آپ بیتی
قسط نمبر1
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )کسی مفکر نے کیا خوب کہا ہے کہ استاد تو سخت ہوتے ہیں لیکن زندگی اُستاد سے زیادہ سخت ہوتی ہے، استاد سبق دے کر امتحان لیتا ہے اور زندگی امتحان لے کر سبق دیتی ہے۔” زندگی انسان کی تربیت کا عملی میدان ہے۔ اس میں انسان ہر گزرتے لمحے کے ساتھ
سیکھتا ہے۔ کچھ لوگ ٹھو کر کھا کر سیکھتے ہیں اور حادثے ان کے ناصح ہوتے ہیں۔ کوئی دوسرے کی کھائی ہوئی ٹھوکر سے ہی سیکھ لیتا ہے۔ زندگی کے کسی موڑ پر اسے ماضی میں رونما ہونے والے واقعات بہت عجیب دکھائی دیتے ہیں۔ وہ ان پر دل کھول کر بنتا ہے یا شرمندہ ردکھائی دیتا ہے ۔ یوں زندگی انسان کو مختلف انداز میں اپنے رنگ دکھاتی ہے۔
سزا :ہر عورت کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ماں بنے ، اس کی گود میں پھول جیسے بچے ہوں۔ مگر کوئی عورت اولاد کی خوشیاں پانے کے باوجود احسان فراموش بلکہ محسن کش تک بن جاتی ہے۔
میری داستان حیات کچھ یوں ہے۔ میری شادی کے کچھ عرصے بعد ہی میرے والد کا انتقال ہو گیا اور پھر ایک سال بعد ہی میری والدہ بھی چل بسیں، یوں میرا اکلوتا چھوٹا بھائی تنہا رہ گیا جس کی ابھی شادی نہیں ہوئی تھی۔ میرے شوہر مجھے سے محبت کرتے تھے اس لیے انہوں نے میری یہ تجویز قبول کر لی کہ میں چھوٹے بھائی کو اپنے ساتھ رکھ سکتی ہوں۔ وہ زیادہ تعلیم حاصل نہیں کر سکا تھا اور ایک پرائیویٹ ادارے میں معمولی سیلری پر ملازمت کرنے لگا۔ اسے بس اتنی ہی تنخواہ ملتی تھی کہ مجھے گھر خرچ کے نام پر تھوڑے بہت پیسے دے کر اپنے اخراجات پورے کر سکے۔
کئی سال گزر جانے کے باوجود بھی جب میں ماں نہ بن سکی تو میرے ذہن میں خیال آیا کہ چھوٹے بھائی کی شادی کر دوں۔ گھر میں کوئی بچہ تو ہو گا، میرا نہ سہی، اس کا سہی۔ میں نے اپنے اس خیال کا اظہار اپنے شوہر سے کیا۔
وہ بولے ” خواہ مخواہ بھائی کے معاملے میں کیوں پوری ہو …. ؟
اس وقت مجھے ایک اور بات سو تھی۔ میں نے اپنے شوہر کو قائل کرنے کے لیے کہا۔ ”میں اپنے بھائی کے بچے کو گود بھی تو لے سکتی ہوں ….؟ ب فضول بات ہے۔“ انہوں نے کہا۔ کوئی نہیں دیتا اپنی اولاد اس طرح ۔ “
“میرا بھائی ایسا نہیں ہے۔“ میں پریقین لہجے میں بولی۔
اچھا تو وقت آنے پر دیکھ لیں گے۔“
پھر میں نے اسی روز اپنے بھائی سے شادی کی بات کی۔ وہ بولا۔ ” پاچی! شادی کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے….؟
وہ تو فکر نہ کر سب کچھ مجھ پر چھوڑ دے۔“ یہ
کہہ کر میں اصل موضوع پر آگئی۔
اس نے فورا ہامی بھر لی۔ اس سے مجھے یہی توقع بھی تھی۔
