آج ساغر صدیقی کا یومِ وفات ہے
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )19 جولائی 1974ء کو اردو کے نامور شاعر ساغر صدیقی لاہور میں وفات پاگئے۔ ساغر صدیقی کا اصل نام محمد اختر تھا۔ وہ 1928ء میں انبالہ میں پیدا ہوئے۔ اوائل عمر سے شعر و شاعری سے شغف تھا۔ ابتدا میں ناصر حجازی تخلص کرتے تھے۔ پھر ساغر صدیقی کا قلمی نام اختیار کیا اور اسی نام سے شہرت پائی۔
ساغر صدیقی اعلیٰ پائے کے شاعر تھے۔ بڑے زودگو تھے۔ کئی فلموں کے نغمات بھی لکھے مگر پھر درویشی کو اختیار کیا۔ وہ عموماً کسی قبرستان میں یا کسی مزار پر مجذوبوں کی صورت میں پڑے رہتے تھے۔ اسی ماحول میں انہوں نے گھٹیا نشے بھی کرنا شروع کردیے جس کے باعث ان کی صحت بہت جلد جواب دے گئی اور وہ فقط 46 برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوگئے۔
ساغر صدیقی کی شاعری کے کئی مجموعے بھی شائع ہوئے جن میں خشت میکدہ، لوح جنوں‘ شب آگہی‘ شیشہ دل‘ غم بہار‘ مقتل گلی اور زہر آرزو کے نام شامل ہیں۔ ان کا مدفن لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں ہے ان کی لوح مزار پر انہی کا یہ شعر تحریر ہے:
وہاں اب تک سنا ہے سونے والے چونک اٹھتے ہیں
صدا دیتے ہوئے جن راستوں سے ہم گزر آئے
۔۔۔۔۔۔۔۔
منقول
ان کی ایک مشہور غزل
ہے دعا یاد مگر حرف دعا یاد نہیں
میرے نغمات کو انداز نوا یاد نہیں
میں نے پلکوں سے در یار پہ دستک دی ہے
میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں
میں نے جن کے لیے راہوں میں بچھایا تھا لہو
ہم سے کہتے ہیں وہی عہد وفا یاد نہیں
کیسے بھر آئیں سر شام کسی کی آنکھیں
کیسے تھرائی چراغوں کی ضیا یاد نہیں
صرف دھندلائے ستاروں کی چمک دیکھی ہے
کب ہوا کون ہوا کس سے خفا یاد نہیں
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
آؤ اک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغرؔ کو خدا یاد نہیں
ساغر صدیقی