آج اردو ادب کی معروف شاعرہ، ماہرِ تعلیم اور براڈ کاسٹر ثمینہ راجا کا یوم ولادت ہے۔
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ) آج اردو ادب کی معروف شاعرہ، ماہرِ تعلیم اور براڈ کاسٹر ثمینہ راجا کا یوم ولادت ہے، ثمینہ راجہ 11 ستمبر 1961ء کو رحیم یار خان کے ایک جاگیردار گھرانے میں پیدا ہوئیں، بارہ تیرہ برس کی عمر سے شعر گوئی کا آغاز ہوا اور جلد ہی ان کا کلام پاک و ہند کے معتبر ادبی جرائد میں شائع ہونے لگا لیکن اپنے گھرانے کی روایات اور سماجی پابندیوں کے سبب ان کو شعری و ادبی محفلوں میں شرکت کے مواقع حاصل نہ ہو سکے لہذا ان کی شاعری ایک طویل عرصے تک صرف “فنون”، “نقوش”، “اوراق”، “نیا دور” اور “سیپ” جیسے ادبی جرائد اور سنجیدہ حلقوں تک ہی محدود رہی۔
ایک عمر کی جدوجہد اور ریاضت کے بعد بالآخر وہ اپنے فن کو لوگوں کے سامنے لانے میں کامیاب ہوئیں، ان کے خاندان میں مستورات کی تعلیم کا کوئی تصور نہیں تھا چنانچہ انہوں نے نہایت نامساعد حالات میں پرائویٹ طور پر تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور اردو ادب میں ایم اے پاس کیا، 1992ء میں انہوں نے “مستقبل” کے نام سے ایک ادبی جریدے کا اجراء کیا جو ان کے گھریلو مسائل کی وجہ سے زیادہ عرصے تک جاری نہیں رہ سکا۔
1998 میں ان کو نیشنل بک فاؤنڈیشن کے رسالے ماہنامہ “کتاب” کی مدیرہ مقرر کیا گیا اور 1998ء ہی میں انہوں نے ادبی مجلہ “آثار” کی ادارت سنبھالی اور پوری اردو دنیا میں اپنی ایک پہچان و شناخت قائم کی، ثمینہ راجہ کا اردو شاعرات میں وہی مقام ہے جو ن م راشد کا اردو شاعروں میں، راشد کو شاعروں کا شاعر کہا جاتا ہے کیونکہ ان کی شاعری کے مضامین اور ان کا مخصوص مفرس اسلوب عوام کی ذہنی سطح سے کافی بلند ہونے کے سبب عوام میں وہ مقبولیت حاصل نہ کر سکا جو عام فہم اسلوب کے حامل شعرا کو آسانی سے حاصل ہو جاتی ہے۔
اسی طرح ثمینہ راجہ بھی کچے پکے نسوانی جذبات کی شاعری سے بہت بلند فضا میں پرواز کے سبب سنجیدہ قارئین تک ہی محدود رہیں، احمد ندیم قاسمی اور احمد فراز کے علاوہ بے شمار مشاہیر کی ان کے بارے میں آراء سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے منفرد موضوعات اور اسلوب کی وجہ سے اردو زبان کی نہ صرف موجودہ بلکہ آئندہ منظر نامے میں بھی نہایت اہم اور معتبر مقام رکھتی ہیں، آپ کا انتقال 30 اکتوبر 2012ء کو ہوا۔
|کتابیات|
ہویدا
شہرِ صبا
اور وصال
خواب نائے
باغئ شب
ہفت آسمان
پری خانہ
عدن کے راستے
دلِ لیلیٰ
عشق آباد
ہجر نامہ
اس کے علاوہ ثمینہ راجا کی شاعری دو ضخیم کلیات کی صورت میں بھی شائع ہو چکی ہے۔
|منتخب کلام|
تنہا، سر انجمن کھڑی تھی
میں اپنے وصال سے بڑی تھی
اک پھول تھی اور ہوا کی زد پر
پھر میری ہر ایک پنکھڑی تھی
اک عمر تلک سفر کیا تھا
منزل پہ پہنچ کے گر پڑی تھی
طالب کوئ میری نفی کا تھا
