Daily Roshni News

آج کی اچھی بات۔۔۔تحریر۔۔۔حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب۔۔۔(قسط نمبر1)

آج کی اچھی بات

تحریر۔۔۔حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب

(قسط نمبر1)

بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور دسمبر2022

عالم بالا سے جب تصویر عالم زیریں میں مظاہرہ کرتی ہے تو یہ تولد یا پیدائش ہے۔ پیدائش کے بعد بچہ روتا ہے۔ اگر نہیں روتا تو اسے رلایا جاتا ہے۔ بچہ تین ماہ بعد اس قابل ہوتا ہے کہ چیزوں کا ادراک کر سکے۔ ماں باپ بچے کو زبان سکھاتے ہیں اور اپنی دانست میں لفظ کو آسان کر کے بولتے ہیں تو بچہ قہقہے کے ساتھ سنتا ہے ، ہنستا ہے، مسکراتا ہے، چیزوں کو دیکھتا ہے اور دیکھنے کے بعد پہچانتا ہے۔ جب بچہ شعور کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے

تو واقعات کو ذہنی استعداد کے مطابق سمجھتا ہے۔

بچے کا ذہن فلم ہے جس میں مادری زبان کا ذخیرہ ہوتا ہے۔ یہ زبان وہ بچپن سے سنتا ہے اور سن کر نقل کرتا ہے۔ جو کچھ وہ بولتا اور دیکھتا ہے ، اس کا تعلق لمحات سے ہے جن کا مظاہرہ اسپیس میں ہوتا ہے۔ ہر شے ٹائم اور اسپیس کے ساتھ یادداشت میں ریکارڈ ہوتی ہے جیسے پر فضا مقام پر یکسو ذہن سے بارش کی آواز سننے کا تجربہ ۔ مہینے اور سال گزرتے ہیں، آدمی روز و شب کے معمولات میں مصروف ہو جاتا ہے لیکن جب کبھی بارش ہوتی ہے، پانی کی آواز سن کر حافظہ اس منظر کو دہراتا ہے جب خاموش فضا میں بارش کی

بوندیں سماعت بنی تھیں۔

ہر بارش تالاب میں دائروں کی طرح یادداشت میں محفوظ لمحات اور ان لمحات کی تصویروں کو دماغ کی اسکرین پر لے آتی ہے۔ بارش ایک ہے مگر فاصلے کے لحاظ سے ماضی اور حال میں تقسیم ہے ۔ دونوں کے درمیان مہینوں اور برسوں کی مسافت ہے۔

جب باش کسی اور مقام پر خود کو دہراتی ہے تو دونوں لمحات ایک ہو جاتے ہیں۔

لمحات وقفہ ہیں اور وقفہ ادراک (information) ہے۔ اور اک سے مراد زمانیت یا مکانیت کا تذکرہ ہے۔ بچے کا وجود مکانیت ہے مگر اس کی پیدائش، نشوونما کے مراحل، دن کا رات میں داخل ہونا اور رات کا دن بننا حرکت کے تابع ہے جو زمانیت ہے۔ ادراک بڑے سے بڑے وقفے کو چھوٹی سے چھوٹی اسپیس میں بیان کرتا ہے اور چھوٹی سے چھوٹی

اسپیس کو بڑے سے بڑے وقفے پر محیط کر دیتا ہے۔

نوے سال کا آدمی جب آپ بیتی سناتا ہے تو نوے سال کی مسافت ایک لمحے میں طے کر کے بچپن میں داخل ہوتا ہے ، لڑکپن کو بیان کرتا ہے اور جوانی کی یادوں میں کھو جاتا ہے جب کہ ہونا یہ چاہئے کہ جس طرح نوے سال کے دن رات گزار کر وہ نوے سال کا ہوا، اسی طرح بچپن میں واپس جانے کے لئے بھی نوے سال کا عرصہ گزرے مگر ایسا نہیں ہوتا۔ نوے سال کی طویل اسپیس جس کو آدمی اپنی عمر کہتا ہے ، سوالیہ نشان ہے

محقق زمین سے سورج کا فاصلہ نو کروڑ تیس لاکھ میل بتاتے ہیں۔ اس لحاظ سے ہمیں سورج تک پہنچنے کے لئے کئی سو سال درکار ہیں مگر جب سورج مغرب کی جانب مائل بہ سفر ہوتا ہے اور ہم اسے دیکھتے ہیں تو نگاہ ایک لمحے میں نو کروڑ تیس لاکھ میل کی اسپیس سے گزر جاتی ہے۔

ہم دروازے سے دس قدم دور بیٹھے ہیں۔ باہر جانے کا ارادہ کرتے ہیں تو قدموں سے پہلے

نگاہ دروازے تک پہنچ جاتی ہے۔

ہم اسپیس کو جس طرح سمجھتے ہیں، وہ الو ژن ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ جسم اسپیس کی تقسیم کو قبول کرتا ہے جب کہ نگاہ اسپیس کی نفی کر دیتی ہے۔ مثلاً لاکھوں میل دور چاند ستارے ہوں، ایک یا دو فٹ کے فاصلے پر پانی کا گلاس ہو ، میز پر کتاب ہو، قریب قلم رکھا ہو۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور دسمبر2022

Loading