آئیں! چاند کو پڑھتے ہیں
تحریر ۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر احمد نعیم
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ آئیں! چاند کو پڑھتے ہیں۔۔۔ تحریر ۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر احمد نعیم)(چاند کے سطحی خدوخال کے بارے میں معلوماتی تحریر)
“وہ دیکھو، چاند پر کسی کا نام لکھا ہوا ہے”…
“چاند پر کسی کا چہرہ یا کوئی شکل بنی ہوئی ہے”…
“ایسا لگتا ہے کہ جیسے چاند پر کوئی بڑھیا چرخہ کات رہی ہے”…
ایسی یا ان سے ملتی جلتی کئی باتیں ہمیں اکثر سننے کو ملتی رہتی ہیں اور ان تشبیہات کی وجہ دراصل چاند کے دلچسپ و پرکشش ظاہری خدوخال ہیں جو زمانہ قدیم سے ہی انسان کو اپنی طرف متوجہ کرتے چلے آ رہے ہیں…
چاند کی سطح کے یہ خدوخال کسی دوربین سے دیکھنے پر بہت واضح ہو جاتے ہیں مگر عام آنکھ سے بھی چاند کے تاریک اور روشن حصوں میں فرق بآسانی محسوس کیا جا سکتا ہے…
یہ حقیقت تقریباً ہر انسان کے مشاہدے میں کبھی نہ کبھی ضرور آتی ہے کہ چاند کی سطح پر بعض جگہ گہرے رنگ کے کچھ دھبے دکھائی دیتے ہیں جبکہ کچھ جگہوں پر نسبتاً زیادہ روشن علاقے نظر آتے ہیں… اس طرح کے خدوخال کی وجہ سے ہی انسانی ذہن چاند کی سطح پر ایسی شکلیں یا بناوٹ تلاش کرتا ہے جو اس نے زمین پر کہیں اور دیکھی ہوں اور جن کا عکس انسانی ذہن میں پہلے سے موجود ہو… بالکل ایسے ہی جیسے اکثر ہمیں کسی بادل میں کسی جانور وغیرہ کی شکل بنی ہوئی محسوس ہوتی ہے… اس طرح کی مماثلت تلاش کرنے کو سائنسی زبان میں “پیراڈولیا” Pareidolia کہا جاتا ہے…
مگر کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ چاند کی سطح پر یہ گہرے دھبے اور روشن حصے آخر کیوں دکھائی دیتے ہیں اور یہ کس چیز کو ظاہر کرتے ہیں؟…
چاند کی سطح متنوع خصوصیات کا ایک دلکش منظر نامہ ہے جس کی تشکیل کئی عوامل کے امتزاج سے ہوئی ہے جن میں آتش فشانی سرگرمی Volcanism، ٹیکٹونک ایکٹیوٹی Tectonism اور بڑے شہاب ثاقب یا کامیٹس کے ٹکڑوں کے تصادم Impact Cratering کے اثرات جیسے اہم عوامل شامل ہیں…
چاند کے سطحی خدوخال کے مطالعے سے چاند کی ارتقائی اور ارضیاتی Geological تاریخ کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے اور ایک دوسرے سے مختلف دکھائی دینے والے حصوں کی خصوصیات میں فرق کو سمجھنا فلکیات کے مطالعے کا شوق رکھنے والے افراد کے لئے یقیناً ایک دلچسپ اور مفید موضوع ہے…
چاند کی سطح پر 3 مختلف قسم کے علاقے دیکھے جا سکتے ہیں…
-
قمری ماریا Lunar Maria:
