Daily Roshni News

یورپ کا جنون۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم

 

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔تحریر ۔۔۔حمیرا علیم)چند دن پہلے غیر قانونی طور پر یورپ جانے والے لوگوں کی بوٹ ڈوب گئی اور تقریبا 400 پاکستانی مارے گئے۔ایسا حادثہ پہلی بار نہیں ہوا۔ہر چند ماہ کے بعد ایسی ہولناک خبریں سننے کو ملتی ہیں۔پچھلی بار اس بارے میں ایک آرٹیکل لکھا تھا جو اپنے فیس بک پر شیئر کیا تو مختلف کمنٹس پڑھنے کو ملے جن میں بیشتر کا کہنا تھا کہ :”پاکستان کے حالات اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ کوئی روزگار میسر ہی نہیں ایسی صورتحال میں لوگ بیرون ملک نہ جائیں تو کیا کریں۔”

” بندہ غریب نہ ملک میں زندہ رہ سکتا ہے نہ ملک سے باہر۔”

“پاکستان میں تو کوئی کام ہی نہیں ہے۔بندہ یورپی ممالک میں جا کر بیرا گیری بھی کرے تو باعزت طریقے سے فیملی کو پال سکتا ہے۔”

    میرا نکتہ نظر آپ سب سے کچھ مختلف ہے۔پہلی بات تو یہ کہ جب ایک غریب خاندان کا لڑکا اپنے والدین کو مجبور کر کے 23 سے 35 لاکھ کا قرضہ لیتا ہے یا اپنی ماں کے زیور باپ کی زمین بیچ کر اپنے غیر قانونی سفر کے لیے پیسے ارینج کرتا ہے تو والدین کو اس کے اس ناجائزمطالبے کو ماننے سے صاف انکار کر دینا چاہیے۔اسے سمجھانا چاہیے کہ وہ یہ سب افورڈ نہیں کر سکتے۔

    دوسری بات اگر ایک غریب خاندان اتنے پیسے ارینج کر سکتا ہے تو کیا بہتر نہیں کہ اس سے کوئی دکان یا مکان خرید کر کرائے پر چڑھا کر ماہانہ آمدنی حاصل کر لی جائے یا اس کے دسویں حصے سے کوئی سمال بزنس: چائے ، برگر، آئسکریم ،چاٹ کا فوڈ کارٹ، بوتیک، رکشہ، ٹیکسی، ٹھیلہ، ڈھابہ یاکوئی بھی گھریلو صنعت شروع کر لی جائے۔

      لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس طریقے سے بیرون ملک جانے کے خواہش مند بیشتر لڑکے میٹرک یا انڈر میٹرک ہوتے ہیں۔اور یہ شہزادے مزدوری یا چھوٹے موٹے کام کو اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ پی ایم یا صدر کا عہدہ انہیں ملے اور وہ بستر پر لیٹ کر بس عیش کریں کوئی کام نہ کرنا پڑے اور دنیا جہان کی آسائشیں بھی انہیں مل جائیں۔ایسے مائنڈ سیٹ کے ساتھ جب یہ اپنے کسی دیہاتی یا شہری دوست، رشتے دار یا ہمسائے کوکسی مڈل ایسٹرن یا مغربی ملک میں جا کر کماتا دیکھتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ بس کسی طرح ایک بار اس ملک میں پہنچ جائیں۔پھر وہاں سڑکوں پر بکھرے اور درختوں پر لگے ڈالرز اور  پاونڈز سمیٹ کر خود بھی عیش کریں گے اور پیچھے والوں کو بھی کروائیں گے۔

    چونکہ یہ پڑھے لکھے تو ہوتے نہیں اس لیے نہ تو گوگل پر کچھ ریسرچ کر کے ان ممالک کے ویزہ پراسس کے بارے میں جان سکتے ہیں نہ ہی انہیں یہ علم ہوتا ہے کہ بغیر لیگل ویزے کے ان ممالک میں جانا کس قدر خطرناک ہوتا ہے۔اس سفر کے دوران ان کی جان بھی جا سکتی ہے اور بالفرض محال وہاں پہنچ بھی گئے تو ڈی پورٹ بھی ہو سکتے ہیں۔

    فرض کریں ایسا نہیں ہوا تو بھی رہائش اور کام کے سلسلے میں دشواریاں پیش آتی ہیں۔غیر قانونی طور پر رہنے والوں کو ہر وقت دھڑکا لگا رہتا ہے کہ پکڑے نہ جائیں۔کام پہلے تو ملتا نہیں اور اگر ملے بھی تو آجر بہت کم اجرت دے کر طویل ڈیوٹی آورز میں کام لیتا ہے۔