اور شرط یہ موت سے کڑی تھی
وہ ایک ہواےء تازہ میں تھا
میں خواب قدیم میں گڑی تھی
وہ خود کو خدا سمجھ رہا تھا
میں اپنے حضور میں کھڑی تھی
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ہم کسی چشم فسوں ساز میں رکھے ہوئے ہیں
خواب ہیں،خواب کے انداز میں رکھے ہوئے ہیں
تاب، انجام محبت کی بھلا کیا لاتے
نا تواں دل، وہیں آغاز میں رکھے ہوئے ہیں
جلتے جائیں گے ابھی اور چراغوں سے چراغ
جب تری انجمن ناز میں رکھے ہوئے ہیں
اے ہوا! اور خزاؤں کے علاوہ کیا ہے؟
وسوسے کیوں تری آواز میں رکھے ہوئے ہیں
اک ستارے کو تو میں صبح تلک لے آئی
بیشتر، رات کے آغاز میں رکھے ہوئے ہیں
کٹ کے وہ پر توہواؤں میں کہیں اڑ بھی گئے
دل یہیں حسرت پرواز میں رکھے ہوئے ہیں
زندگی آج طلب گار ہے کچھ لمحوں کی
جو کسی چشم پر اعجاز میں رکھے ہوئے ہیں
ہم تو ہیں آب زر عشق سے لکھے ہوئے حرف
بیش قیمت ہیں،بہت راز میں رکھے ہوئے ہیں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آئنہ رکھ دیا گیا عکس جمال کے لیے
پورا جہاں بنا دیا، ایک مثال کے لیے
خاک کی نیند توڑ کر آب کہیں بنا دیا
ارض و سما کے درمیاں خواب کہیں بنا دیا
خواب نمود میں کبھی آتش و باد مل گئے
شاخ پر آگ جل اٹھی، آگ میں پھول کھل گئے
ساز حیات تھا خموش، سوز و سرود تھا نہیں
اس کا ظہور ہو گیا جس کا وجود تھا نہیں
خاک میں جتنا نور ہے ایک نگاہ سے ملا
سنگ بدن کو ارتعاش دل کی کراہ سے ملا
دشت وجود میں بہار اس دل لالہ رنگ سے
رنگ حیات و کائنات اس کی بس اک امنگ سے
قرنوں کے فاصلوں میں یہ دل ہی مرے قریب تھا
قصہء ہست و بود میں کوئی مرا حبیب تھا
تیرہ و تار راہ میں ایک چراغ تھا مرا
کوچہ ء بے تپاک میں کوئی سراغ تھا مرا
٭٭٭٭٭٭٭٭
قصر کا در باغ کے اندر کھلا
پھر طلسم ِ شوق کا منظر کھلا
نیند میں کھویا ہوا تھا ایک شہر
روشنی میں خواب سے باہر کھلا
دھوپ تھی اور دن کا لمبا دشت تھا
رات کو باغ ِ مہ و اختر کھلا
زندگی فانوس و گلداں ہو گئی
اس طرح اک دن وہ شیشہ گر کھلا
اب تلک بے جسم تھا میرا وجود
یہ تو اس کے جسم کو چھو کر کھلا
اک جزیرے سے ہوا لائی پیام
بادباں لہرا گئے، لنگر کھلا
ڈوبنے سے ایک لمحہ پیشتر
ساحل ِسر سبز کا منظر کھلا
ایک قسمت، شمع، پروانے کی ہے
راز یہ اس شعلے کی زد پر کھلا
وہ محبت تھی ردائے مفلسی
پاؤں کو ڈھانپا تو میرا سر کھلا
پھر ستارہ وار اس کو دیکھنا
طائر ِ بستہ کا جونہی پر کھلا
آخر ِ شب تک مسافر کے لیے
ہم نے رکھا دل کا اک اک در کھلا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
چراغ ِ عشق تو جانے کہاں رکھا ہوا ہے
سر ِمحراب ِ جاں بس اک گماں رکھا ہوا ہے
ہوائے شام اڑتی جا رہی ہے راستوں پر
ستارہ ایک زیر ِآسماں رکھا ہوا ہے
یہی غم تھا کہ جس کی دھوم دنیا میں مچی تھی
یہی غم ہے کہ جس کو بے نشاں رکھا ہوا ہے
ہٹے، تو ایک لمحے میں بہم ہو جائیں دونوں
