Daily Roshni News

ہیموفیلیا۔۔۔۔۔قسط نمبر2

ہیموفیلیا

قسط نمبر2

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اپریل2021

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )ہیموفیلیا کی عالمی صورتحال …..؟؟عالمی تنظیم ورلڈ فیڈریشن آف ہیموفیلیا  کے مطابق دنیا بھر میں ہیموفیلیا کے مریضوں کی تعداد تقریباً چار لاکھ ہے۔ اطلاعات کے مطابق پاکستان میں 40 ہزار افراد ہیموفیلیا سے متاثر ہیں۔ تشویش ناک امر یہ ہے کہ دنیا بھر میں اس بیماری کے 75 فی صد مریض ایسے ہیں جو اپنا علاج باقاعدگی سے یا مناسب انداز سے نہیں کرواتے یا پھر بالکل بھی نہیں کرواتے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً 20 ہزار بچے ہیموفیلیا کے مرض میں مبتلا ہیں۔ صرف کراچی ہی میں تین ہزار بچے مرض سے متاثر ہیں، مگر الم ناک صورت حال یہ ہے کہ ملک بھر میں سرکاری طور پر رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ سے متاثرہ بچوں کی درست تعداد کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ۔ پاکستان میں ہیموفیلیا کے 90 فیصد مریض ایسے ہیں جو ہیموفیلیا کے 90 فیصد مریض ایسے ہیں جو تعلیم کی کمی، غربت، اس بیماری کے بارے میں آگہی کی کمی اور طبی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے اپنا علاج کروانے سےقاصر رہتے ہیں۔

ایک سروے کے مطابع ملک بھر میں ہیموفیلیا کے رجسٹر ڈ افراد کی تعداد صرف 15 سو کے قریب ہے جبکہ ایک بڑی تعداد میں مریض رجسٹر ڈ ہی نہیں ہیں۔ مرض پر حکومتی سطح پر بالکل بھی توجہ نہیں دی جارہی، پاکستان میں ہیموفیلیا کے رجسٹر ڈ مریضوں کی ایک بڑی تعداد ہونے کے باوجود اس بیماری کے علاج کے لیے پاکستان میں سرکاری سطح پر ابھی تک کوئی اسپتال قائم نہیں کیا گیا۔ ہیموفیلیا کا عالمی دن ہر سال 17 اپریل کو پاکستان سمیت پوری دنیا میں منایا جاتا ہے جس کا مقصد لوگوں میں ہیموفیلیا کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا اور ان مریضوں کے علاج کیلئے آسانیاں اور سہولتوں میں اضافہ کرنا شامل ہے۔ واضح رہے کہ 1963 ء میں Frank Schnabel نے مذکورہ فیڈریشن کی بنیاد رکھی اور پھر پہلی بار اس پلیٹ فارم سے 1989ء میں یہ یوم منایا گیا، جس کا مقصد مرض سے متعلق ہر سطح تک معلومات عام کرنا تھا۔ چوں کہ فرینک کا یوم پیدائیش 17 اپریل ہے، تو انھیں خراج عقیدت پیش کرنے ہی کے لیے اس تاریخ کا انتخاب کیاگیا۔ اس عالمی دن کا بنیادی مقصد مریضوں، ان کے گھر والوں، رضا کاروں اور معالجین کو آگاہی مہم میں شامل کر کے متاثرین و مشتبہ مریض کی مناسب دیکھ بھال تک رسائی یقینی بنانا ہے۔

مرض منتقل نہ ہو۔

یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ ہیموفیلیا کا مرض صرف مردوں میں پایا جاتا ہے اور عورتوں کو نہیں ہوتا۔