غرض کہ دو تین مہینے کے اندر اندر میں نے شادی کی تمام تیاریاں مکمل کر لیں۔ لڑکی کے انتخاب میں ، میں نے بہت احتیاط برتی تھی کہ سیدھی سادی ہو اور مجھے اپنی اس کوشش میں کامیابی ہوئی۔ واقعی وہ
غریب بے زبان ثابت ہوئی۔ ایک سال کے بعد ہی میرا بھائی ایک بیٹے کا باپ بن گیا۔ میں نے بڑی خوشی منائی اور جب اسپتال سے چھٹی ہوئی تو اسی دن بھائی کے بیٹے کو گود لے لیا۔ میں نے اسے ماں کا دودھ بھی نہیں پینے دیا تھا۔ میں اسے اوپر کے دودھ پر رکھنا چاہتی تھی تاکہ بھائی کی محتاجی نہ رہے۔
ایک بار و بی دبی زبان سے میں نے بھابی کو اپنے بھائی سے گلہ کرتے بھی سنا جس پر میرے بھائی نے شدید خفگی کا اظہار کیا اور بولا کہ اگر باجی نہ چاہتیں تو تم میری بیوی نہ بنتیں۔
معلوم نہیں، بچہ چھن جانے کے غم میں یا کسی اور سب بھائی بیمار پڑ گئیں۔ ان کی نگہداشت اور دیکھ بھال کی ذمہ داری میری تھی مگر مجھے ان کی زیادہ پروانہ تھی، بس ایک مرتبہ انہیں محلے کے ڈاکٹر کے پاس لے گئی تھی۔ اس نے دوا دیتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ بھابی کو کسی لیڈی ڈاکٹر کو دکھاؤں تو بہتر ہے۔
میرے بھائی کو مجھ پر بہت اعتماد اور بھروسا تھا کہ وہ خود گھریلو معاملات میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتا تھا پھر اس کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ ڈاکٹروں کی لمبی لمبی فیس برداشت کرتا۔
ایک مرتبہ بہت کہنے سننے پر وہ بھابی کو ایک لیڈی ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ لیڈی ڈاکٹر نے دواؤں کی لمبی چوڑی فہرست اسے تھمادی۔ اس نے وہ فہرست مجھے لا کر دے دی۔ میں سمجھ گئی کہ دوائیں خریدنے کے لیے اس کے پاس پیسے نہیں ہیں۔
لیڈی ڈاکٹر نے اگلے ہفتے پھر بلایا تھا۔ میں نے پہلی مرتبہ تو دوائیں منگوا دیں مگر ہفتہ بھر گزرنے کے بعد دو بار ونہ اپنے بھائی سے کہا کہ بھابی کو ڈاکٹر کے لے جاؤ نہ خود انہیں اپنے ساتھ لے گئی۔
بھابی کی طبیعت روز بروز خراب سے خراب ہوتی گئی۔ میرے پاس حالانکہ پیسوں کی کمی نہیں تھی اور میں لگ کر بھابھی کا علاج کر سکتی تھی مگر اب میرے ذہن میں ایک اور ہی خیال جنم لے چکا تھا۔ اب سوچتی ہوں تو ہوں تو میری روح تک کانپ اٹھتی ہے کہ میں اتنی خود کہ میں اتنی خود غرض اور ظالم ہو گئی تھی۔
میں نے دراصل سوچا یہ تھا کہ درمیان سے بھابی کا کانٹا نکل ہی جائے تو اچھا ہے۔ اس طرح آئندہ کے لیے کوئی خطرہ نہیں رہے گا اور بچہ مجھ ہی کو اپنی ماں سمجھے گا۔ سگی ماں زندہ رہی تو بچے کا دل اس کی طرف نچ سکتا ہے۔ میں بھابی کی طرف سے بے پروا ہو گئی۔ یہی نہیں بلکہ ایک دن میں نے بھا بھی کو بیٹے کے بستر
کے پاس بیٹھے دیکھا تو ڈانٹ دیا۔
