Daily Roshni News

، یہودیوں کے یہاں صرف تین نمازیں ہیں جس کو وہ مانتے ہیں۔۔۔تحریر  ۔۔۔۔۔۔۔۔ سید اسلم شاہ

، یہودیوں کے یہاں صرف تین نمازیں ہیں جس کو وہ مانتے ہیں:

تحریر  ۔۔۔۔۔۔۔۔ سید اسلم شاہ

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ تحریر  ۔۔۔۔۔۔۔۔ سید اسلم شاہ )یہودیوں کے یہاں ایک دن میں تو جو فرض نمازیں ہیں، یہودیوں کے یہاں صرف تین ہی ہیں جس کو وہ مانتے ہیں:

۱۔ پہلی نماز کو سشاریت (Shacharit) کہا جاتا ہے۔ سورج کے نکلنے کے بعد اور دوپہر تک کا عرصہ اس کا ہوتا ہے۔

۲۔ دوسری نماز کو منشاۃ (Mincha) کہا جاتا ہے اور اس کا وقت دوپہر سے لے کر شام تک ہوتا ہے۔

۳۔ تیسری نماز مغرب کے بعد سے لے کر رات تک ہوتی ہے اور اس کو معارو (Maariv) کہا جاتا ہے۔

یہودیوں کے یہاں ایک تصورِ اذان بھی ہے۔ کلمہ شیماع (Shema Yisrael) جس کے الفاظ توریت کی اس آیت سے ماخوذ ہیں:

שְׁמַ֖ע יִשְׂרָאֵ֑ל יְהוָ֥ה אֱלֹהֵ֖ינוּ יְהוָ֥ה ׀ אֶחָֽד׃

ترجمہ: سُن لو! اے بنی اسرائیل! تمہارا ربّ تمہارا خدا ہے، اور ایک خدا ہے۔

[سفر الاستثناء، باب نمبر: ۶، آیت نمبر: ۴]

آپ انٹرنٹ پر اس کو سُن بھی سکتے ہیں، اکثر اذان اس سے دی جاتی ہے، مگر اذان دینا ضروری نہیں بلکہ اکثر دی ہی نہیں جاتی ہے۔ مگر آیت میں “یہواہ” لفظ ہے، اس کی جگہ “ادونائی” بولا جاتا ہے۔

یہ پورا تصور مسلمانوں سے خاصی مختلف ہے:

۱۔ یہ ذیادہ طویل ہوتا ہے، کم از کم پندرہ منٹ تو ایک نماز میں لگ ہی جاتے ہیں۔ یہ پانچ منٹ میں ختم ہونے والی نماز نہیں ہوتی ہے۔

۲۔ اس میں چپل اتارنا ضروری نہیں، کسی بھی طرح پڑھی جاسکتی ہے۔

۳۔ عام طور پر یہودیوں کو آیات، دعائیں وغیرہ یاد نہیں ہوتی ہیں، وہ سب کتاب سے دیکھ کر پڑھتے ہیں اور اس کی پوری اجازت ہوتی ہے۔ مسلمانوں میں عام طور پر ایسا نہیں ہوتا۔

۴۔ جماعت بھی ضروری نہیں ہے۔ ہاں، اگر ایک سائناگوگ (synagogue) ہے، تو کم از کم پندرہ لوگوں کا جمع ہونا ضروری ہے۔ یہ چیز ہونا ایک طریقہ سے ان کے یہاں فرضِ کفایہ ہے۔ مگر کوئی شرط نہیں۔

۵۔ زبان کا بھی عبرانی ہونا ضروری نہیں، صرف کچھ دعائیں ہیں اور آیات ہیں جن کا عبرانی ہونا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ دیگر زبانوں کا بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

۶۔ سجدہ بھی بالکل ضروری نہیں ہے، البتہ پسندیدہ چیز ہے۔ اس لیے ممکن ہے کہ دورانِ عبادت کوئی یہودی لذت پاتے ہوئے سجدہ میں گر جائے۔ اور سجدوں پر کوئی قید نہیں ہے، جتنے چاہے کیے جاسکتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ قرآن میں بھی نمازوں کا ذکر ہے، مگر تفصیل اور طریقہ کار نہیں بتایا گیا۔ وہ چیز سنّتِ رسول ﷺ سے معلوم چلتی ہے۔ یہودیوں میں بھی اسلوب یہی ہے۔ توریت میں ذکر ضرور ہے، تفصیل کوئی نہیں ہے۔ یہ ساری چیزیں یہودیوں کے مطابق ان کے تواتر سے منقول ہیں۔

Loading