    اور سچ تو یہ ہے کہ جو لڑکے اپنے ملک میں مزدوری یا چھوٹی موٹی جاب کو کسر شان سمجھتے ہیں وہاں جا کر بھی ڈش واشنگ، ٹوائلٹ کلیننگ، بیرا گیری اور لان موونگ جیسے معمولی کام ہی کرتے ہیں۔کیونکہ جیسے پاکستان میں معاشی بحران اور مہنگائی ہے ویسے ہی دنیا بھر میں یہ مسائل ہیں۔کرونا کی وجہ سے ہر ملک اس مسئلے سے دوچار ہے۔

    میرے بہن بھائی اور رشتے دار یوکے، یو ایس، نیوزی لینڈ، دوبئی، سعودیہ، بحرین  اور کینیڈا میں مقیم ہیں۔بعض اوقات لوگ مجھے بھی یہ مشورہ دیتے ہیں کہ آپ وہیں شفٹ ہو جائیں آپ کے تو بہن بھائی نیشنل ہیں۔میرا جواب ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ وہ نیشنل ہیں مگر ویزہ آفیسر نہیں نہ ہی وہاں کے کنگ کوئین کہ جب چاہے جسے چاہے بلا لیں۔

    اگر کوئی بھی شخص کسی مغربی ملک میں جا کر کمانا چاہتا ہے تو بہترین طریقہ ہے کہ وہاں کے کسی شہری سے شادی کر کے جائے یا اسٹوڈنٹ/ ورک ویزہ پر جائے۔جس کا پروسیجر یہ ہے کہ کسی یونیورسٹی میں داخلہ لے کر ویزہ اپلائی کیا جائے۔یا ورک ویزہ کی فی ادا کر کے پرمٹ لے کر وہاں جائیں۔میاں بیوی کا ویزہ تو سب سے آسان ہے۔لیکن باقی دو کے لیے آپ کو آئی لیٹس کرنا ہوتا ہے گریجویشن کی ڈگری یا کوئی ٹیکنیکل سرٹیفیکیٹ چاہیے ہوتا ہے۔اور فی کے طور پر 3000 سے 10000 ڈالرز یا پاونڈز اور آپ لیگل طریقے سے وہاں پہنچ سکتے ہیں۔

    مگر یہ مت سمجھیے کہ آپ نے ایئرپورٹ سے قدم باہر نکالا نہیں اور نوکریاں ٹرے میں رکھ کر آپ کو پیش کر دی جائیں گی اب آپ جو جاب چاہیں گے کر لیں گے۔سب سے پہلے آپ کو رہائش چاہیے ہو گی۔جو یقینا آپ ایک کمرہ بھی افورڈ نہیں کر سکتے اس لیے تین سے پانچ لوگوں کے ساتھ ایک چھوٹا سا کمرہ شیئر کرنا پڑے گا۔جس کاماہانہ کرایہ اور بل 300 سے 500 ڈالرز / پاونڈز ہو گا۔کھانے پینے کی اشیاء بھی مہنگی ہیں اور بسوں ٹیکسیوں کے کرائے بھی۔یعنی آپ کو کوئی ایسی جاب کرنی پڑے گی جوآپ کو 400 سے 1000 تک پے کرے تبھی آپ اپنا خرچہ بھی اٹھا پائیں گے اور اپنی فیملی کو بھی کچھ بھیجنے کے قابل ہوں گے۔

    اور ایسا ایک دم ممکن نہیں ہوتا۔کیونکہ ہر حکومت اور ملک کے کچھ قوانین ہوتے ہیں۔اور ہر ملک ہی بے روزگاری اور معاشی مسائل کا سامنا کر رہا ہے۔

   پڑھا لکھا شخص تو دنیا میں کہیں بھی ہو اور کچھ کر سکے یا نہیں ٹیوشن پڑھا کر بھی گزارا کر لیتا ہے لیکن بغیر کسی ہنر یا ڈگری کے انسان کچھ بھی نہیں کر سکتا۔جو لوگ پاکستان میں رہ کر کام نہیں کر سکتے وہ باہر جا کر کیا کریں گے۔اس لیے بجائے باہر جانے کے خبط میں مبتلا ہو کر پیسہ اور جان گنوانے کے اپنے ملک میں ہی کچھ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