چاند پر نظر آنے والے گہرے رنگ کے علاقوں کو “maria” کہا جاتا ہے لیکن یہ وہ ماریا نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں بلکہ یہ ماریا دراصل “سمندر” کے لیے استعمال ہونے والے لاطینی لفظ Mare کی جمع ہے… قدیم ماہرین فلکیات کا خیال تھا کہ چاند کی سطح پر موجود بڑے، سیاہ میدان دراصل سمندر اور جھیلیں ہیں… اگرچہ اب ہم جان چکے ہیں کہ یہ گہرے رنگ کے میدانی علاقے دراصل قدیم آتش فشانی سرگرمیوں اور لاوے کے جمنے کے اثرات کے باعث بنے ہیں اور یہ آزاد پانی کے بڑے ذخائر یا سمندر وغیرہ بالکل بھی نہیں ہیں لیکن تاریخی کشش کو دیکھتے ہوئے ان نسبتاً گہرے رنگ کے علاقوں کا یہی نام جدید دور میں بھی برقرار رکھا گیا اور آج بھی ان علاقوں کو “ماریا” ہی کہا جاتا ہے…
ماریا دراصل سینکڑوں کلومیٹرز پر پھیلے ہوئے میدانی علاقے ہیں جو چاند کی سطح کا تقریباً 16 فیصد حصہ بناتے ہیں… ان علاقوں کی البیڈو Albedo نسبتاً کم ہے جس کی وجہ سے یہ نسبتاً کم روشن یا زیادہ گہرے یا تاریک دکھائی دیتے ہیں… البیڈو سے مراد کسی جسم یا کسی سطح کی روشنی کو منعکس کرنے کی صلاحیت ہے یعنی جس جسم یا علاقے کی البیڈو جتنی زیادہ ہوگی، وہ اتنا ہی زیادہ روشنی کو منعکس کرے گا اور نتیجتاً زیادہ روشن دکھائی دے گا جبکہ کم البیڈو والے اجسام یا حصے کم روشن نظر آئیں گے… یہ علاقے یا ماریا نسبتاً زیادہ ہموار ہیں اور یہاں کم تعداد میں گڑھے یا Craters پائے جاتے ہیں… ماریا کو ان کے مخصوص گہرے رنگ اور نسبتاً گول یا نیم دائروی بناوٹ سے پہچانا جا سکتا ہے…
ماریا میں لوہے، میگنیشیم اور ٹائٹینئیم کے نمکیات کی مقدار ارد گرد کے پہاڑی علاقوں کے مقابلے میں زیادہ ہے اور ان نمکیات کی وجہ سے ہی ماریا کی البیڈو نسبتاً کم گردانی جاتی ہے…
ماریا کے ہموار ہونے کی وجہ دراصل اربوں سال پہلے چاند کے سطحی اور ارضیاتی ارتقاء کے دوران لاوے کا بہنا اور پھر جم جانا ہے… اس کی مثال ایسے ہی جیسے آپ دودھ یا دہی کو فریزر میں جمانے کے لئے رکھتے ہیں تو جمنے کے بعد وہ اپنی سطح ہموار رکھتے ہیں… لاوے کے بہاؤ اور جمنے کے اثرات کو نسبتاً ہموار سطح اور گہرے رنگ سے تعبیر کیا جاتا ہے…
ماریا کے حوالے سے یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ چاند کا وہ رخ جو ہمیشہ زمین کی طرف رہتا ہے، یہاں لاوے کے بہنے اور جمنے سے بننے والے ہموار میدانی علاقے نسبتاً زیادہ وسیع علاقے پر پھیلے ہوئے ہیں… جب کہ چاند کا دوسرا رخ جو کبھی زمین کے سامنے نہیں آتا، وہاں اس قسم کے ہموار میدانی علاقے بہت کم پائے جاتے ہیں… اس کی بنیادی وجہ چاند کا زمین کے ساتھ ٹائیڈلی لاکڈ Tidaly Locked ہونا ہے جس کی وجہ سے اربوں سالوں سے چاند کا صرف ایک