Daily Roshni News

یہ پتھر کون اٹھائے گا

یہ پتھر کون اٹھائے گا

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )آپ مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے ہیں آپ کو بتایا گیا ہے کہ دین کے حصول کے دو سورس ہیں اول قرآن اور دوم حدیث رسول ،کیونکہ قرآن ہی کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن کے شارخ ہیں ،اب آپ پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آپ کسی بھی قسم کے بیرونی اثر میں آۓ بغیر دین کے ان دو سورسز کا مطالعہ کریں اور خود تعین کریں کہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح آیا قرآن ہم تک مکمل حالت میں پہنچا ہے یاں کتب احادیث میں کوئی کمی و بیشی کی گئی ہے

یہ پہلا طرز عمل تو ہوا تحقیقی ،

مگر اکثریت بلکہ کہنا چاہیے بعض اوقات سو فیصد اس طرز عمل سے احتراز برتتا ہے ،ہم سنی سنائی باتوں پر چلتے ہیں قرآن کے متعلق بھی صرف جو کچھ سن رکھا ہوتا ہے وہیں ہمارا علم ہوتا ہے بہت مشکل سے کوئی شخص زندگی میں ایک بار مکمل قرآن کو شروع سے آخر تک ترجمہ کیساتھ پڑھتا ہے اور جو عربی جانتا ہے وہ عموماً اس کسی حاص سوچ اور نظریہ کے تحت پڑھتا ہے ، ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ ہم قرآن کو کسی حاص عقیدہ کو ثابت کرنے کے علاؤہ پڑھیں مثلاً ایک منکر حدیث ہے تو وہ قرآن کو اس نظریہ کے تحت پڑھے گا کہ میں نے یہ ثابت کر نا ہے صرف احکام دین قرآن ہی سے ملیں گے اور جب اس سے پوچھا جاتا کہ قرآن میں ایسی کو سی آیت ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کے علاؤہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دین کے کسی احکام کے متعلق راۓ دینے کی اجازت نہیں ہے یاں قرآن کی کس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے دین کا کوئی حکم جاری نہیں ہو سکتا تو جواب ندارد _

لیکن اس کے باوجود ان لوگوں کی زبان پر ایک جملہ ہمیشہ جاری و ساری رہتا ہے کہ میرے نزدیک صرف قرآن ہی جامع اور مستند ترین کتاب ہے اس سے باہر میں دین کا ایک بھی حکم دریافت نہیں کروں گا _ میں ایک سادہ سوال پوچھتا ہوں آپ قرآن کی سند لائیں ، کسی بھی شحص کو اس سوال کی توقع ہی نہیں ہوتی تو جواب ندارد _ میں پوچھتا ہوں آپ صرف قرآن کی مدد سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تاریخی وجود ثابت کریں جواب ندارد ، چلیں قرآن میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور زید کا ذکر تو آگیا ، سیدنا ابوبکر و عمر و عثمان وعلی کا تاریخی وجود ثابت کریں جب سوال یہ ہوتا ہے تو اکثریت چھاتی تان کر کہہ دیتی ہے ہمیں ان شحصیات کا تاریخی وجود ثابت کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے ایسی بے شرمی سے یہ بات کہتے ہیں صرف وجہ وہ ہٹ دھرمی جو بغیر کسی تحقیق اور سنی سنائی باتوں کے حدیث کی تمام پچاس کتب اور اسما الرجال و جرخ و تعدیل کی ہزاروں کتب اور درجنوں تاریخی کتب کو عجمی سازش قرار دے رکھا ہے ، اپنے اپنے ذوق اور ٹیسٹ کے مطابق ہم سن کر کوئی عقیدہ یاں نظریہ قبول کر لیتے ہیں ،مگر پڑھ کر تحقیق کر کے کون قبول کرتا ہے _

آپ مذہب کو لے لیں ،

بچپن میں آپ کو بتایا گیا کہ آپ مسلمان ہیں ، کیا یہ بات انصاف کے حلاف نہیں کہ آپ بائیبل اور وید و گرو گرنتھ صاحب وغیرہ پڑھے بغیر فیصلہ صادر کر دیں کہ اسلام سچا مذہب ہے اور اسلام کی سچائی کا اعلان بھی صرف سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر کر دیں _

کروڑ ں لوگ قرآن تک کو زندگی میں ایک بار بھی سمجھ کر نہیں پڑھتے اگر ہم کسی بھی قسم کا بیرونی نظریہ قبول کرنے سے پہلے قرآن کو بار بار سمجھ کر پڑھتے رہیں تو کوئی وجہ نہیں ہے ہم اس کی تشریح جاننے کیلئے حدیث کی ضرورت محسوس نا کریں جب ہم مکمل کتب حدیث پڑھ لیں گے پھر ہم ان کی حقیقت بھی جان لیں گے _ مگر سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پڑھے کون یہ بھاری پتھر کون اٹھائے _