    پچھلے چالیس سال سے انسانی اسمگلنگ کے کیسزمنظر عام پر آ رہے ہیں۔ یہ انسانی اسمگلرز فی تو اتنی ہی لیتے ہیں جتنی کہ لیگل ویزہ کی ہوتی ہے مگر سفر غیر قانونی طریقے سے کرواتے ہیں۔کبھی کنٹینرز میں بند کر کے تو کبھی چھوٹی سی بوٹ میں سینکڑوں مسافر بٹھا کر، تو کبھی پیدل برف اور صحراؤں میں چلا کر یہ بارڈرز پار کرواتے ہیں۔نتیجتا اکثر یہ بوٹس سمندر میں ڈوب جاتی ہیں،  کنٹینرز میں دم گھٹ جاتا ہے یا بارڈر پولیس کی گولیوں کو نشانہ بن کر یہ جوان آنکھوں میں یورپ کے خواب سجائے لحد میں اتر جاتے ہیں۔

    اور ان کے والدین، بہن بھائی  بیوی بچے جو قرضے کے بوجھ تلے دبے ہوتے ہیں بالکل ہی بے یارومددگار رہ جاتے ہیں۔بعض اوقات تو اپنے پیاروں کی لاشیں پاکستان لا کر ان کی تدفین بھی نہیں کر پاتے کہ نہ کوئی ریسورس ہوتا ہے نہ پیسہ۔اور ہماری حکومت کے لیے عوام کی جان واحد چیز ہے جو بیکار ترین ہے۔اس لیے حکمرانوں کی بلا سے لاشیں پاکستان آئیں یا نہیں انہیں کچرے کے ڈھیر پر پھینکا جائے یا سمندر برد کر دیا جائے کسے پرواہ ہے۔

           اب ذرا ان لوگوں کا تصور کیجئے جن کو 23 سے 35 لاکھ کا نہ تو قرض ملتا ہے نہ ہی وہ کچھ بیچ کر یہ رقم حاصل کرسکتے ہیں۔ان کے پاس صرف اور صرف ایک آپشن ہوتا ہے۔اپنے ملک میں رہ کر کوئی بھی کام کرنے کا۔چنانچہ وہ ہروہ کام کر لیتے ہیں جس سے باعزت طریقے سے روزگار حاصل کر سکیں اور اپنی فیملی کو سپورٹ کر سکیں۔

     ایک مزدور اگر سارا دن کمر پر بوریاں لاد کر یا کسی ٹرالر پر سامان ڈھو کر بھی کچھ کمانے کی کوشش کرے تو دن کا ایک ہزار تو کما ہی لے گا۔سبزی فروٹ کا ٹھیلہ لگا لے،سموسے، چاول یا دال بیچ لے، فیکٹری میں مزدوری کر لے، دکان میں سیلزمین لگ جائے، اپنے کھیتوں میں سبزی، پھل یا کوئی اناج لگا لے، بکری ، مرغی، بھینس پال لےتو کچھ نہ کچھ تو کما ہی لے گا۔تھوڑا ہو گا مگر فیملی کا ساتھ ہو گا توگزر بسر ہو ہی جاتی ہے۔لیکن دیار غیر میں نہ زبان آتی ہو نہ جان پہچان ہو جیب بھی خالی ہو تو بندہ وطن واپس آنے کے قابل بھی نہیں رہتا۔اور اکثر غلط لوگوں کے ہاتھوں میں پڑ کر کئی برائیوں کا شکار ہو جاتا ہے۔

     پچھلے دنوں وائس آف امریکہ کی ایک رپورٹ دیکھی جس میں اٹلی میں موجود غیر قانونی پاکستانی لڑکے جسم فروشی کرتے دکھائے گئے تھے کیونکہ کام مل نہیں رہا تھا اور اس کام میں پیسہ زیادہ ہوتا ہے ۔اگر کوئی لڑکا نہ مانے تو لوگ اسے پولیس کے حوالے کرنے کی دھمکی دے کر مجبور کر دیتے ہیں۔

   مجھے حیرت ہوتی ہے ان والدین پر جو اپنے تیرہ سالہ بچے کو اس طریقے سے بیرون ملک بھیجنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔میرے بیٹے، تیرہ اور نو سالہ، جب تک اسکول سے واپس نہ آجائیں میری جان سولی پر اٹکی رہتی ہے۔ذرا تاخیر ہو جائے تو میں وین ڈرائیور کو فون پر فون کرنے لگتی ہوں۔سو طرح کے وسوسے ذہن میں آتے رہتے ہیں۔پھر کیسے والدین اپنے 13 سے 22 سالہ بچوں کو سات سمندر پار بھیج کر اطمینان سے بیٹھ سکتے ہیں۔کیا انہیں معلوم نہیں کہ پاکستان جیسے ملک میں درندے ہیں تو مغربی ممالک کا کیا حال ہو گا۔جہاں ہر طرح کا نشہ اور جرم رائج ہے۔

