Daily Roshni News

یوم مزدور ۔۔۔تحریر۔۔۔حمیراعلیم

یوم مزدور

تحریر۔۔۔حمیراعلیم

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ یوم مزدور ۔۔۔تحریر۔۔۔حمیراعلیم )دنیا بھر میں اس دن کو بڑے اہتمام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ عالمی لیڈرز بھی یکم مئی کی جدوجہد کا ذکر کررہے ہوتے ہیں۔ یہ دن عام طور پر دنیا میں مزدوروں کی کامیابی کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے اور اسکو “یوم مزدور” کہتے ہیں۔ جہاں تک ترقی یافتہ ممالک کی بات ہے وہاں یقینا مزدوروں کےلیے بنیادی سہولیات ہیں ۔صحت اور تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔مزدوروں کو جو بنیادی اجرت دی جاتی ہے اُس سے اُنکا اور اُنکے بچوں کا گذر بسرآرام سے ہوجاتا ہے۔بلکہ مغربی ممالک میں مزدور کو اس کا معاوضہ اس کی محنت کی مناسبت سے ادا کیا جاتا ہے۔جاپان میں کچرا اٹھانے والے کی تنخواہ لاکھوں میں ہوتی ہے۔یورپی ممالک میں ایک پلمبر، ویٹر ،الیکٹریشن اور مزدور اتنا کما لیتے ہیں کہ ہمارے ہاں کے پڑھے لکھے جوان بھی نہیں کیا سکتے۔ لیکن پاکستان میں مزدور بمشکل دو وقت کی روٹی ہی کھا سکتا ہے۔مزدور کا بیٹا بھی مزدور ہی بنتا ہے۔اس کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔

   پاکستان میں اس دن کو متعارف کرانے کا سہرا ذوالفقار علی بھٹو کو جاتاہے۔ بھٹو نے روٹی، کپڑا اور مکان کا دلکش نعرہ لگاکر پورے پاکستان کے مزدوروں کو اپنے ساتھ ملالیا۔ لیکن اُنکے دور میں اداروں کوحکومتی تحویل میں لینے سے مزدوروں کو نقصان ہی پہنچا۔ بعد میں دو مرتبہ اُنکی بیٹی بینظیر بھٹو اورایک مرتبہ اُنکے داماد آصف علی زرداری بھی روٹی، کپڑا، اور مکان کا دلکش نعرہ لگاکر عوام کو سبز باغ دکھائے۔ مگر مزدوروں کی حالت بدسے بدتر ہوتی چلی گی۔

     بھٹو کے بعد ضیاءالحق سے آج شہباز شریف تک ہرحکومت یکم مئی ضرور مناتی ہے مزدور کی اجرت کم از کم 25000 کرنے کا خواب بھی دکھایا جاتا ہے ۔ اور اُس دن وزیراعظم ، صدر سے لیکر محلے کے لیڈر تک ہر ایک اپنے مزدور بھائی کی پریشانیوں کے غم ڈوبا ہوا ہوتا ہے۔ لیکن یہ سب گفتار کے غازی بڑے دعوے اور وعدے تو کر لیتے ہیں مگر عملی طور پر کچھ ایسانہیں کیا جاتا کہ مزدور بھی زندگی کے چند دن آرام سکون سے گزار سکے۔ٹریڈ یونینز کے لیڈرز جو جلسے جلوسوں میں اسٹیج پہ مزدور کے حق کیلئے دھواں دار تقاریر کرتے ہیں لیکن بند کمروں میں فیکٹری مالکان کیساتھ ساز باز کر کے اپنی جیب گرم کر لیتے ہیں اور مزدور کو دھوکہ دیتے ہیں۔