ہیموفیلیا کے مریض کا بیٹا کبھی ہیموفیلیا کا مریض نہیں ہوتا لیکن یہ مرض نانا سے لگ بھگ 50 فی صدنواسوں میں منتقل ہو جاتا ہے۔ مریض کی ساری بیٹیاں یہ مرض اپنے بیٹوں میں منتقل کر سکتی ہیں۔ یہ بیماری زیادہ تر چھوٹی عمر کے لڑکوں کو لاحق ہوتی ہے۔ جن بچوں کو یہ مرض ہو انہیں چاہیے کہ دانتوں کو سخت برش نہ کریں اور ایسا کھیل بھی نہ کھیلیں جس میں چوٹ لگنے کا اندیشہ ہو۔۔ خون بہنےکی صورت میں ایسے مریضوں کو پلازما لگایا جاتا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ سرکاری اسپتالوں میں ہیموفیلیا کے علاج کی سہولیات زیادہ نہیں ہیں اور نجی اسپتالوں میں علاج مہنگا ہے۔ اس وجہ سے کئی مریض موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہیموفیلیا کے مریض میں گھر کے کے کاموں اور اور گھر سے باہر عام انسانوں کی نسبت کام کرنے کی صلاحیت بہت کم ہوتی ہے۔ ہیموفیلیا کے مریضوں کو چلنے پھرنے، دوڑنے، سڑک پار کرنے اور نوکیلی یا تیز دھار اشیا کے استعمال کے دوران بہت زیادہ احتیاط کرنی چاہیے۔ امریکی میڈیکل ادارے مایو (Mayo) کلینک کی تحقیق کے مطابق ہیموفیلیا کے مریض کو چاہیے کہ وہ روزانہ ورزش کریں اور کسی بھی دوا کا استعمال کرنے سے پہلے جانچ کر لیں۔

دنیا بھر میں ہیموفیلیا کے مریضوں کو اڑتالیس گھنٹے کے فرق سے تین بار فیکٹر 8 یا 9 بذریعہ انجیکشن لگایا جاتا ہے۔ یہ وہ فیکٹر ز ہیں، جو مریض کے خون میں قدرتی طور پر نہیں پائے جاتے۔ یہ فیکٹر انجیکشن بہت زیادہ مہنگے ہوتے ہیں اور پاکستان میں دستیاب بھی نہیں، اس لیے ہمارے یہاں مریضوں کو فریش فروزن پلازما (Fresh Frozen Plasma ) یا منجمد پلازما دیا جاتا ہے، یعنی صاف اور صحت مند خون کا بر وقت انتقال صحت مند خون سے خون کے خلیے اور پلیٹ لیٹس نکالنے کے بعد جو کچھ بچتا ہے، وہی فریش فروزن پلازما کہلاتا ہے۔

ویسے تو بہترین صورت یہی ہے کہ ہیموفیلیا کے مریضوں کے جسم میں صرف خون جمانے والے وہی فیکٹرز داخل کیے جائیں، جن کی جسم میں کمی ہو۔ بہر حال ، ایف ایف پی کا طریقہ علاج بھی موثر ہے ۔ اگر محفوظ انتقال خون نہ ہو، تو ہیموفیلیا کے مریض ہیپاٹائٹس بی ، سی اور ایچ آئی وی سے بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔

پاکستان میں ہیموفیلیا ہی کی طرح کی ایک اور بھی عام Von Willebrand Disease بیماری ہے۔ اس مرض میں بھی خون جمنے کا عمل متاثر ہو جاتا ہے اور یہ بھی موروثی طور پر منتقل ہوتی ہے ، مگر چوں کہ پاکستان میں اس کے ٹیسٹ کی سہولت میسر نہیں لہذا اس کا بھی ہیموفیلیا کہہ کر علاج کر دیا جاتا ہے، حالاں کہ اس بیماری کے اپنے فیکٹر زہیں۔

یہاں اس بات کا بھی ذکر ضروری ہے کہ ہیمو فیلیا کا مرض بچوں کی نفسیات پر بھی اثرات مرتب کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں بچہ بے چینی، پژمردگی (ڈیپریشن)، کسی کام کو بار بار دہرانے کی نفسیاتی بیماری Obsessive-Compulsive Disorder، احساس کم تری میں مبتلا ہو سکتا ہے۔