ہی رخ زمین کی جانب رہا ہے اور اس رخ پر زمین کی کشش ثقل اور خارج شدہ حرارت کے زیادہ گہرے اور دیرپا اثرات کے باعث، زیادہ آتش فشانی عمل وقوع پذیر ہونے کے سبب، یہاں ہموار میدانی علاقے زیادہ حصے پر تشکیل پا گئے… جبکہ چاند کی دوسری طرف آتش فشانی کا عمل نسبتاً کم وقو پذیر ہوا اور نتیجتاً وہاں ایسے ہموار میدانی علاقے نسبتاً کم پائے جاتے ہیں…
-
قمری فراز یا پہاڑی علاقے Highlands:
چاند کے سطحی خدوخال میں دوسرا واضح حصہ چاند کے بلند پہاڑی علاقے ہیں جو چاند کی سطح کا ایک وسیع حصہ بناتے ہیں… یہ علاقے نسبتاً زیادہ روشن، چمکدار اور سفیدی مائل دکھائی دیتے ہیں… یہ حصے زیادہ البیڈو کی وجہ سے اپنی تیز چمک، بے ترتیب شکلوں اور ناہموار اور گڑھوں سے بھرپور ساخت سے پہچانے جاتے ہیں…
یہ چٹانیں کیلشیم، ایلومینیم اور سلیکیٹس سے بھرپور ہیں جن میں قمری ماریا سے زیادہ البیڈو ہے اور یوں یہ زیادہ روشنی کو منعکس کرتے اور زیادہ روشن دکھائی دیتے ہیں…
-
گڑھے یا کریٹرز Craters:
چاند کی سطح پر بے شمار گڑھے موجود ہیں جو خلائی چٹانوں، شہابیوں، سیارچوں یا کامیٹس کے ٹکڑوں کے ٹکرانے کے سبب بنے ہیں… ان گڑھوں کو کریٹرز Craters کہا جاتا ہے… یہ کریٹرز عین تصادم کی جگہ پر ایک گول گڑھا سا دکھائی دیتے ہیں جس کے اردگرد ابھرے ہوئے کنارے نظر آتے ہیں جنہیں Rim کہا جاتا ہے اور زیادہ تر بڑے کریٹرز پر مرکز سے باہر کی طرف پھیلتی ہوئی لہریں نما یا شعاعیں نما ساختیں بھی دکھائی دیتی ہیں جنہیں ایجیکٹا Ejecta کہتے ہیں… یہ ایجیکٹا دراصل اس وقت تشکیل پاتے ہیں جب بہت بڑے شہابیئے یا خلائی پتھر چاند کی سطح سے بے پناہ طاقت سے ٹکراتے ہیں اور اس روزدار تصادم کے نتیجے میں چاروں اطراف میں مادہ بکھرتا ہے…
مشاہدہ کرنے پر کریٹرز کو ان کے گول گڑھوں، آس پاس کی مخصوص ساخت یعنی ایجیکٹا اور دوربین سے دیکھنے پر بعض کریٹرز کے مرکز میں موجود ایک چھوٹا سا ٹیلا یا چوٹی Peak کی موجودگی سے پہچانا جا سکتا ہے…
ویسے تو چاند کی سطح پر اتنے گڑھے موجود ہیں کہ شاید تمام گڑھوں کی گنتی ہی ممکن نہیں اور ایک اندازے کے مطابق ایسے گڑھے جن کی چوڑائی کم از کم ایک کلومیٹرز سے زیادہ ہے صرف ان کی تعداد ہی تقریباً 13 لاکھ کے قریب بنتی ہے… تاہم انٹرنیشنل آسٹرانومیکل یونین کی جانب سے نو ہزار کے قریب گڑھوں کی باقاعدہ شناخت کی گئی اور انہیں نام بھی دئیے گئے ہیں جن میں سے قریباً چھ ہزار ایسے گڑھے ہیں جن کی چوڑائی کم از کم 20 کلومیٹرز سے زیادہ ہے…