       یکم مئی کےبارے میں شفیع جوایک کپڑوں کی دکان پر کام کرتے ہیں اُنکا کہنا ہے کہ

 “اُنہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یکم مئی کو “یوم مزدور” منایا جاتا ہے۔ مزدوروں کے اس دن کی ان کی زندگی میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ”یومِ مزدور میرے لئے صرف کاغذوں پر ہے کیونکہ مجھے اس دن کوئی چھٹی نہیں ملتی۔اگراس روز میں چھٹی کر لوں تو ایک دن کی تنخواہ کاٹ لی جائے گی“۔یہ کہانی صرف شفیع کی ہی نہیں ہے بلکہ اس طرح کے لاتعداد مزدور جو سبزی فروخت کرتے ہیں یا رکشہ چلاتےہیں یا روز کی مزدوری کرتے ہیں جگہ جگہ مل جائیں گے۔ گل خان جو سڑک پہ اپنے اوزار سجائے کسی ایسے شخص کے منتظر ہیں جسے مزدور ی ضرورت ہو ان سے پوچھا گیا۔

” آج تو یوم مزدور ہے آپ نے چھٹی نہیں کی؟”

تو ان کا جواب تھا۔

” ہمیں معلوم نہیں یہ کونسا دن ہے۔اگر ہم ایک دن مزدوری نہیں کریں تو گھر والے بھوکے سوئیں گے۔”

 یکم مئی مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔اس دن کو منانے کا مقصد امریکا کے شہر شکاگو کے محنت کشوں کی جدوجہد کو یاد کرنا ہے۔انسانی تاریخ میں محنت و عظمت اور جدوجہد سے بھرپور استعارے کا دن 1 مئی ہے۔ 1884ء مین شکاگو میں سرمایہ دار طبقے کے خلاف اٹھنے والی آوازاپنا پسیہ بہانے والی طاقت کو خون میں نہلا دیا گیا، مگر ان جاں نثاروں کی قربانیوں نے محنت کشوں کی توانائیوں کو بھرپور کر دیا۔

    مزدوروں کا عالمی دن کار خانوں، کھتیوں کھلیانوں، کانوں اور بازاروں میں کام کرنے والے محنت کشوں کا دن ہے اور یہ محنت کش انسانی ترقی اور تمدن کی تاریخی بنیاد ہیں۔مغربی دنیا میں صنعتی انقلاب کے بعد سرمایہ کاروں کی اجارہ داری بڑھ گئی۔ تو سوشلزم ٹریڈ یونینز کی بنیاد ڈالی گئی۔ صنعتی مراکز اور کارخانوں میں مزدوروں کی بدحالی حد سے زیادہ بڑھ گئی۔ کئی گھنٹوں کام کروایا جاتا تھا۔اور معاوضہ برائے نام دیا جاتا۔یوم مئی کا آغاز 1886ء میں محنت کشوں کی طرف سے آٹھ گھنٹے کے اوقات کار کے مطالبے سے ہوا۔ٹریڈ یونینز اور مزدور تنظیمیں اور دیگر سوشلسٹک ادارے کارخانوں میں ہر دن آٹھ گھنٹے کام کا مطالبہ کیا۔

اس دن امریکا کے محنت کشوں نے مکمل ہڑتال کی۔ تین مئی کو اس سلسلے میں شکاگو میں منعقد مزدوروں کے احتجاجی جلسے پر حملہ ہوا جس میں چار مزدور ہلاک ہوئے۔ اس بر بریت کے خلاف محنت کش احتجاجی مظاہرے کے لیے ( Hey market square ) میں جمع ہوئے۔ پولیس نے مظاہرہ روکنے کے لیے محنت کشوں پر تشدد کیا اسی دوران میں بم دھماکے میں ایک پولیس افسر ہلاک ہوا تو پولیس نے مظاہرین پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی جس کے نتیجے میں بے شمار مزدور ہلاک ہوئے اور درجنوں کی تعداد میں زخمی اس موقعے پر سرمایہ داروں نے مزدور رہنماؤں کو گرفتار کر کے پھانسیاں دی۔

    حالانکہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھا کہ وہ اس واقعے میں ملوث ہیں۔ انہوں نے مزدور تحریک کے لیے جان دے کر سرمایہ دارانہ نظام کا مکروہ چہرہ آشکار کر دیا۔ ان ہلاک ہونے والے رہنماؤں نے کہا ۔

