Daily Roshni News

آئینی عدالت کا فیصلہ کہیں چیلنج نہیں ہو سکے گا، حکومتی مسودے کے نکات سامنے آگئے

26 ویں آئینی ترامیم سے متعلق حکومتی مسودے کے نکات سامنے آگئے۔

حکومت نے وفاقی آئینی عدالت بنانےکا فارمولہ سیاسی جماعتوں سے شیئر کردیا۔ مجوزہ ترمیم کے مطابق وفاقی آئینی عدالت چیف جسٹس سمیت 7 ارکان پر مشتمل ہوگی، چیف جسٹس اور دو سینیئر ترین ججز رکن ہونگے۔

مجوزہ ترمیم میں کہا گیا ہے کہ وزیر قانون، اٹارنی جنرل پاکستان، بار کونسل کا نمائندہ شامل ہو گا، دونوں ایوانوں سے حکومت اور اپوزیشن سے دو، دو ارکان لیے جائیں گے، اس کے علاوہ صوبائی آئینی عدالتیں چیف جسٹس، صوبائی وزیرقانون، بارکونسل کے نمائندے پرمشتمل ہوگی۔

مجوزہ ترمیم کے مطابق جج کی اہلیت رکھنے والے کیلئے نام پرمشاورت کے بعد وزیراعظم معاملہ صدرکوبھجوائیں گے، وفاقی آئینی عدالت کے باقی ممبران کا تقرر صدر چیف جسٹس کی مشاورت سے کرینگے، چیف جسٹس اور ججز کے نام پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے وزیراعظم کو دیے جائیں گے۔

مجوزہ ترمیم کے تحت جج کی عمر 40 سال، تین سالہ عدالت اور 10 سالہ وکالت کا تجربہ لازمی ہوگا، جج کی برطرفی کیلئے وفاقی آئینی کونسل قائم کی جائے گی اور کسی بھی جج کی برطرفی کی حتمی منظوری صدر مملکت دیں گے۔

مجوزہ ترمیم میں کہا گیا ہے کہ وفاقی آئینی عدالت کا فیصلہ کسی عدالت میں چیلنج نہیں ہو سکے گا، چاروں صوبائی آئینی عدالتوں کے فیصلوں پر اپیل وفاقی عدالت میں ہوسکےگی۔

مجوزہ ترمیم کے مطابق سپریم کورٹ کےچیف جسٹس کا تقرر بھی 8 رکنی پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے ہوگا اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر تین سینیئر ترین ججز میں سے کیا جائے گا۔

دوسری جانب خورشید شاہ کی زیر صدارت آئینی ترامیم کے مسودے پر اتفاق رائے کیلئے پارلیمانی خصوصی کمیٹی کا اجلاس  ہوا جس میں حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے نمائندوں نے شرکت کی۔

آئینی ترامیم کے معاملے پر حکومتی اتحادی جماعتیں ایک پیچ پر آگئیں جبکہ جے یو آئی نے ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔

Loading