Daily Roshni News

ہیموفیلیا۔۔۔۔۔قسط نمبر۱

Haemophilla

ہیموفیلیا

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اپریل2021

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )90فیصد پاکستانی خون میں موجود اس خطر ناک مرض سے بے خبر ہیں۔

خون کیا ہے اور انسان کے جسم میں اس کی کیا اہمیت ہے یہ تو ہم سب ہی جانتے ہیں خون کی قدر و قیمت کا زیادہ اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب خون کی کمی کی وجہ سے ہماری یا پھر ہمارے کسی عزیز کی جان خطرے میں ہو اور ایمر جنسی کی صورت میں فورا خون کا بندوبست کرنا پڑے۔ خون مصنوعی طریقے سے نہیں بنایا جا سکتا اور نہ ہی کوئی اور مادہ اس کا متبادل ہوتا ہے۔ اکیسویں صدی میں اتنی ترقی ہو چکی ہے کہ مصنوعی اعضا جیسے ٹانگیں، ہاتھ، دل، گردے، مصنوعی بالوں کے علاوہ اگر کھانے پینے کی اشیا پر نظر ڈالیں تو بہت سے مصنوعی فلیور ایجاد کر لئے گئے ہیں لیکن انسان مصنوعی خون بنانے سے ابھی بھی قاصر ہے۔ عام مشاہدے کی بات ہے کہ اگر جسم میں کوئی معمولی سی خراش آجائے تو محض چند منٹوں میں خون کا بہاؤ خود بخود بند ہو جاتا ہے اور اگر زخم گہر اہو تو وہاں پر خون کا لوتھڑا یعنی کلوٹ بن جاتا ہے جو مزید بہاؤ کو روک دیتا ہے۔ خون کے جمنے کے اس عمل کو طبی زبان میں کلوٹنگ میکانزم کہتے ہیں اس عمل میں تقریباً بارہ اجزا حصے لیتے ہیں جو کلو ٹنگ فیکٹر ز کہلاتے ہیں۔ اگر ان فیکٹر زمیں سے کسی ایک فیکٹر کی کمی بھی واقع ہو جائے تو ذرا سی چوٹ وغیرہ لگنے سے خون یونہی بہنا شروع ہو جاتا اور پھر کافی دیر تک بہتا ہی رہتا ہے بلکہ ضائع ہوتا رہتا ہے۔ اس طرح مریض تشویش ناک حالت میں آجاتا ہے۔ معمولی سی چوٹ لگنے پر بھی خون کا زیادہ عرصہ تک ضائع ہونا اور قدرتی طور پر بہنے سے نہ رکنا ہی دراصل ہیموفیلیا کا مرض کہلاتا ہے۔ ہیموفیلیا Haemophilia در اصل لاطینی زبان کا لفظ ہے ہے جس کے معنی ہیں ”خون سے محبت …. ہیموفیلیا ایک موروثی مرض ہے، جسے عام اصطلاح میں خون بہنے کی بیماری کہا جاتا ہے۔ عام نارمل انسان میں معمولی سی چوٹ لگنے پر خون تھوڑی دیر میں خود بخود رک جاتا ہے۔ ہیموفیلیا کے مریضوں کے ساتھ ایسا بالکل بھی نہیں ہوتا کیونکہ ان کے خون میں کلوٹ بنانے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ یہ کلوٹنگ ہی تو جسم کا خون ضائع ہونے سے بچاتی ہے۔ اس مرض میں جسم میں موجود خون جمانے والے ذرات میں اس حد تک کمی واقع ہو جاتی ہے کہ اگر کوئی چوٹ یا زخم لگ جائے ، تو خون رکنے یا جمنے میں کافی وقت لگتا ہے اور زیادہ خون بہہ جانے کے نتیجے میں موت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