’’تم ہمیں جسمانی طور پر ختم کر سکتے ہو لیکن ہماری آواز نہیں دباسکتے ‘‘

اس جدوجہد کے نتیجے میں دنیا بھر میں محنت کشوں نے آٹھ گھنٹے کے اوقات کار حاصل کیے ۔

سن 1989ء میں ریمنڈ لیوین کی تجویز پر یکم مئی 1890ء کو یوم مئی کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا۔اس دن کی تقریبات بہت کامیاب رہیں۔اسکے بعد یہ دن ’’ عالمی یوم مزدور‘‘ کے طور پر منایا جانے لگا۔

 آج یوم مزدور ہے اور آج کے دن تمام سرمایہ کار چھٹی پر ہوتے ہیں سکول،  دفاتر، فیکٹریاں کارخانے بند  ہوتے ہیں۔ مزدوری کا کوئی وسیلہ نہیں، اس لیے مزدور کے بچے آج بھوکے رہیں گے، بھوکے سوئیں گے جبکہ حکمران اور با اثر طبقات مزدور کے نام کی محفلیں سجائیں گے۔ خطابت کے تمام جوہر دکھائیں گے اور محفل کے اختتام پر بہترین سوغاتوں سے پیٹ کا جہنم بجھائیں گے کیونکہ بھوک تو صرف مزدور کا مقدر ہے۔اس دن کی مناسبت سے لکھی گئی ضمیر جعفری کی ایک نظم یاد آگئی۔

یہ مئی کی پہلی، دن ہے بندۂ مزدور کا

مدتوں کے بعد دیکھا اس نے جلوہ حور کا

یہ جو رشتہ دار تھا ہم سب کا لیکن دور کا

مل کے مالک نے اسے رتبہ دیا منصور کا

جب لگایا حق کا نعرہ دار پر کھینچا گیا

نخل صنعت اس کے خوں کی دھار پر سینچا گیا

آج لیبر یونین میں شادمانی آئی ہے

آج مزدوروں کو یاد اپنی جوانی آئی ہے

مل کے مالک کو مگر یاد اپنی نانی آئی ہے

یا الٰہی کیا بلائے آسمانی آئی ہے

سنتے ہیں مزدور سے مالک کا مہرہ پٹ گیا

”ایک جا حرف وفا لکھا تھا وہ بھی مٹ گیا”

ہوتا ہے ‘مے ڈے’ کا اور ‘مے پول’ کا جب انتظام

ناچتے ہیں بانس کے گرد آ کے یورپی عوام

لیکن اب ناچے گا وہ ظالم کہ جو ہے بد لگام

بانس کے بل پر دکھائے جیسے بندر اپنا کام

وہ جو پہلے تھا کبھی بندر مداری بن گیا

یعنی مزدور افسر سرمایہ کاری بن گیا

بعض ایسے تھے جو سرمائے کے ٹھیکیدار تھے

کہتے تھے مزدور کو خر اور خود خر کار تھے

چور بازاری کی جڑ تھے اور بڑے بٹ مار تھے

نفع خوری کے سوا ہر کام سے بیزار تھے

اب حلق میں ان کے جو کھایا اٹک کر جائے گا

غیر ملکوں میں نہ سرمایہ بھٹک کر جائے گا

پوچھو ان سرمایہ داروں سے کہ کب جاگو گے تم

یا یوں ہی پیتے رہو گے بے مروت مے کے خم

دیکھو ہر سال آئے گی ماہ مئی کی یہ یکم

سنتے ہیں سیدھی نہیں ہوتی کبھی کتے کی دم

تم مگر رکھتے ہو ایک انسان کی نوک اور پلک

”بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور کب تلک”

قابل عزت ہیں اس دنیا کے محنت کش عوام

ملک کی دولت ہیں یہ، واجب ہے ان کا احترام

اس کے یہ ممبر ہیں لیبر یونین ہے جس کا نام

ان کی محنت کے دیے جائیں گے ان کو پورے دام

یہ نہیں ہوگا خفا ہو کر دہاڑی کاٹ دی

آدھے رستے لائے اور انجن سے گاڑی کاٹ دی ۔

Loading