Daily Roshni News

آئی اے پی جے کے زیر اہتمام  آن لائن تربیتی نشست کا عظیم الشان کامیاب انعقاد

آئی اے پی جے کے زیر اہتمام  آن لائن تربیتی نشست کا عظیم الشان کامیاب انعقاد

معروف سینئر صحافی مجیب الرحمن شامی،  حفیظ اللہ نیازی،

  صحافی اور ماہر تعلیم حسین احمد پراچہ کی خصوصی گفتگو  ۔۔۔۔

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل  ۔۔۔۔۔ رپورٹ  ۔۔۔۔ محمد جاوید عظیمی  )انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف پاکستانی جرنلسٹس IAPJ کی جانب سے اوورسیز پاکستانی صحافیوں کیلئے آن لائن تربیتی نشست کا اہتمام کیا جس میں پاکستان کے نامور سینئر صحافیوں و تجزیہ کاروں نے شرکت کی، تفصیل دیکھئے اس رپورٹ میں ۔۔۔۔۔

دنیا بھر میں مقیم اوورسیز پاکستانی صحافیوں کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے اور ان کی صلاحیتوں کو مزید نکھارنے کیلئے انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف پاکستانی جرنلسٹس IAPJ کی جانب سے آن لائن تربیتی نشست کا اہتمام کیا گیا۔ جس کے مہمانان گرامی پاکستان کے نامور سینئر صحافی و تجزیہ کار مجیب الرحمٰن شامی، سینئر صحافی و تجزیہ کار حفیظ اللہ نیازی اور سینئر صحافی و ماہر تعلیم حسین احمد پراچہ تھے۔  

نشست کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا جس کی سعادت جرمنی سے احسان اللہ نے حاصل کی۔ جبکہ نظامت کے فرائض امریکہ سے آئی اے پی جے کے سینئر نائب صدر خرم شہزاد اور سیکرٹری جنرل مہوش خان نے ادا کیے۔ آئی اے پی جے صدر شاھد چوھان نے کہا کہ تنظیم کا مقصد دنیا بھر میں پھیلے پاکستانی صحافیوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے انہوں نے کشمیر بلیک ڈے کے موقع کی مناسبت سے بھارت کی جانب سے کشمیر میں جاری ظلم و بربریت کی بھی شدید الفاظ میں مذمت کی۔

مجیب الرحمن شامی کا کہنا تھا کہ  کہ پاکستان میں گزشتہ دو عشروں کے دوران صحافت بہت بدل گئی ہے۔ انہوں نے بتایا، ”پرنٹ میڈیا کی نسبت الیکٹرانک میڈیا کے گرتے ہوئے معیار کی بڑی وجوہات میں صحافتی تربیت کا فقدان بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ اب صحافت میں ایڈیٹر کا کردار تقریباﹰ ختم ہو گیا ہے۔ کوئی کیمرہ مین ہو یا اینکر، ہر کوئی خود ہی اپنا ایڈیٹر بھی ہے۔ تیسری بڑی وجہ یہ ہے کہ پیشہ وارانہ صحافت کم اور کمرشلزم بہت زیادہ ہو گیا ہے۔

حفیظ اللہ نیازی کا کہنا تھا کہ کسی بھی معاشرے کی اصلاح صحافیوں کی ذمہ داری نہیں ہوتی۔ یہ صحافت تو نہیں ہو سکتی۔ کسی بھی ہوٹل، دفتر یا نجی پراپرٹی میں بلا اجازت گھس کر لوگوں کو ہراساں کرنا، ان کی ہتک کرنا، یہ کوئی جرنلزم نہیں بلکہ قابل سزا جرم ہے۔ عالمی سطح پر انسانی سماج اس وقت جس پریشان کن صورت حال کا شکار ہے، اس کے اثرات پاکستان میں بھی نظر آتے ہیں۔

ڈاکٹر حسین پراچہ کا کہنا تھا کہا انہوں نے بھی سعودی عرب میں صحافت کی ہے اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کے بڑے ممالک میں شمار ہونے والے پاکستان میں گزشتہ کافی عرصے سے الیکڑانک اور ڈیجیٹل میڈیا خبروں تک رسائی کے مؤثر ذرائع بن چکے ہیں۔ اس لیے وہاں نئی طرز کی سنسنی خیز صحافت پر معاشرتی تشویش بھی بڑھتی جا رہی ہے۔

تربیتی نشست میں دنیا کے 20 سے زائد ممالک میں مقیم پاکستانی صحافیوں نے شرکت کی جس میں آئی اے پی جے ۔۔۔۔۔۔۔ نشست میں سوال و جواب کا سلسلہ بھی ہوا۔ آخر میں ہالینڈ سے صحافی جاوید عظیمی نے مہمانوں اور شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔

Loading