آنے والی نسلوں کو ہم کیسی دنیا دیں گے؟
تحریر۔۔۔ابن وصی
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ آنے والی نسلوں کو ہم کیسی دنیا دیں گے؟۔۔۔ تحریر۔۔۔ابن وصی )انسان کی ماحول دشمن سرگرمیوں اور قدرتی وسائل بے دریغ استحصال سے ہونے والے فطرتی بگاڑ اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے سنگین نتائج کا خمیازہ آئندہ نسلوں کو کتنا بھگتنا پڑے گا ؟…
اگر آج ہم اپنے گردو پیش کا موازنہ ماضی سے کریں تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ ترقی اور سائنسی ایجادات نے انسانی طرز زندگی کو بہت بلند اور ماضی کے مقابلے میں بہت آسان بنادیا ہے۔ دنیا بھر میں سائنس و ٹیکنالوجی کا فروغ انتہائی تیز رفتار ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف ایک سال میں ہی تقریباً 20 لاکھ نئی ایجادات اور اخترات سامنے آرہی ہیں۔ لیکن چند منٹ ٹھہر کر یہ غور کیا جائے کہ انسان کی اس ترقی سے ہونے والی کیمیائی، طبعی، حیاتیاتی اور نباتاتی تبدیلیوں نے اس کے اپنے ہی ماحول پر کیسے اثرات مرتب کیے ہیں …..؟ نئی نئی ایجادات اوراختراعات نے ہماری زندگی میں کئی آسانیاں پیدا کر دی ہیں۔ وہیں دوسری جانب قدرتی وسائل کے بے دریغ استعمال اور انسان کی ماحول سے لا پرواہی نے آنے والی نسلوں کی زندگیوں اور زمین کے مستقبل کے لیے اتنی ہی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔
ہمارے اس مضمون کا مقصد سائنسی ترقی سے اختلاف نہیں !!! “ترقی” تو خود انسان کی نشود نماء بالیدگی، ارتقاء پروگر لیں اور امپروومنٹ کے لیے نہایت ضروری ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ انسان کی نظر میں ترقی کا مفہوم کیا ہے ؟۔اگر انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ جنگلات کو کاٹ کرشہروں کو بے جا پھیلا کر وسائل میں اضافہ کر رہا ہے، اور صنعتوں کا بے در لیغ جال بچھا کر دے کر انسان کے معیار زندگی کو بہتر بنا رہا ہے یا پھر غذائی اجناس اور فصلوں پر بے مہار کیمیائی ادویات کا استعمال کر کے آنے والی نسلوں کے لیے خوراک کا حصول یقینی بنارہا ہے تو پھر اس لفظ “ترقی” کی تعریف نئے سرے سے کرنا ہو گی۔ اس بات کو سوچنا ہو گا کہ ہم ترقی کے نام پر اپنے وسائل کو بڑھانے کے چکر میں کیا کھورہے ہیں۔
گلوبل وارمنگ، کلائیمیٹ چینج، بائیو ڈائیورسٹی، گرین ہاؤس ایفیکٹ، پولوشن، موجودہ دور میں یہ لفظ بہت زیادہ سننے کو مل رہے ہیں۔ روحانی ڈائجسٹ کے صفحات میں ان موضوعات پر کئی مضامین شایع ہو چکے ہیں، موحولیات کے عالمی دن کے موقع پر دنیا بھر میں ماحولیاتی تحفظ کا شعور اجاگر کرنے کے لیے ہر سال تقاریب منعقد کی جاتی ہیں اور ریلیاں نکالی جاتی ہیں۔ لیکن پھر بھی زمین پر ہونے والی ان ماحولیاتی تبدیلیوں کو روکا نہیں جا پارہا۔
غیر فطری اور ماحول مخالف سرگرمیوں اور قدرتی وسائل کے بے دریلی استحصال سے ہونے والے فطرتی بگاڑ اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں یه کرد ارض بری طرح متاثر ہو رہا ہے، ان تبدیلیوں کے سنگین نتائج اور تباہ کن اثرات کا خمیازہ آئندہ نسلوں کو بھگتنا پڑے گا… اس سے پہلے شائد ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ ایک نسل نے اپنی آئندہ آنے والی نسل کے لئے اتنا قرض چھوڑا ہو۔
اگر کوئی آپ سے کہے کہ آپ اس سیارے زمین سے محبت کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کل آپ کے بچے اس پر محفوظ اور قدرتی وسائل سے مالامال زندگی گذاریں، تو آپ گاڑی کم سے کم استعمال کریں پیدل چلنے کو ترجیح دیں، اپنے گھر کے کپڑے کوڑے اور مچھر مارنے کیلئے یا گھر کو مہکانے کے لیے مختلف اسپرے یا کیمیکلز کا بے دریغ استعمال نہ کریں۔ بازار جانا ہو تو اپنے ساتھ کوئی کپڑے کا تھیلہ یا باسکٹ لیکر جائیں، چیزیں خریدتے وقت بے تحاشہ پلاسٹک کے شاپنگ بیگز استعمال نہ کریں، گھر کو کشادہ کرنے لے لیے اپنے سگن اور با نیچے کے درختوں کو نہ کائیں۔ اپنے گارڈن میں کیڑے مار اسپرے نہ کریں، بھلی اور برقی مقناطیسی آلات کا حدے زیادہ استعمال نہ کریں، تو شاید اکثر لوگ سوچیں گے کہ آخر یہ کیا مصیبت ہے۔