جی ہاں، چاند پر موجود گڑھوں کو باقاعدہ نام بھی دئیے جاتے ہیں اور یہ نام زیادہ تر تاریخ کے مشہور و معروف سائنسدانوں، فلکیات دانوں یا سائنس اور فلکیات کے شعبوں میں اہم تحقیق کرنے یا خدمات سر انجام دینے والے افراد کے نام پر رکھے جاتے ہیں…
اسی طرز پر چاند پر مشہور فلاسفر افلاطون کے نام کا گڑھا بھی ہے، نیوٹن، کاپرنیکس اور کیپلر جیسے مشہور سائنسدانوں کے نام پر بھی گڑھے موجود ہیں اور کئی گڑھوں کے نام مسلمان سائنسدانوں کے نام پر بھی رکھے گئے ہیں…
یہاں ایک دلچسپ سوال پیدا ہوتا ہے کہ چاند کی سطح پر اس قدر زیادہ تعداد میں گڑھے کیوں اور کیسے بن گئے اور یہ گڑھے اربوں سالوں سے اب تک قائم کیوں ہیں اور ختم کیوں نہیں ہو جاتے؟…
تو اس کا جواب یہ ہے کہ چاند پر چونکہ قابل ذکر فضا یا ہوا کا وجود نہیں ہے، چنانچہ کرہ ہوائی کے حفاظتی غلاف کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے خلا سے چاند کی طرف آنے والے شہابیئے، پتھر یا چٹانیں بغیر کسی رکاوٹ کے بھرپور قوت کے ساتھ چاند کی سطح سے ٹکرا جاتے ہیں… زمین کے معاملے میں یہ شہابیے یا پتھر زمین کی فضا سے رگڑ کھا کر جل کر راکھ ہو جاتے ہیں اور زیادہ تر شہابیئے زمین کی سطح تک پہنچ ہی نہیں پاتے لیکن چاند پر ایسا نہیں ہوتا… اسی طرح چونکہ چاند پر ماحولیاتی اور حیاتیاتی سرگرمیاں نہیں ہیں یعنی بارشیں، سیلاب، طوفان، بڑے زلزلے وغیرہ رونما نہیں ہوتے اور انسانی یا دیگر حیوانی یا جراثیمی سرگرمی بھی وقوع پذیر نہیں ہوتی جو ان گڑھوں کو مٹانے یا تبدیل کرنے کا سبب بن سکے، اس لئے چاند پر ایک دفعہ بننے والا گڑھا ہمیشہ ویسے کا ویسے ہی موجود رہتا ہے اور اس میں کوئی قابل ذکر تبدیلی رونما نہیں ہوتی…
چاند کی سطحی خصوصیات کو بہتر انداز میں سمجھنے کے لئے عملی مشاہدات اور ارضیاتی معلومات کے مناسب امتزاج کی ضرورت ہے اور آپ مندرجہ ذیل نکات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگلی بار چاند کی سطح کے خدوخال کے نظارے کا زیادہ مفید لطف اٹھا سکتے ہیں…
-
چاند کی سطح کی خدوخال اور علاقوں کے ناموں سے واقفیت حاصل کرنے کی کوشش کریں… اس مقصد کے لئے قمری نقشہ جات Lunar Maps کا استعمال کریں جو گوگل اور ویکی پیڈیا پر آسانی سے دستیاب ہیں…
-
چاند کی سطح کے مختلف خدوخال چاند کے بدلتے مراحل کے ساتھ عیاں ہوتے اور پھر چھپتے رہتے ہیں، چنانچہ روشنی کے زاوئیے اور سائے میں تبدیلیوں کو نوٹ کرتے ہوئے مختلف مراحل کے دوران چاند کی سطح کا بغور مشاہدہ کریں…
-
ماریا، ہائی لینڈز اور کریٹرز کی شناخت کے لئے مخصوص رنگ اور ساخت والے حصے تلاش کریں…
-
چاند کی سطح کو بہتر طور پر زیادہ تفصیل سے دیکھنے کے لیے دوربین یا بائناکیولرز کا استعمال کریں…
(تحریر: ڈاکٹر احمد نعیم)