ہم ستارے بنتے کیسے دیکھ سکتے
ہیں جبکہ وہ روشن ہی نہ ہوئے ہوں؟
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ ہم ستارے بنتے کیسے دیکھ سکتے۔۔۔ تخریر۔۔۔ڈاکٹر خفیظ الحسن) کائنات میں ستاروں کی تعداد کھرب ہا کھرب ہے۔ یہ کوئی مبالغہ نہیں۔ کائنات انتہائی وسیع اور قدیم ہے۔ ہماری کائنات کو بنے تقریباً 13.8 ارب سال گزر چکے اور محض قابلِ مشاہدہ کائنات کا قطر کم سے کم 93 ارب نوری سال ہے۔ قابلِ مشاہدہ کائنات میں ایک محتاط اندازے کے مطابق بیس کھرب سے زائد چھوٹی بڑی کہکشائیں ہیں۔ ہماری ملکی وے جیسی کہکشاں میں قریب 100 ارب ستارے ہیں۔ اس سے اندازہ لگائیے کہ کائنات میں لاتعداد ستارے ہیں۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ ایک سورج جیسے اوسط ستارے کی عمر کم سے کم 10 ارب سال ہوتی ہے۔ ایک ستارہ جس قدر بڑا ہو گا اسکی عمر اس قدر کم ہو گی۔ سورج سے چھوٹے ستاروں کی عمر 20 ارب سال تک ہو سکتی ہے جو کائنات کی عمر سے بھی زیادہ ہے۔
اب تک کا سب سے قدیم ستارہ جو دریافت ہوا ہےوہ زمین سے 190 نوری سالوں کی مسافت پر ہے۔
فلکیات کی دنیا میں اسے “میتھوسیلاح” کہتے ہیں۔
یہ ستارہ اب تک کے اندازوں کے مطابق اتنا ہی پرانا ہے جتنی کہ ہماری کائنات یعنی 13.8 ارب سال۔ (اس عمر میں کم سے کم 8 کروڑ سال کا فرق ہے).گویا یہ کائنات کے ابتدائی ستاروں میں سے ایک ہے۔
ستارے کیسے بنتے ہیں؟
ستارے دراصل ہائیڈروجن گیس سے بنتے ہیں۔ جی ہاں وہی گیس جس سے اگر آکسییجن کو ری ایکٹ کرایا جائے تو پانی بن جاتا یے جو
زندگی کے لیے ناگزیر ہے۔
جب ایک غیر معمولی مقدار میں ہائیڈروجن گیس ایک جگہ جمع ہونے لگتی ہے تو یہ کششِ ثقل کے باعث ارگرد کی مزید گیس اور خلائی گرد کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔
یوں ہائڈروجن گیس کی مقدار کے بڑھنے سے ستارے کا ماس بڑھنے لگتا ہے مگر یہ ستارہ تب تک روشن نہیں ہوتا جب تک اس میں موجود ہائیڈروجن گیس کے ایٹم گریویٹی کے شدید دباؤ اور بڑھتے ہوئے کروڑوں سینٹی گریڈ درجہ حرارت
کے باعث فیوژن کا عمل نہ شروع کر دیں۔جس سے ہائیڈروجن کے ایٹم اپنے سے بھاری ہیلئم کے ایٹموں میں تبدیل ہوں اور ساتھ ہی ساتھ شدید روشنی اور تابکاری خارج ہو۔
ستارے کے بننےکا عمل راتوں رات نہیں ہوتا۔ ایک ستارے کو مکمل روشن ہونے میں کم سے کم بھی دس لاکھ سال تک لگ جاتے ہیں۔ اس طویل مدت کے بعد جب ستارہ فیوژن کے عمل سے بھڑکتا
ہے تو یہ نظارہ شاید کائنات کا سب سے خوبصورت نظارہ ہوتا ہے۔ ایک ستارے کا جنم ویسے ہی جیسے ایک بچے کا جنم ہوتا ہے جس سے ماں باپ کے چہروں پر مسرتیں پھوٹتی ہیں، شاید ایسے ہی ایک ستارے کی اس کائنات کے وجود میں روشن ہونے سے، اسکے گرد بنتے کئی سیاروں میں زمین کی طرح زندگی پھوٹتی ہو۔
