بانگ درا حصہ اول
آفتاب صبح
شاعر۔۔۔علامہ اقبال
شورش ميخانہ انساں سے بالاتر ہے تو
زينت بزم فلک ہو جس سے وہ ساغر ہے تو
ہو در گوش عروس صبح وہ گوہر ہے تو
جس پہ سيمائے افق نازاں ہو وہ زيور ہے تو
صفحہ ايام سے داغ مداد شب مٹا
آسماں سے نقش باطل کی طرح کوکب مٹا
حسن تيرا جب ہوا بام فلک سے جلوہ گر
آنکھ سے اڑتا ہے يک دم خواب کی مے کا اثر
نور سے معمور ہو جاتا ہے دامان نظر
کھولتی ہے چشم ظاہر کو ضيا تيری مگر
ڈھونڈتی ہيں جس کو آنکھيں وہ تماشا چاہيے
چشم باطن جس سے کھل جائے وہ جلوا چاہيے
شوق آزادی کے دنيا ميں نہ نکلے حوصلے
زندگی بھر قيد زنجير تعلق ميں رہے
زير و بالا ايک ہيں تيری نگاہوں کے ليے
آرزو ہے کچھ اسی چشم تماشا کی مجھے
آنکھ ميری اور کے غم ميں سرشک آباد ہو
امتياز ملت و آئيں سے دل آزاد ہو
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تفہیم و تشریح
شورشِ مے خانہِ انساں سے بالاتر ہے تو
زینتِ بزمِ فلک ہو جس سے ، وہ ساغر ہے تو
ہو دُرِ گوشِ عروسِ صبح وہ گوہر ہے تو
جس پہ سیمائے افق نازاں ہو وہ زیور ہے تو
صفحہَ ایام سے داغِ مدادِ شب مٹا
آسماں سے نقشِ باطل کی طرح کوکب مٹا
علامہ اقبال طلوع ہوتے ہوئے آٖفتاب سے یوں مخاطب کرتے ہیں کہ بے شک تو انسانی دنیا کے ہنگاموں سے بہت زیادہ بلند و بالا ہے اس اعتبار سے بلند ہے کہ تیرا وجود انسانی دنیا سے بہت زیادہ دور ہے اور تیرا تعلق آسمان سے ہے
تیرے ہی دم سے وہاں کا حسن اور رونق برقرار ہے ۔ اگر صبح کو دلہن کی مانند تصور کر لیا جائے تو اے آفتاب تجھے اس کے کان کو زینت بخشنے والا موتی تصور کیا جائے گا ۔ تو ایسے حسین زیور کی طرح ہے جو افق کی پیشانی کے لیے بھی باعث ناز و فخر ہے ۔
اے آفتاب! تیرے طلوع ہو نے کے ساتھ ہی دنیا سے رات کی تاریکی کا خاتمہ ہو جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ آسمان پر ستارے بھی حرف غلط کی مانند غائب ہو جاتے ہیں ۔
حُسن تیرا جب ہوا بامِ فلک سے جلوہ گر
آنکھ سے اُڑتا ہے یک دم خواب کی مے کا اثر
نُور سے معمور ہو جاتا ہے دامانِ نظر
کھولتی ہے چشمِ ظاہر کو ضیا تیری مگر
ڈھونڈتی ہیں جس کو آنکھیں وہ تماشا چاہیے
چشمِ باطن جس سے کھل جائے، وہ جلوا چاہیے
تو جس لمحے طلوع ہوتا ہے اور تیری حسین اور خوبصورت شعاعیں زمین پر عکس ریز ہوتی ہیں تو دنیا بھر کے لوگوں کی نگاہوں سے نیند کا غلبہ ختم ہو جاتا ہے ۔
اور ان کی نظریں تیری روشنی سے لبریز ہو جاتی ہیں ۔ اگرچہ تیری روشنی بظاہر آنکھوں کو نور عطا کرتی ہے ۔
تاہم امر واقع یہ ہے کہ میں وہ منظر دیکھنے کا خواہاں ہوں جس کی بدولت کائنات کے پوشیدہ اسرار مجھ پر وا ہو جائیں اور میں حقیقت کا ادراک کر سکوں ۔
شوقِ آزادی کے دنیا میں نہ نکلے حوصلے
زندگی بھر قید زنجیرِ تعلق میں رہے
زیر و بالا ایک ہیں تیری نگاہوں کے لیے
آرزو ہے کچھ اسی چشمِ تماشا کی مجھے
آنکھ میری اور کے غم میں سرشک آباد ہو
امتیازِ ملت و آئیں سے دل آزاد ہو
اے آفتاب! ہر چند کہ میں ہمیشہ سے آزادی کا خواہاں تھا لیکن میری یہ طلب پوری نہ ہو سکی اس کے برعکس ساری زندگی دنیوی تعلقات کے جھمیلوں میں پھنسا رہا ۔
جب کہ تیری روشنی یہاں ہر ادنیٰ و اعلیٰ شخص کے لیے اور ہر کوئی بلا امتیاز اس سے استفادہ کر سکتا ہے ۔ مجھے بھی ایسی آنکھ درکار ہے جو تیری مانند ہر پست و بلند اور اپنے بیگانے کو کسی امتیاز کے بغیر دیکھنے کی حامل ہو ۔