گلہ ایسا دِلوں کے درمیاں رکھا ہوا ہے
تری نظریں، تری آواز، تیری مسکراہٹ
سفر میں کیسا کیسا سائباں رکھا ہوا ہے
لرزتا ہے بدن اس تند خواہش کے اثر سے
کہ اک تنکا سر ِآبِ رواں رکھا ہوا ہے
مُصر ہے جس کو میرا باغباں ہی کاٹنے پر
اک ایسی شاخ پر یہ آشیاں رکھا ہوا ہے
کہیں کوئی ہے انبارِ جہاں سر پر اٹھائے
کہیں، پاؤں تلے سارا جہاں رکھا ہوا ہے
الاؤ جل رہا ہے مدتوں سے داستاں میں
اور اس کے گرد کوئی کارواں رکھا ہوا ہے
رکی جاتی ہے ہر گردش زمین و آسماں کی
مرے دل پر وہ دست ِمہرباں رکھا ہوا ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کوئی بھی فرق نہ منظر میں پڑا میرے بعد
شام کا چہرہ ہی اترا تھا ذرا میرے بعد
لوگ مصروف رہے شہر رہا پر رونق
صرف خاموشی رہی نوحہ سرا میرے بعد
خواب ِخوش رنگ! مری چشم کو مت چھوڑ ، تجھے
کون دیکھے گا مری طرح بھلا میرے بعد
اشک تھے آنکھ میں یا پھر کوئی حیرانی تھی
اس طرح شہر میں وہ پھرتا رہا میرے بعد
تجھ پہ کیا گزرے گی اے ہجر کی بجھتی ہوئی شام
جب بھی اس بام پر اک دیپ جلا میرے بعد
آئنہ توڑ کے دیکھوں، کوئی مجھ سا تو نہیں
کون پھر ہو کے گیا چہرہ نما میرے بعد
اس طرح پیچھے سے اک موجۂ خوشبو آیا
جیسے اس شاخ پر اک پھول کھلا میرے بعد
پھر کسی شاخ سے الجھی نہ ستوں سے لپٹی
دم بخود بیٹھی رہی باد ِصبا میرے بعد
گیلے رستے پہ یہ قدموں کے نشاں کیسے ہیں
مجھ سے پہلے کوئی آیا ۔۔۔ کہ گیا ۔۔۔ میرے بعد
کام آئے وہ پرندوں سے مراسم اک دن
میرا نغمہ تھا جو دنیا نے سنا میرے بعد
شاعروں نے کبھی افسانہ نگاروں نے لکھی
میری گمنام تمنا کی کتھا میرے بعد
میں نے اس عکس کو پہلے بھی کہیں دیکھا ہے
آئنہ سوچ کے حیران ہوا ۔۔۔۔ میرے بعد
کون پہنے گا یہ کانٹوں بھرا پیراہن ِدل
کون اوڑھے گا مرے غم کی ردا میرے بعد
اب اگر آ بھی گئی دھوپ تو کیا دیکھے گی
میرے کمرے میں کتابوں کے سوا میرے بعد
کیسا حیران ہے گلدان میں نرگس کا یہ پھول
میری تصویر کے نزدیک رکھا ۔۔۔ میرے بعد
وہ جو لیلٰی سے تھی منسوب کوئی وحشت ِدل
یہ زمانہ اسے ڈھونڈا ہی کِیا میرے بعد
کیسا بے رنگ ہے آنسو کہ نظر آتا نہیں
جو کسی انکھ سے ہرگز نہ بہا میرے بعد
زرد پتوں کی اداسی سے یہی لگتا ہے
باغ میں موسم ِگل بھی نہ رہا میرے بعد
اپنی تخلیق پہ حیراں ہو کہ نازاں ہو، یہی
سوچتا رہ گیا پھر میرا خدا میرے بعد
یہ تو طے ہے کہ مری روح نہیں مر سکتی
کیسا پہنے گی بھلا جسم نیا میرے بعد
٭٭٭٭٭٭٭٭
▪️پیشکش: نوائے اوچ میڈیا گروپ (رجسٹرڈ)
◾©️ Nawaeuch نوائے اوچ ®️
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
▪️علمی و ادبی اقدار اور تاریخی روایات سے ہم آہنگ بامقصد نگارشات اور مقامی و قومی حالات و واقعات پر مبنی مستند خبروں کی ترسیل کے لیے واٹس ایپ پر ‘نوائے اوچ’ کے آفیشل چینل کو فالو کیجیے:
https://whatsapp.com/channel/0029VaYK3tc35fLrpBMykf35
٭٭٭٭٭٭٭٭٭