Daily Roshni News

آج کی کتاب گزشتہ چھ ماہ میں پڑھی تمام کتابوں سے زیادہ پسند آئی!

آج کی کتاب گزشتہ چھ ماہ میں پڑھی تمام کتابوں سے زیادہ پسند آئی!

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )یہ کتاب فکشن کی اب تک پڑھی دس سب سے بہترین کتابوں میں بھی شامل ہو چکی ہے۔

کتاب کا نام ہے “قدیم آوازوں کی کٹنگ پیسٹنگ” جس کو اردو نظم کے بے تاج بادشاہ مشہور شاعر اور مدیر نصیر احمد ناصر نے مرتب کیا ہے۔

اس کتاب میں ادبی میگزین “تسطیر” میں تیس برسوں میں شائع ہوتی رہی انگنت کہانیوں/افسانوں میں سے شاہکاروں کا انتخاب کر کے انہیں کتابی شکل دی گئی ہے۔ پونے چار سو صفحات کی کتاب میں بیس نامور مصنفین کی چالیس سے زائد تخلیقات کو پیش کیا گیا ہے۔

یوں تو سبھی افسانے بے حد اچھے لگے لیکن یہاں ان کہانیوں کا مختصراً ذکر کرنا چاہوں گی جو بے انتہا اچھی لگیں۔

کتاب میں مشرف عالم ذوقی صاحب کے چار افسانے شامل ہیں اور چاروں ہی حیران کن حد تک سحر زدہ کر دیتے ہیں۔ ‘مُردہ روحیں’ نامی افسانے میں ایک عورت کی جو کہانی پیش ہوئی ہے اس پر اس پہلو سے ایک فیمنسٹ خاتون رائٹر بھی شاید اتنا اچھا نقشہ کھینچنے میں کامیاب نہ ہوتی جس خوبصورتی سے ذوقی صاحب نے اسے کاغذ پر اتارا ہے۔ افسانہ ‘کاجو’ ہمارے اس رویے کا عکاس ہے کہ ہم ناسٹلجیا کا شکار رہتے ہیں، ماضی بہت اچھا تھا اور اب مہنگائی کے سبب پہلے جیسی خوراک نہیں رہی۔ یہ ایک غریب سکول ماسٹر کی کہانی ہے جو پوری لگن اور ایمانداری سے کام کرنے کے باوجود اس قابل بھی نہیں کہ اپنے بچوں کو اچھی غذا اور مہنگے ڈرائی فروٹس خرید کر کھلا سکے۔ ‘میڈونا کی الٹی تصویر’ میں جہاں طبقاتی اونچ نیچ کو موضوع بنا کر یہ خیال پیش کیا گیا ہے کہ دنیا میں کوئی چیز بیکار نہیں وہیں آج کے دانشور اور ادیب کی منافقت پر بھی کڑی تنقید کی گئی ہے۔ ‘قدیم آوازوں کی کٹنگ پیسٹنگ’ پڑھتے ہوئے یہ آپ کو کسی مشہور مغربی افسانہ نگار کی تخلیق سے کم مزہ نہیں دیتا۔ یہ کتاب کا سب سے طویل اور خوفناک افسانہ ہے جسے پڑھتے ہوئے جنوں بھوتوں پر یقین نہ رکھنے والی یہ لڑکی بھی ڈر گئی تھی🤭

زاہدہ حنا کے دونوں افسانے بے حد اچھے ہیں لیکن “تقدیر کی زندانی” بار بار بلکہ سو بار پڑھے جانے کے قابل ہے، کیا ہی کاٹ دار اسلوب ہے۔

نصیر احمد ناصر کی تینوں کہانیوں میں سے “میری مٹی کہاں جائے گی؟” سب سے زیادہ پسند آئی۔ اس افسانے میں انہوں نے باہر سے آئی تہذیبوں سے یہاں کی مقامی فضا کے آلودہ اور زخمی ہو جانے پر بہت جاندار انداز میں روشنی ڈالی ہے۔

انوار فطرت کے دو افسانوں میں سے ایک تجریدی اور دوسرا نفسیاتی افسانے کا عمدہ نمونہ ہیں۔

طاہرہ اقبال کا پہلا افسانہ وڈیرہ شاہی اور مکافات عمل کا فلسفہ پیش کرتا ہے اور دوسرا افسانہ عورت کی خودمختاری کی راہ پر چلنے سے حاصل ہونے والی مسرت کا نمائندہ ہے یہ افسانہ دکھاتا ہے کہ ہمارے سماج میں عورت کو اتنی گھٹن میں رکھا جاتا ہے کہ وہ اپنے عزیزوں کی موت پر انہیں رونے کی بجائے اپنے آزاد ہونے کی سرشاری میں ڈوب جاتی ہے۔

احمد ہمیش کے ہاں قرۃ العین حیدر کی سی منتشر خیالی، جملوں کی کاٹ اور شعور کی رو نظر آتی ہے۔

خالدہ حسین کا افسانہ ‘سیٹی’، سلیم اختر کا ‘جنم روپ’ منشاء یاد کی ‘بھولی ہوئی کہانی، گلزار کا ‘مگرمچھ’ رشید امجد، پروین عاطف مبین مرزا اور محمد حمید شاہد کے سبھی افسانے متاثر کن محسوس ہوئے۔

دیگر مصنفین میں بانو قدسیہ، عبداللہ حسین، جوگندر پال، انور زاہدی اور محمد عاصم بٹ جیسے بڑے نام شامل ہیں۔

کتاب کا کاغذ اور جلد بندی بھی بہت معیاری ہے اور سرورق بھی بے انتہا خوبصورت۔

لیکن کتاب کی سب سے حیران کن بات اس کی قیمت ہے۔ جی ہاں! جہاں مہنگائی کے اس طوفان میں سو ڈیڑھ صفحات کی معیاری کتاب ہزار روپے سے کم خال خال ہی دیکھنے کو ملتی ہے وہیں اس شاہکار اور خاصی ضخیم کتاب پر فقط 780 روپے قیمت درج ہے جو کہ میرے نزدیک بہت بہت بہت کم ہے۔

یہ کتاب صریر پبلیکیشنز  نے شائع کی ہے۔ بدنصیب ہے وہ انسان جسے اردو پڑھنا آتی ہے مگر اس نے یہ کہانیاں نہیں پڑھیں۔🌻

اقصٰی گیلانی

Loading