ہم نے کسی بھی چیز کا فیصلہ کرنا ہے تو ہمیں اس کے متعلق پہلے مکمل تحقیق کرنی ہوگی اور اپنے طور پر تحقیق کرنی ہوگی قرآن کی رو سے ہمارے پاس وہ کونسا پیمانہ ہے جس کی بنیاد پر ہم کسی بھی شحص پر اعتماد کر سکیں کے اس شحص نے ناصرف حدیث کی مکمل پچاس کتب پڑھی ہوں گی بلکہ ایمانداری سے ان کے مطالعہ کے بعد جو نتائج اخذ کئیے ہیں وہیں ہمارے سامنے رکھے ہوں گے دوسری بات یہ شحص اسلام کے دشمنوں میں سے بھی نہیں ہے ، میں یہ اصول صرف یہیں استعمال نہیں کر رہا بلکہ ہر فرقہ سے تعلق رکھنے والے شحص کو کہتا ہوں وہ اپنی اپنی مذہبی اشرافیہ کا جائزہ لیں کہیں وہ دشمنان اسلام کیساتھ مل کر اسلام کا نقشہ تو نہیں بدل رہے

منکرین حدیث کے علاؤہ دوسرے مسلمانوں کو ویسے ہی اور پٹی پڑھائی گئی ہے کہ اگر خود دین پڑھا تو نعوذباللہ گمراہ ہو جاؤ گے یہ بالکل وہیں طرز عمل ہے تو ڈیڑھ ہزار سال تک عیسائی مذہبی اشرافیہ نے اپناۓ رکھا ، بالآخر عیسائیت مٹ گئی ہماری مذہبی اشرافیہ یہ طرز عمل کیوں اپنا رہی ہے اس کی خبر بھی احادیث میں دے دی گئی ہے پچھلے دن ہی میں نے شاید وہ حدیث پوسٹ کی ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم یہود ونصاریٰ کی پیروی کرو گے _ یعنی ان مذاہب کے پروہتوں اور دین کے ٹھیکیداروں نے نیچے عوام کو مذہبی کتب پڑھنے سے منع کیا اور اسلام کے نام نہاد ٹھیکیدار بھی بالکل یہیں کام کر رہے ہیں _

اور اگر کوئی اس جھلاوے میں نا بھی آۓ تب بھی ارد گرد نظر اٹھا کر دیکھیں کتنے لوگ ہیں جنہوں نے کسی قسم کے مذہبی عقیدہ کے زیر اثر آۓ بغیر حالص اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا دین سیکھنے کیلئے کم از کم صحاح ستہ کا مطالعہ کر رکھا ہے پھر اس بات کو سمجھا ہے کہ سند اور متن کیا چیز ہوتی ہے پھر اس بات کو سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ اسناد کیوں بیان کی گئی ہیں ، احادیث کی اقسام کتنی ہیں اسناد کی اقسام کتنی ہیں سند اور متن کو جانچنے پرکھنے کے اصول کیا ہیں ، راویوں کے حالات کا کہاں سے علم ہوگا ، صحابہ کے دور سے لیکر قریب پانچویں صدی ہجری تک حدیث میں کون کون سی کتب کس کس صحابی پھر تابعی پھر تبع تابعین اور پھر ان سے بعد کی جماعت نے لکھی _

