Daily Roshni News

آج کی بات ۔۔۔تحریر ۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب۔۔۔بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور اگست 2013

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔آج کی بات ۔۔۔ تحریر ۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب )روئے زمین پر بسنے والی نوع انسانی کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ظاہر ہوتا ہے کہ آدم زاد دوسری نوع کی طرح نوع تھی۔ جیسے جیسے زمانہ گزرا عقل و شعور میں اضافہ ہوتا رہا اور جیسے جیسے سے عقل و شعور میں اضافہ ہوا۔ یہ نوع قبیلوں میں تقسیم ہوتی رہی ۔ پھر یہ قبیلے قوم بن گئے ۔ قوم اور قبیلے میں رسوم و رواج کی داغ بیل پڑی ۔ یہی رسوم و رواج قوم کی پہچان بن گئے رسم و رواج ہر قوم میں الگ الگ ہیں لیکن ان کی موجودگی انسانی معاشرت کے ساتھ لازم و ملزوم ہے۔

جب رسم ورواج نے الہی علم کے خلاف بغاوت کی تو اللہ تعالیٰ نے ان رسوم کو ختم کرنے کے لئے پیغمبروں کا ایک سلسلہ قائم کیا اور ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں نے ہر قوم کو بتایا کہ رسم و رواج ایسے ہونے چاہئیں جن میں جن میں آدم زاد بے عزت نہ ہو اور اس کی شان تخلیق متاثر نہ ہو۔ تاریخ بتاتی ہے کہ کوئی زمانہ ایسا نہیں گزرا جب زمین میں قوم اور قبیلے جشن نہ مناتے ہوں اور یہی جشن ان کے قومی تشخص کا آئینہ ہوتا ہے ۔ اس آئینے میں قومی شعار کا چہرہ صاف اور واضح نظر آتا ہے۔ جشن اور تقاریب کے پس منظر میں قوموں کو ان کے اسلاف سے جو روایات یا اخلاق منتقل ہوا ہے اس کی نمایاں طور پر منظر کشی ہوتی ہے ۔ بلا شبہ تہوار ایک ایسی کسوٹی ہے جس پر کسی قوم کی تہذیب کو پرکھا جاسکتا ہے۔ تقاریب پر اگر غور کیا جائے تو تمام تقاریب میں ایک قدر مشترک ہے۔ بہت سارے ایک ذہن افراد ایک جگہ جمع میں محبت اور اخوت کی عملی تصویر پیش کرتے ہیں۔ ہو جاتے ہیں اور آپس اجائے تو سراغ ملتا ہے آدم زد کا عملی ورثہ میں خوں سے 1 فطرت پر اگر تفکر کیا جائے تو ۔ آدم زاد کی فطرت پرا مرکب ہے۔

ایک رخ آدم کی انفرادی حیثیت کو اجاگر کرتا ہے، دوسرا رخ خود آدم کی نوع ہے، اس رخ میں نوع آدم کا ئنات میں پھیلی ہوئی دوسری نوعوں سے ہم رشتہ ہے، تیسرا رخ آدم کا آدمیت کو عبور کر کے نوع انسان بن جانا ہے اور یہ اجتماعی ذہن کا وہ آئینہ ہے۔ جس میں ساری کائنات اور کائنات میں تمام نو میں ایک خاندان کے افراد نظر آتے ہیں۔ انبیاء کے سردار رسول الله الا اللہ نے اپنی امت کو درس دیا کہ انفرادیت سے آزاد ہو کر ہر شخص اجتماعی ذہن کو بیدار کرے . یہی وہ طرز فکر ہے جس طرز فکر پر قائم رہ کر نوع انسانی کائنات کے اوپر حکمران بن سکتی ہے۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی امت کے لئے جتنے بھی پروگرام مرتب فرمائے ہیں ان سب میں اجتماعیت ہر پروگرام کی اصل ہے۔ پہلی اجتماعیت محلہ وار مسجدوں میں نماز با جماعت قائم کرنا ۔ دوسری اجتماعیت جمعہ کی نماز ۔ تیسری اجتماعیت روزہ اور اس کا افطار ہے چوتھی اجتماعیت نماز عیدین اور پانچویں اجتماعیت حج ہے۔ ہر قوم اپنے ماضی پر زندہ ہے اگر کسی قوم کا ماضی نہیں ہے تو اس کی حیثیت قوم کی نہیں ہے۔ دوسری قوموں کی طرح امت مسلمہ کا بھی ماضی ہے اور اس ماضی کو یا درکھنے اور اجتماعی تاثرات کو اپنی نسل کو پہنچانے کے لئے مسلمان دو تہوار مناتے ہیں۔ پہلا تہوار عید الفطر ہے جس کی نورانیت اور پاکیزگی اس علامت پر قائم ہے کہ مسلمان اس وقت تہوار مناتا ہے جب وہ پاکیزہ اور متقی ہو۔رمضان المبارک کے تمھیں یا انتیس دن اس عمل کی پریکٹس ہے کہ من حیث القوم مسلمان انفرادی ذہن کی نفی کر کے مثبت اجتماعی ذہن کو اہمیت دیتا ہے اگر کسی جگہ ایک کروڑ روزے داروں کو جمع کر دیا جائے اور مغرب کی اذان ہو جائے تو یہ ایک کروڑ آدمی ایک ساتھ اذان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے روزہ افطار کرتے ہیں۔ اگر مسلمان اجتماعی ذہن کی حیثیت سے اور طاقت سے صحیح طور پر واقف ہو جائے تو ساری دنیا اور دنیا سے ماوراء کا ئنات پر اس کی حکمرانی قائم ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اکٹھے ہو کر اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ پکڑ لو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالومسلمان عملی طور پر اس آیت کی تفسیر پیش کرتا ہے لیکن یہی عمل روح کی گہرائیوں اور اپنے آقا رسول اللہ ﷺ کی طرز فکر کے ساتھ کیا جائے تو یقیناً مسلمان قوم اپنا کھویا ہوا وقار اور اقتدار حاصل کرلے گی ۔

ماہنامہ قلندر شعور اپنے قارئین کو عید مبارک پیش کرتا ہے اور اس بات کا عزم کرتا ہے کہ یہ ادارہ تعصب ، نفرت اور تفرقہ کے خلاف انشاء اللہ پوری صلاحیتوں کے ساتھ جدو جہد کرتا رہے گا۔

اللہ حافظ

بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور اگست 2013

Loading