے گی لیکن اظہار محبت سن کر نظریں نہ ملا سکا۔ قدموں میں بیٹھا اور معافی مانگی ۔ کم ظرفی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ غلطیوں کا ازالہ کرنے آیا ہوں۔ اب چھوڑ کر نہیں جاؤں گا۔ مجھے معاف کر دو۔ نظر اٹھا کر دیکھا تو بیوی اسی حالت میں بیٹھی ہوئی تھی لیکن اب زرد چہرہ پر مسکراہٹ گہری ہوگئی تھی۔ یہ دیکھ کر ہمت بڑھی اور اس نے کہا، جو ہونا تھا وہ ہو چکا ۔ سب کچھ چھوڑ کر آیا ہوں ۔ اس زندگی کو خیر باد کہہ دیا ہے جس میں تم نہیں تھیں ۔ بیوی مسکراتی رہی اور سامورائی کو دیکھتی رہی۔ رات گہری ہوئی۔ سفر کی تکان سے جسم کو آرام کی طلب ہوئی اور نیند نے آگھیرا۔ بیوی سے کہا، سونا چاہئے ۔ صبح ہماری زندگی کا نیادن ہوگا۔ پھر سے اس گھر کو سجائیں گے ۔ اس در پر خوشیاں دستک دیں گی ۔ دونوں خواب گاہ کی طرف گئے۔ بیوی سے پوچھا، یہ عرصہ کیلئے کس طرح گزارا ؟

بیوی بولی بس گزر گیا۔ یوں کہو کہ مجھے اس سے گزارا گیا۔ آواز میں مایوسی اور دکھ تھا۔ سامورائی بولا، میں بہت شرمندہ ہوں ۔ بیوی دکھ سے مسکراتے ہوئے بولی ، مجھے چھوڑ کر اسکے پاس گئے ،اب اسے چھوڑ کر میرے پاس آئے ہو؟ الفاظ کم ہو گئے ۔ ندامت سے آہستہ آواز میں اتنا کہہ سکا کہ پتہ نہیں یہ سب مجھ سے کیسے ہو گیا۔ اس طرح رات گزرگئی۔

صبح سورج کی کرنیں کھڑکی سے چھن کر کمرے میں داخل ہوئیں تو اس کی آنکھ کھل گئی ۔ وہ کروٹ لئے لیٹا ہوا تھا۔ پشت بیوی کی جانب تھی ۔ کروٹ بدلے بغیر بیوی کو آواز دی، اٹھ جاؤ ۔ لگتا ہے سورج سر پر آگیا ہے۔ بیوی نے جواب نہیں دیا تو دوسری بار پھر پکارا اور مڑ کر دیکھا تو وجود کانپ اٹھا۔ ساتھ ہڈیوں کا پنجر پڑا ہوا تھا جس کے پاؤں پلنگ سے نیچے جھول رہے تھے۔ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔ چلانے لگا کہ یہ سب کیا ہے ۔ میری بیوی کہاں ہے؟ گھبرا کر باہر نکلا اور مڑ کر دیکھا تو ڈھانچا وہیں پڑا ہوا تھا۔

سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا ہورہا ہے۔ رات کو اس نے مجھ سے باتیں کی ہیں، وہ زندہ میری آنکھوں کے سامنے تھی ۔ ہڈیوں کا پنجر کس کا ہے؟ کہیں مجھے ستانے کے لئے مذاق تو نہیں کر رہی مگر اتنا بھیا تک مذاق؟ وہ ہانپ رہا تھا۔ قمیص بھیگ گئی تھی۔ ہانپتا ہوا گھر سے باہر آ کر بیٹھ گیا۔ سانسیں بحال ہوئیں تو قریبی گھروں کا جائزہ لیا ۔ آس پڑوس کے گھر تبدیل ہو چکے تھے اور اس کے گھر سے فاصلہ پر تھے ۔ ایک اس کا گھر پرانی حالت میں

