ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )سوال: اس دنیا میں رہتے ہوئے بہت سے لوگ ہیں جن کے نصیب اچھے نہیں ہیں ۔
جواب:- پہلے آپ نصیب کو سمجھ لیں ۔
” آپ نصیب کو سمجھ نہیں رہے ۔
“اگر ایک انسان دنیا میں بادشاہ ہے ، بااختیار ہے ، بڑا صاحبِ اقتدار ہے
” اور وہ فرعون ہے ، تو ہمارے خیال میں وہ بدنصیب ہے ،”
” نصیب کا تعلق آخرت کی فلاح سے ہے ۔ “
اب بتاؤ
کہ کون سا رنگ ہے جو اس کی فلاح میں رکاوٹ بن رہا ہے ۔
کالا رنگ؟ نہیں ہے ۔
کون سی غریبی ہے جو آخرت کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے ۔
یہ Chances اور Choices آپ لوگوں کے اپنے ہوئے ہیں ۔
فلاح کے لیے کہیں بھی رکاوٹ نہیں ہے ، کوئی شے رکاوٹ نہیں ہے ۔
یہ جو آپ سمجھ رہے ہیں یہ یہاں کی ، دنیا کی رکاوٹیں ہیں اور اس کا تعلق اصل بات سے نہیں ہے ۔
یہ تو آپ کے اپنے پہناوے ہیں ،
یہ کہ کہاں بیٹھو اور کیا کھاؤ ، کیا کرو اور کیا نہ کرو ۔
جس طرح ایک سفر ہو اور آپ گاڑی خریدتے جاؤ ، Ultimate انجام تو یہ ہے
کہ سفر کا End ہو جائے گا ۔
آخر مسجد جاؤگے ۔
کیا اللہ نے کہا
کہ میں تمہیں انصاف کر کے دوں گا
میں تمہیں اس کائنات کو برابر پیدا کر دوں گا ۔
وہ تو آسمان کو بنانے والا ہے ، زمین کو بنانے والا ہے ، رفعتوں کو بنانے والا ہے ، پستیوں کو بنانے والا ہے ،
دن کے ساتھ رات بنانے والا ہے ،
اُس نے کب کہا ہے
کہ میں برابری پیدا کروں گا ۔
“کہتا ہے
“” کہ میں تو Variety اور تضادات کا مالک ہوں ۔”
جہاں اتنا بڑا سورج پیدا کیا
وہاں ایک ذرے کو ایٹم کو پیدا کر دیا ۔
کہتا ہے
کہ کیا تم نے دیکھا ہے میری کائنات کو ، یہ پہاڑ ہیں
اور یہ ساتھ ہی دریا ہے ۔
اب اندازہ لگاؤ
، پہاڑ اور دریا ، ایک بلند ہے
اور دوسرا بہتا ہوا چلا جا رہا ہے ،
بادل رواں دواں ہیں ،
زمین بے چاری پست ہے ،
ہموار ہے ۔
“”اُس نے آپ کو برابری کا تو کہا ہی نہیں ہے “”
سوال:-
دراصل ہم لوگ دنیاوی کامیابی اور ناکامی کو خوش نصیبی اور بدنصیبی سمجھتے ہیں ۔
جواب:-
*دنیاوی کامیابی کے لحاظ سے خوش نصیبی اور بد نصیبی تو آپ کا شعبہ ہے ۔
“””” اس سے میرا کوئی تعلق نہیں ۔ “”””
” اگر ایک آدمی دنیاوی طور خوش نصیب ہے
” اور انجام میں بدنصیب ہے
“تو اس سے میرا کیا تعلق ہے ۔
” یہ تو آپ کے اپنے حاصل ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
(گفتگو والیم نمبر 29 ………… صفحہ نمبر 107 ، 108)
سرکار امام حضرت واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