بیماری کی شدت میں کسی حادثے کے بغیر بھی مریض کے جسم سے خون خارج ہو سکتا ہے۔ اصل میں خون ، پروٹین، سرخ و سفید خلیات اور پلیٹ لیٹس کے مجموعے کا نام ہے۔ جب کسی عام صحت مند فرد کو چوٹ لگتی ہے، تو قدرتی طور پر ایک خاص وقت تک خون بہنے کے بعد اس پر خود بخود ایک جھلی سی بن جاتی ہے، جو خون روکنے میں معاون ہوتی ہے۔ اس جھلی کو طبی اصطلاح میں کلاٹ (Clot) کہتے ہیں، لیکن اگر جھلی بنانے والے پروٹین (فیکٹر) کی جین متاثر ہو جائے، تو پروٹین بننے کا عمل رک جاتا ہے اور خون جم نہیں پاتا۔ یہی عمل ہیموفیلیا کا سبب بن جاتا ہے۔ یہ ایک موروثی مرض بھی ہے، جو والدین سے بچوں میں منتقل ہو سکتا ہے۔ ہیموفیلیا کی تین اقسام ہیں۔ ہیموفیلیا اے، بی اور ریئر فیکٹر ڈیفیشنسیز-Rare Factor Deficienciesان میں سب سے عام ہیموفیلیا اے ہے۔ ہر پانچ ہزار نوزائیدہ بچوں میں سے ایک بچہ ہیموفیلیا اے میں مبتلا ہوتا ہے۔ اس قسم میں فیکٹر 8 کی کمی ہوتی ہے۔ اصل میں خون رکنے یا جمنے کے عمل میں 12 اجزاء حصہ لیتے ہیں، جنہیں کلاٹنگ فیکٹرز (خون جمانے والے عناصر) کا نام دیا گیا ہے۔ اگر ان 12 فیکٹر زمیں سے کوئی ایک بھی کم ہو جائے، تو خون جمنے کا عمل متاثر ہو جاتا ہے۔ ہیموفیلیابی میں فیکٹر و، جبکہ ریئر فیکٹر ڈیفیشنسی میں ایک تابارہ مختلف فیکٹر ز کی کمی واقع ہو جاتی ہے۔ واضح رہے کہ ایک عام صحت مند فرد میں کلاٹنگ فیکٹرز کی نارمل مقدار 50 تا 200 انٹر نیشنل یونٹ ہوتی ہے۔

ہیموفیلیا کی شدت کے اعتبار سے درجہ بندی کی گئی ہے، جس کے مطابق پہلا درجہ مائلڈ ہیموفیلیا ہے، اس میں کلائٹنگ )Mild Haemophillia( فیکٹرز کی تعداد 5 فی صد سے زائد پائی جاتی درجے، معتدل ہیموفیلیا ہے۔ دوسرے میں فیکٹرز کی )Moderate Haemophillia( تعداد ایک سے 5 فی صد اور شدید ہیموفیلیا میں کلائٹنگ فیکٹرز )Severe Haemophillia( کی مقدار ایک فی صد سے بھی کم پائی جاتی ہے۔ عمومی طور پر مرض کی ابتدائی تشخیص اُسی وقت ہو جاتی ہے، جب پیدایش کے وقت نومولود کی ناف کاٹنے یا ختنے کے بعد خون کافی دیر تک بہتا رہتا ہے۔ علاوہ ازیں بچے کی ناک سے مسلسل خون کا بہنا، پیشاب میں خون کا اخراج، مسوڑھوں سے خون رسنا اور جوڑوں میں سوجن اس مرض کی ممکنہ علامات ہو سکتی ہیں۔

اس مرض کے ماہرین یعنی ہیموٹولوجسٹس (Hematologists) سے عموماً شدید ہیموفیلیا سے متاثرہ مریض ہی رجوع کرتے ہیں، موڈریٹ اور مائلڈ ہیموفیلیا والوں کو علاج کی ضرورت اُس وقت پیش آتی ہے، جب ان کی کوئی سرجری ہو، کوئی حادثہ پیش آجائے یا پھر چوٹ وغیرہ لگ جائے ۔ مائلڈ اور موڈریٹ ہیموفیلیا والوں کی زندگی قدرے بہتر ہوتی ہے، لیکن اس مرض کا ایسا کوئی مستقل علاج ابھی تک دریافت نہیں ہوا، جس کے نتیجے میں مکمل طور پر شفا مل سکے۔ ایسا بھی نہیں ہو سکتا کہ مرض میں مبتلا والدین کا علاج کر دیا جائے ، تو ان کے بچوں میں۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اپریل2021

Loading