گاڑیوں اور فیکٹریوں کے دھویں سے گرین ہاؤس رینٹیکٹ ہو رہا ہے، کاربن ڈائی اکسائیڈ، میتھین اور کلوروفلورو کاربن آب و ہوا میں شامل ہونے سے گلوبل وارمنگ یعنی عالمی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ درختوں کی کٹائی، برقی مقناطیسی آلات اور کیمیکل ادویات کا بے دریغ استعمال بائیو ڈائیورسٹی یعنی حیاتی نوع کو ختم کر رہا ہے کئی حیوانات ، پرندوں ! حشرات، شہد کی مکھیوں اور تخلیوں کی نسلیں نابود ہورہی ہیں۔ یہ سن کر شاید کچھ کہیں گے کہ سائنس ترقی کے اس دور میں اتنی ایجادات ہو گئی ہیں کہ اگر گرمی بڑھ بھی جائے تو انسان کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر جنگل میں شیر ، ابابیلیں، تتلیاں اور شہد کی مکھیاں کم ہو رہی ہیں تو اس سے انسان کا کیا نقصان۔ ترقی یافتہ شہروں میں بھی تو انسان بنا درختوں کے رہ ہی ر ہے ہیں۔
اور اصل اس زمین کی زندگی باہمی توازن کے نظام پر قائم ہے ایکو سسٹم Ecosystem کہا جاتا ہے۔ زمین کے ماحول کے بنیادی اجزاء، جن میں عناصر، گیسز ، پانی ، نباتات اور دیگر حیاتیات شامل ہیں، ایک دوسرے سے ماحولیاتی اور کیمیائی توازن کی ہ نجیروں سے جڑے ہوئے ہیں۔ ایک نوع کی زندگی دوسری نوع پر منحصر ہے۔
کئی چھوٹے جانور نباتات پر پلتے ہیں، بڑے جانور چھوٹے جانوروں کو کھاتے ہیں، ان کے مرنے کے بعد کچھ مخلوقات ان کے جسموں کو اپنی خوراک بنا کر ایسے مادے خارج کرتی ہیں جن سے نباتات خوراک حاصل کرتے ہیں۔ اس طرح یہ ایکو سسٹم کڑی در کڑی چلتا رہتا ہے۔ انسانی زندگی بھی ان کڑیوں سے جڑی ہوئی ہے۔ اس زنجیر کی ایک کڑی بھی متاثر ہو جائے تو ہر چیز توازن سے ہٹ جاتی ہے۔
طبیعیات کے نظریۂ انتشار ( Theory Chaos) میں اسے تعلی اثر Butterfly Effect کہا جاتا ہے۔ اس کے مطابق کسی ایک جگہ پر منتقلی کے اڑنے کے نتیجے میں ممکن ہے کہ ہوا میں ایسا انتشار پھیلیے جو بحر اوقیانوس تک میں طوفان نے آئے یعنی ابتدائی کیفیت میں چھوٹی چھوٹی سی تبدیلیاں بعد میں آنے والی بہت بڑی تبدیلیوں کو جنم دی سکتی ہیں۔ ہر نوع کے کسی عمل سے دوسری نوع متاثر ہوتی ہے۔ ہماری زمین کے ایکو سسٹم کو قائم رکھنے میں ہر جاندار، عبادات، حشرات، زمینی و فضائی عناصر عمل پیرا ہے اور اس ایکو سسٹم کی تمام کڑیوں سے ابھی تک انسان پوری طرح واقف بھی نہیں ہوا ہے اور نہ ہی انہیں از سر نو ایک جگہ پر اکٹھا کرنا اس کے بس کی بات ہے۔
صرف ایک درخت……کیا آپ جانتے ہیں کہ صرف ایک درخت زمین کے ایکو سسٹم میں کیا اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ایک درخت، ایک سال میں گاڑی کے 26 ہزار کلو میٹر فاصلہ طے کرنے سے خارج ہونے والی 48 پونڈ کار بن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتا ہے۔ فیکٹریوں سے نکلنے والی 60 پونڈ آلودگی کو فلٹر کرتا ہے۔ طوفانی برسات میں جمع ہونے والے 750 گیلن پانی کو جذب کرتا ہے۔ ماحول میں 10 ائیر کنڈیشنر کے مساوی ٹھنڈک پہنچاتا ہے۔ سال بھر میں ایک درخت 6 ہزار پونڈ آئین پیدا کرتا ہے۔ جس سے پورے سال 18 انسان سانس لیتے ہیں۔ ایک درخت حیاتی تنوع میں بھی اضافے کا باعث بنتا ہے۔
اسٹینفورڈ یونیورسٹی کیلیفورنیا کے ماہرین نے یہ ثابت کرنے کے لیے صرف ایک در محت لگانے سے اطراف کے ماحول میں کیا تبدیلیاں آتی ہیں ، کئی خالی جنگیوں پر پودے لگا کر ان کا جائزہ لیا۔ دیکھا گیا کہ جیسے جیسے درخت بڑھتے گئے ویسے ویسے اس کے پاس اہم جانوروں اور پرندوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی، اس علاقے میں حیاتیاتی تنوع با ہو ڈائیورسٹی) بڑھ گئی اور ارد گر کے ماحول میں بھی بہتری آنے لگی۔ انسان اگر ایک درخت بھی کاٹتا ہے تو اس کا ازالہ کرنے میں طویل عرصہ درکار ہو گا۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے دس برسوں میں انسان جتنے در محبت کاٹ چکا ہے کہ اگلے چودہ سال تک ہر برس کم از کم ایک ارب در محت لگائے جائیں تب ہی کسی حد تک اس کا ازالہ ہو۔۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جون 2017