مگر سوال یہ ہے کہ جب ستارہ بن رہا ہوتا یے تو ماہرینِ فلکیات اسے کیسے دیکھ سکتے ہیں؟ کیونکہ یہ روشن تو نہیں ہوتا۔
اسکا جواب ہے روشنی!!! مگر وہ روشنی نہیں جو آپکی اور میری آنکھ دیکھ سکتی ہے۔ یہ ایک خاص طرح کی روشنی ہے جسے انفراریڈ روشنی کہتے ہیں۔
روشنی دراصل برقناطیسی موج ہے۔ جس طرح پانی کی موجوں میں اُتار چڑھاؤ ہوتا ہے ایسے ہی روشنی کی موجوں میں بھی اُتار چڑھاؤ ہوتا ہے۔ کسی مسلسل موج یا لہر کے دو قریبی اُتار یا چڑھاؤ میں فاصلے کو ویوولینتھ کہتے ہیں۔ گویا ویوولینھ کی اکائی فاصلے کی اکائی ہوئی۔ چونکہ یہ فاصلہ بے حد کم ہوتا ہے۔ اسی لئے اسے نینومیٹر میں ماپا جاتا ہے۔ نینومیٹر دراصل ایک میٹر کا ایک اربواں حصہ ہوتا ہے۔ تقابل کے لئے ایک ہائیڈروجن ایٹم کا سائز 0.1 نینومیٹر ہوتا ہے۔ یعنی ایک میٹر کا 10 اربواں حصہ۔
روشنی کی لہریں مختلف ویویلنتھس کی ہو سکتی ہیں۔ روشنی کی ویوویلنتھس کی مکمل رینج کو سپیکٹرم کہا جاتا ہے۔ اس سپیکٹرم کے مختلف حصوں کی سائنس میں درجہ بندی کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر 380 سے 700 نینومیٹر کی روشنی کی ویویلنتھس کو
وِزیبل
یا “ِدکھنے والا” سپیکٹرم کہا جاتا ہے کیونکہ انسانی آنکھ اسے دیکھ سکتی ہے۔
اسی طرح 650 سے 700 نینومیٹر کی ویوولینتھ کی روشنی کا رنگ انسانی آنکھ کو سرخ دکھتا ہے مگر 700 نینومیٹر سے 1 ملی میٹر کی ویوولنتھ کی روشنی کو انفراریڈ (تصویر میں Infrared ) کہا جاتا ہے۔ یہ روشنی انسانی آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔ ہر وہ شے جسکا کچھ نہ کچھ درجہ حرارت ہوتا ہے اس میں سے انفراریڈ روشنی نکلتی ہے۔ اس انفراریڈ روشنی کو ماپنے کے لئے خاص طرح کے ڈیٹیکٹر بنائے جاتے ہیں جو انہیں ڈیٹیکٹ کر سکتے ہیں۔ انفراریڈ کیمرے جو رات کے وقت بھی اشیاء کو دیکھ سکتے ہیں ان میں ایسے ہی مخصوص ڈیٹیکٹر لگے ہوتے ہیں۔ کیونکہ اندھیرے میں بھی اشیاء انفراریڈ روشنی خارج کر رہی ہوتی ہیں۔
تو ستارے جو ابھی روشن نہیں ہوئے ہوتے، انکے بننے کے عمل کے دوران ان میں موجود ہائیڈروجن گیس کا درجہ حرارت آہستہ آہستہ بڑھنے لگتا ہے۔ اس سے ان ایٹموں سے انفراریڈ روشنی نکلتی ہے جو بننے والے ستارے کے گرد گیس اور گرد سے بھی دیکھی جا سکتی یے اگر ہمارے پاس حساس انفرا ریڈ دوربینیں ہوں تو۔اور یہی وجہ ہے کہ دسمبر 2021 میں بھیجی جانی والی جیمز ویب ٹیلیسکوپ دراصل ایک انفراریڈ دوربین ہے جو نہ صرف ہمیں کائنات کا ماضی دکھاتی ہے بلکہ ستاروں کی پیدائش کا عمل بھی۔ یوں ہم اس دوربین کے ذریعے ستاروں کے بننے کے عمل کو بہتر طریقے سے جان سکتے ہیں۔ اور ستاروں کے عمل کو بہتر جان کر ہم سورج کے اور نظامِ شمسی کے ابتدائی حالات کے متعلق بھی بہتر اندازہ لگا سکتے ہیں
تخریر#ڈاکٹر خفیظ الخسن