    معذرت کے ساتھ،ایسے سخت الفاظ استعمال نہیں کرنا چاہتی مگر مجبوری ہے۔کہ جب جوان بچے لالچ میں آ کر باہر جانے کی بات کرتے ہیں اور والدین کو سبز باغ دکھاتے ہیں کہ وہاں جا کر قرض بھی اتار دیں گے بہن بھائیوں کی شادیاں بھی کر دیں گے۔گھر بھی بنا لیں گے تو والدین بھی دل ہر پتھر رکھ کراس خواب کی تعبیر ڈھونڈنے نکل پڑتے ہیں ۔

   لیکن افسوس کہ یہ سارے خواب اس وقت چکنا چور ہو جاتے ہیں جب ان کے بچوں کے مرنے کی خبریں ٹی وی پر چلتی ہیں یا ایجنٹ کی کال آتی ہے کہ آپ کا بیٹا فلاں جگہ زخمی پڑا ہے اگر زندہ سلامت دیکھنا چاہتے ہو تو مزید بیس لاکھ دو ورنہ لاش بھی دیکھنی نصیب نہیں ہو گی۔تب یہ والدین رو رو کر حکومت کو کوستے ہیں دہائیاں دیتے ہیں کہ ان کے بچوں کو یا ان کی مییتوں کو ان کے پاس لایا جائے۔حالانکہ یہ طریقہ اختیار کرنے کا حق صرف اور صرف ان کے پاس تھا کسی نے انہیں مجبور نہیں کیا تھا کہ اپنے بچوں کی جان سے کھیلیں۔

    روزگار ، بنیادی ضروریات زندگی اور سہولیات فراہم کرنا حکومت کا فرض ہے لیکن اگر ہماری نااہل حکومت ہمارے حقوق اور اپنے فرائض ادا نہیں کرتی تو کیا خودکشی جائز ہو جاتی ہے؟؟؟؟یاد رکھیے رزاق اللہ تعالٰی کی ذات ہے کوئی انسان نہیں۔اس لیے سب سے پہلے اس کی طرف رجوع کیجئے اس سے دعا کیجئے مدد مانگیے اور مقدور بھر کوشش جاری رکھیے۔آپ کے نصیب کا رزق آپ کو ضرور ملے گا کوئی اسے چھین نہیں سکتا اور جو آپ کے مقدر میں نہیں لکھا وہ آپ کتنی بھی کوشش کر لیں پا نہیں سکتے۔

    میں دو ایسے واقعات کی گواہ ہوں۔ایک صاحب جو خاصے بڑے عہدے پر فائز تھے جائزکمائی سے گھر بنا کر اس میں شفٹ ہونے سے ایک دن پہلے انتقال فرما گئے۔ایک خاتون کو ان کے بھائیوں نے گھر خرید کر دیا جو دو ماہ میں بیچنا پڑ گیا کیونکہ ان کے شوہر کو کاروبار میں نقصان ہو گیا تھا۔اس لیے اللہ کی تقسیم پر راضی رہنا سیکھیں۔اگر اللہ چاہتا تو سب کو ایلون مسک کی طرح امیر بنا سکتا تھا اس کے خزانے میں رتی بھر کمی نہ آتی۔

   لیکن ذرا تصور کیجئے ایسا ہوتا تو کوئی کسان، مزدور، ورکر، موچی، حجام، ڈرائیور وغیرہ نہ ہوتا پھرسارے کام کون کرتا۔ مستحقین کی مدد کے لیے خیرات، صدقات اور زکوۃ کا نظام موجود ہے۔ سرکاری ادارے نہ صرف مفت میں ہنر سکھاتے ہیں بلکہ ماہانہ وظیفہ بھی دیتے ہیں اورکورس پورا ہونے کے بعد کٹس سلائی مشینز وغیرہ بھی دیتے ہیں۔کئی این جی اوز اور مخیر حضرات روزگار کے سلسلے میں مدد کر رہے ہیں۔شرط صرف یہ ہے کہ آپ محنت کرنے کے لیے تیار ہوں۔

    دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں اس لیے کسی کا منہ لال دیکھ کر اپنے منہ پر تھپڑ مت ماریے۔اپنے گھر میں فیملی کے ساتھ رہ کر قناعت پسندی اختیار کیجئے تاکہ مصائب اور بری موت سے محفوظ رہ سکیں۔

Loading