موجود تھا۔ البتہ در و دیوار میں پاس و تنہائی کا ڈیرہ تھا۔

فاصلہ پر موجود گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا؟ آدمی باہر آیا اور پوچھا کس سے ملنا ہے؟ آپ کون ہیں؟ سامورائی نے کہا، معاف کیجئے گا میں نے آپ کو صبح صبح زحمت دی ۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں سامنے والے مکان میں کون رہتا ہے؟ آدمی نے سامورائی پر گہری نگاہ ڈالی۔ اس مکان میں؟ چاہتا ہوں ۔ کیا یہاں کوئی نہیں رہتا ؟ پڑوسی نے بتایا ، سنا ہے کہ کئی برس پہلے اس مکان میں ایک سامورائی حسین و جمیل بیوی کے ساتھ کس میری کی زندگی گزار رہا تھا۔ میاں بیوی میں مثالی محبت تھی ۔ حالات خراب ہونے کے باجود بیوی حرف شکایت زبان پر نہیں لائی۔ پھر سامورائی نوکری کے سلسلہ میں دوسرے شہر چلا گیا اور بیوی کو یہاں اکیلا چھوڑ گیا۔ مہینے گزر گئے لیکن سامورائی کی طرف سے خیر خبر نہیں آئی۔ اس نے مڑ کر بیوی کا حال پوچھا نہ خط لکھا، پیغام بھجوایا اور نہ خرچ بھیجا۔ بیوی نے جس حال میں زندگی بسر کی، وہ تکلیف دہ ہے۔ خود دار اور وفادار عورت تھی۔ کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ انتظار میں دن گن رہی تھی کہ جی اسی کے بارے میں پوچھ رہا ہوں۔ آدمی بولا، میں نے آپ کو پہلے یہاں نہیں دیکھا۔ لگتا ہے کہ آپ مسافر ہیں اور کسی کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ سامورائی بولا، میں اس مکان کے بارے میں جاننا شوہر واپس آجائے۔

سامورائی بولا ، وہ کہاں ہے؟ جلدی بتاؤ۔ سامورائی کی بے صبری کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے پڑوی نے بات جاری رکھی ۔ ایک روز کسی نے خبر دی کہ سامورائی کا انتظار چھوڑ دے، بے وفا نے دوسری شادی کر لی ہے اور شاہانہ زندگی گزار رہا ہے۔

بیوی یہ سن کر بے حال ہو گئی ۔ اعتماد کو ٹھیس پہنچی تھی ۔ پہلے پہل یقین نہیں کیا لیکن گزرتے دنوں کے ساتھ جب سامورائی کی طرف سے پیغام نہیں آیا تو خبر کی صداقت پر یقین ہو گیا۔ شوہر نے محبت کی قدر نہیں کی۔ اس سوچ نے نڈھال کر دیا ، ہمت جواب دے گئی اور بیمار رہنے لگی ۔ کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔

پوچھا، پھر کیا ہوا؟ پڑوسی نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے بتایا۔ اور پھر ایک دن وہ بے چاری مرگئی۔ سامورائی کو دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا ۔ ہاتھوں کی لرزش پر قابو پانے کی کوشش میں منہ سے صرف اتنی آواز نکلی ، پھر کیا ہوا؟ کفن دفن کس نے کیا؟

وہ بولا ، کہتے ہیں کہ وہ کئی کئی دن گھر سے نہیں نکلتی تھی۔ بستر پر لیٹی دروازہ کو دیکھتی رہتی تھی ، اسی حالت میں اس کا انتقال ہوا۔ دوسرے گھر فاصلہ پر تھے ہموت کی خبر دیر سے ہوئی اس لئے کوئی ڈیڈ باڈی کے قریب نہیں آیا یہاں تک کہ جسم ڈھانچا ہو گیا۔ سالوں گزار کو۔ گئے ۔ تم کون ہو اور کیوں پوچھ رہے ہو ۔ کیا تم اس سامو کے رشتہ دار ہو؟

وہ جواب دیئے بغیر تھکے قدموں سے پلٹ آیا۔

لوگوں کا کہنا ہے کہ سامورائی کی بیوی شوہر سے ملنے کو بے قرار تھی کہ مرنے کے بعد بھی اسے صبر نہیں آیا۔ سامورائی واپس آیا تو بیوی کی روح گھر پر منتظر تھی۔

بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور ستمبر2019

Loading