ہیموفیلیا کے مریض بچوں کو علاج اور امداد فراہم کرنے والے چند ادارے:ہیموفیلیا کے مریضوں کے لیے پاکستان میں کئی فلاحی ادارے ہیں جو کسی حد تک ہیموفیلیا کے معصوم مریضوں کی مدد فراہم کر رہے ہیں، ان میں ہیموفیلیا ویلفیئر سوسائٹی ، انڈس اسپتال، سندھ بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی، حسینی بلڈ بینک، فاطمید فاؤنڈیشن، سندس فاؤنڈیشن، آغا خان یونیورسٹی ہسپتال، علی زیب فاؤنڈیشن، ہیموفیلیا پیشنٹس و س ویلفیئر سوسائٹی، فرنٹیئر فاؤنڈیشن پشاور، چلڈرن اسپتال اور بلڈ ڈ ڈیزیز سینٹر کراچی، فیتھ ، فائٹ اگینسٹ تھیلے سیمیا، دیا ویلفیر آرگنائزیشن، دستک ویلفئیر فاونڈیشن، چلڈرن ہسپتال لاہور ، حمزہ فاؤنڈیشن ویلفیئر ہسپتال اینڈ بلڈ سروسز پشاور، اللہ والے ٹرسٹ ، کاوش ویلفیئر ٹرسٹ ، سحر ویلفیئر فاؤنڈیشن ، نور تھیلے سیمیا فاؤنڈیشن، قابل ذکر ہیں۔

ہیموفیلیا ویلفیئر سوسائٹی کراچی وہ واحد ادارہ ہے جو اس بیماری میں مبتلا افراد اور ان کے والدین پر مشتمل ہے یہ سوسائٹی گزشتہ 20 سالوں سے اپنی مدد آپ کے تحت مریضوں کی خدمت کر رہی ہے۔ انڈس اسپتال کے ڈاکٹر عبد الباری صاحب، سندھ بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر در ناز، حسینی بلڈ بینک، فاطمید فاؤنڈیشن کے تعاون سے ہیموفیلیا ویلفیئر سوسائٹی کراچی کے زیر اہتمام پاکستان کے پہلے ہیموفیلیا سینٹر کا قیام بھی عمل میں لایا جا چکا ہے، صدر ہیموفیلیا ویلفیئر سوسائٹی کراچی راحیل احمد کے مطابق اس سینٹر میں نہ صرف کراچی بلکہ پورے صوبے سے اس مرض میں مبتلا مریضوں کا مفت علاج ہوتا ہے۔ اس بیماری میں مبتلا مریض کے علاج کے لیے ایک ماہ میں ہونے والے اخراجات دولاکھ روپے سے زائد ہوتے ہیں جو یہ ادارہ برداشت کرتا ہے۔

ہیموفیلیا خون کی موروثی بیماری ہے۔ اس کا مستقل علاج فی الحال ممکن نہیں۔

طبی ماہرین کہتے ہیں یہ مرض صرف لڑکوں میں پایا جاتا ہے، پیچیدگی کی صورت میں مریض کو سخت اذیت برداشت کرنا پڑتی ہے۔ ہیموفیلیا کی صورت میں انجیکشن کے ذریعے بھی خون کا بہاؤ بہتر بنایا جاتا ہے لیکن یہ انجکشن بہت قیمتی ہے، دوسری صورت میں مریض کو پلازمہ ایف ایف پی دیا جاتا ہے جسے نارمل انسان سے حاصل کئے گئے خون سے نکالا جاتا ہے۔ پاکستان میں بعض دیگر ممالک کے برعکس ہیموفیلیا کے مریضوں کو متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہیموفیلیا کی

روک تھام کے لیے حکومت ترجیحی بنیادوں پر مریضوں کو مطلوبہ فیکٹر زمہیا کرنے کے ٹھوس قدامات کرے۔ نیز، مرض کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ آگاہی فراہم کی جائے، تاکہ والدین اپنے بچوں کا بہتر سے بہتر علاج کروا سکیں۔

ان کلوٹنگ فیکٹرز کی کمی میں مدد صرف اور صرف معاشرتی فیکٹر زرہی کر سکتے ہیں یعنی معاشرے میں رہنے والے مخیر حضرات اپنے حصے کا مالی فیکٹر اور خون کے عطیات دے کر ہیموفیلیا فیکٹر ز کا نعم البدل ثابت ہو سکتے ہیں اور ان مریضوں کی زندگیوں کو محفوظ اور صحت مندی کی طرف لے جا سکتے ہیں۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اپریل2021

Loading