کوئی ایک مائی کا لال ایسا نہیں ہوگا جس نے خود یہ بھاری پتھر اٹھایا ہو ، اور حدیث کی پچاس کتب خود پڑھ کر ثابت کیا ہے کہ یہ عجمی سازش معلوم ہوتی ہیں پھر حدیث کی ہر کتاب سے پچاس پچاس ثبوت پیش کئیے ہوں چونکہ یہ کام تکلیف دہ ہے اور نا صرف وقت مانگتا ہے بلکہ مطالعہ بھی کرنا پڑتا ہے تو یہ کام مشکل ہے ہاں اس کے برعکس کسی کی بات سن کر آدھے دین کا انکار اور آدھے قانون و شریعت کا انکار زندگی کو آسان بنا دیتا ہے قریب تمام ہی نبوی طریقوں یعنی سنتوں سے آدمی کی جان چھوٹ جاتی ہے جب آپ حدیث کا انکار کر دیتے ہیں پیچھے بچتی ہیں چند عبادات ، تھوڑا وقت گزرنے دین منکرین حدیث بھی دیکھیں گے اور حدیث کو ماننے والے بھی دیکھیں گے جو صرف مانتے ہیں پڑتے نہیں یہ منکرین حدیث کا چند عبادات پر ٹکا ہوا دین بھی اگلی نسل سے مٹ جائے گا انکار حدیث کا معاملہ انکار قرآن تک جاۓ گا صرف سائنس کا قرآن سے ٹکراؤں ہی قرآن کو افسانوی کتاب ثابت کرنے کیلئے کافی ابھی تک تو مذہبی اشرافیہ نے لوگوں کو یہیں بتایا ہے کہ سائنس ساری  کی ساری قرآنی تعلیمات کا پرتو ہے حالانکہ معاملا اس کے بالکل برعکس ہے تمام جدید سائنسی علوم چاہے وہ کائنات کے متعلق نظریات ہوں یاں انسان کے متعلق ان کے پیچھے ابلیسی سوچ کارفرما ہے مگر مذہبی اشرافیہ نے ان لوگوں کو دھوکہ دے رکھا ہے جو قرآن کو عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھتے تو ہیں پڑھتے نہیں وہ لوگ مذہبی اشرافیہ کے دھوکے کا شکار ہیں کہ سائنس تو ساری دریافتیں قرآن کی بدولت کر رہی ہے اور سائنس صرف وہیں کچھ بیان کر رہی ہے جو قرآن مجید میں چودہ سو سال پہلے آگیا ہے

ان نظریات کیساتھ چلتے ہوئے نئی نسل قرآن تو پڑھ نہیں رہی انہیں صرف بتایا جاتا ہے قرآن مقدس کتاب ہے اور ساتھ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ حوش قسمتی سے پہلے سائنس دان ہمیں نے پروڈیوس کر رکھے ہیں تم شاباش سائنس پڑھتے جاؤں ، میں نے اکثر لوگوں سے پوچھا ہے بھائی سائنس کا آسمانوں کے متعلق کیا نظریہ ہے وہ چھاتی ٹھونک کر جواب دیتے ہیں کونسے آسمان بھائی سائنس کسی قسم کے آسمانوں کے وجود پر یقین نہیں رکھتی ، ہم نے اپنے بچوں کو زندگی میں ایک بار بھی قرآن کی چھ ہزار دو سو چھتیس آیات ترجمہ کیساتھ پڑھنے کی ترغیب نہیں دی مگر وہیں بچے گمراہ کن سائنسی نظریات لاکھوں کروڑوں سطور کی صورت میں پڑھ چکے ہیں اب جو بات انہوں نے پڑھی ہے اس پر ان کا ایمان اور یقین ہے _

ایک دم سے جب دنیا کے معاشی و معاشرتی و سیاسی نظاموں کو بلا جا رہا احلاقی رویوں میں ان چیزوں کو پروان چڑھایا جا رہا تھا جن کا پوری انسانی تاریخ میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا مثلاً ہم جنس پرستوں کی شادیاں عین بالکل وہیں معاشرے اور وہیں حکومتیں ہم جنس پرستوں کی شادیاں حلال کر رہے تھے جو نام نہاد سائنس کی ترقی کے دعوؤں کیساتھ میدان میں آۓ تھے _ اگر تو آپ کے حیال میں احلاقی طور پر جانور وں سے بھی بدترین حالت پر معمور لوگوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کائنات کے راز کھول رہا ہے پھر تو آپ کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے لیکن اگر آپ ہم سے توجہ کا مطالبہ کرتے ہیں اور انصاف برتنے کا کہتے ہیں تو ہم درحواست کریں گے آپ جائزہ تو لیں جس چیز کو آپ مستند علم مانتے ہیں جدید سائنسی دریافتیں اس علم سے بھی مطابقت رکھتی ہیں یاں نہیں اور اگر نہیں بھی رکھتی تو آپ کم از کم ان تجربات سے گزر کر تو ان سائنسی رازوں کو حقیقت مانیں جن تجربات سے گزر کر انہوں نے یہ راز معلوم کئیے ہیں آخر سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر کسی چیز کو حقیقت مان لینا کہاں کا انصاف ہے _

جب تک میں خلا میں تیرتے ہوۓ گلوب کو نام نہاد انٹرنیشنل سپیس سٹیشن سے دیکھ نا لوں کیا تب تک اس ضمن میں میری تحقیق اور تجربہ پورا ہو جائے گا یاں اس بات کی تصدیق کیلئے میں نے اپنی ذاتی مطالعہ قرآن سے کونسی دلیل حاصل کی ہے

Loading