میں توایسی آنکھ چاہتا ہوں جو ہر کہہ و مہ کے دکھ درد میں آنسو بہانے کی قائل ہو ۔ یہی نہیں بلکہ مختلف اقوام اور وہاں کے قوانین سے منفی انداز کی تکلیف دہ روش سے آزاد ہو۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بانگ درا حصہ اول
نمبر شمار 20
بقیہ
آفتاب صبح
بستہ رنگ خصوصيت نہ ہو ميری زباں
نوع انساں قوم ہو ميری ، وطن ميرا جہاں
ديدہ باطن پہ راز نظم قدرت ہو عياں
ہو شناسائے فلک شمع تخيل کا دھواں
عقدہ اضداد کی کاوش نہ تڑپائے مجھے
حسن عشق انگيز ہر شے ميں نظر آئے مجھے
صدمہ آ جائے ہوا سے گل کی پتی کو اگر
اشک بن کر ميری آنکھوں سے ٹپک جائے اثر
دل ميں ہو سوز محبت کا وہ چھوٹا سا شرر
نور سے جس کے ملے راز حقيقت کی خبر
شاہد قدرت کا آئينہ ہو ، دل ميرا نہ ہو
سر ميں جز ہمدردی انساں کوئ سودا نہ ہو
تو اگر زحمت کش ہنگامہ عالم نہيں
يہ فضيلت کا نشاں اے نير اعظم نہيں
اپنے حسن عالم آرا سے جو تو محرم نہيں
ہمسر يک ذرہ خاک در آدم نہيں
نور مسجود ملک گرم تماشا ہی رہا
اور تو منت پذير صبح فردا ہی رہا
آرزو نور حقيقت کی ہمارے دل ميں ہے
ليلی ذوق طلب کا گھر اسی محمل ميں ہے
کس قدر لذت کشود عقدہ مشکل ميں ہے
لطف صد حاصل ہماری سعی بے حاصل ميں ہے
درد استفہام سے واقف ترا پہلو نہيں
جستجوئے راز قدرت کا شناسا تو نہيں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تفہیم و تشریح
بند4
حضرت علامہ اس بند میں فرماتے ہیں کہ میرا لب و لہجہ اور زبان ایسی ہو کہ کسی مخصوص جماعت یا گروہ کے اثرات سے ہم آہنگ نہ ہو ۔ میری خواہش تو یہ ہے کہ پوری انسانیت میری قوم ہو اور پوری دنیا میری وطن کی مانند ہو ۔ مجھ پر قدرت کی نعمتوں کے راز سربستہ افشاء ہو جائیں ۔ یہی نہیں بلکہ میرا تخیل آسمان کی بلندیوں تک بھی رسائی رکھنے کا اہل ہو ۔ اے آفتاب صبح! میری یہ دلی آرزو ہے کہ مجھے اس عالم فانی کے تفرقے اور جھمیلے پریشان نہ کریں ۔ اس کے برعکس مجھے ہر شے میں ایسا حسن اور خوبصورتی نظر آئے جو میرے عشق ِ جنوں خیز میں لمحہ لمحہ اضافہ کر دے یعنی ہر شے سے بے نیاز ہو کر محبت اور وفا کو ہی اپنا مسلک سمجھوں ۔
بند5
اے آفتاب صبح! میں تو اس قدر گداز طبع ہوں کہ اگر کسی پھول کی پتی کو بھی کوئی تکلیف پہنچے تو میری آنکھوں سے آنسو رواں ہو
جائیں یہی نہیں بلکہ میرے دل میں محبت کی ایسی آگ روشن ہو گئی ہے جس کی روشنی سے مجھ پر راز حقیقت کا انکشاف ہو جائے جہاں تک میرے دل کا تعلق ہو وہ فطرت کے آئینے کی مانند ہو کہ اس میں سب کچھ نظر آ جائے ۔
بند6
اے آفتاب! اگر تو دنیا کے ہنگاموں اور مصائب کو برداشت کرنے کا اہل نہیں ہے تو یہ امر قطعی فخر و مباہات کا سبب نہیں جب تو اپنے حسن کی حقیقت سے آگاہ ہی نہیں جو پوری کائنات کو منور کرنے کا باعث ہوتا ہے تو اس صورت میں انسان کی ہمسری اور برابری کا ہل نہیں انسانی نگاہ تو اے سورج تجھ کو دیکھتی رہی لیکن تو تھا کہ آنے والی کل کا منتظر ہی رہا ۔
بند7
ہم تو حقائق کے نور کی خواہش دل میں لیے ہوئے ہیں جو کائنات کے رازوں کو بے نقاب کر دے کہ یہی ہمار بنیادی مسئلہ ہے ۔تو اس حقیقت سے قطعی طور پر بہرہ ور نہیں ہے کہ مشکل مسائل کو حل کرنے میں کس قدر لطف موجود ہے اور اسی کوشش میں وہ کیفیت موجود ہے جو کچھ پانے کی جستجو سے تعلق رکھتی ہے ۔
اے آفتاب! آگاہی کے اس جذبے سے تو قطعی محروم ہے اس لیے کہ فطرت کے اسرار کوپانے کی طلب تجھ میں موجود ہی نہیں ہے ۔