کیا تم اپنی بیماری اس معصوم کو لگاؤ گی ….؟ بیماری کے جراثیم اسے بھی لگ سکتے ہیں۔ آئندہ میں کبھی تمہیں اس کے قریب نہ دیکھوں۔“
بھابی اپنے بیٹے کے پاس سے انھیں تو ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ان سے چلا بھی نہیں جارہا تھا۔ میرے کمرے سے نکلتے ہوئے وہ کئی مرتبہ لڑکھڑائیں اور کرتے کرتے بچیں مگر مجھے ان پر ذرا رحم نہ آیا۔ آخر ایک دن وہ حل حل کر اللہ کو پیاری ہو
ہی گئیں۔
بیماری کے دنوں میں ان کے عزیز رشتہ دار بھی ان سے ملنے آتے رہتے تھے۔ بھابی کی والدہ نے دبی دبی زبان میں مجھ سے ایک مرتبہ شکایت بھی کی تھی کہ ان کی بیٹی کا صحیح علاج نہیں ہو رہا۔ انہوں نے بھابی کو اپنے ساتھ بھی لے جانا چاہا مگر بھابی نے انکار کر دیا کہ گھر کا کام کاج کون کرے گا….؟ بیماری کے دوران بھی میں ان سے گر کا سارا کام کاج کرتی رہی تھی۔
وقت گزرتا رہا اور پھر میرا منہ بولا بیٹا جوان ہو گیا۔ میں اس پر جان چھڑکتی تھی اور میرے شوہر
ہوں تو میری روح تک کانپ اٹھتی ہے کہ میں اتنی خود کہ میں اتنی خود غرض اور ظالم ہو گئی تھی۔
میں نے دراصل سوچا یہ تھا کہ درمیان سے بھابی کا کانٹا نکل ہی جائے تو اچھا ہے۔ اس طرح آئندہ کے لیے کوئی خطرہ نہیں رہے گا اور بچہ مجھ ہی کو اپنی ماں سمجھے گا۔ سگی ماں زندہ رہی تو بچے کا دل اس کی طرف نچ سکتا ہے۔ میں بھابی کی طرف سے بے پروا ہو گئی۔ یہی نہیں بلکہ ایک دن میں نے بھا بھی کو بیٹے کے بستر
کے پاس بیٹھے دیکھا تو ڈانٹ دیا۔
کیا تم اپنی بیماری اس معصوم کو لگاؤ گی ….؟ بیماری کے جراثیم اسے بھی لگ سکتے ہیں۔ آئندہ میں کبھی تمہیں اس کے قریب نہ دیکھوں۔“
بھابی اپنے بیٹے کے پاس سے انھیں تو ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ان سے چلا بھی نہیں جارہا تھا۔ میرے کمرے سے نکلتے ہوئے وہ کئی مرتبہ لڑکھڑائیں اور کرتے کرتے بچیں مگر مجھے ان پر ذرا رحم نہ آیا۔ آخر ایک دن وہ حل حل کر اللہ کو پیاری ہو
ہی گئیں۔
بیماری کے دنوں میں ان کے عزیز رشتہ دار بھی ان سے ملنے آتے رہتے تھے۔ بھابی کی والدہ نے دبی دبی زبان میں مجھ سے ایک مرتبہ شکایت بھی کی تھی کہ ان کی بیٹی کا صحیح علاج نہیں ہو رہا۔ انہوں نے بھابی کو اپنے ساتھ بھی لے جانا چاہا مگر بھابی نے انکار کر دیا کہ گھر کا کام کاج کون کرے گا….؟ بیماری کے دوران بھی میں ان سے گر کا سارا کام کاج کرتی
رہی تھی۔
وقت گزرتا رہا اور پھر میرا منہ بولا بیٹا جوان ہو گیا۔ میں اس پر جان چھڑکتی تھی اور میرے شوہربھی اسے بہت چاہتے تھے۔ معلوم نہیں، کہاں سے اور کیسے اسے اس ظلم کی داستان معلوم ہو گئی جو میں نے اس کی ماں پر کیا تھا۔ اب وہ تعلیم یافتہ اور بر سر روزگار ہو چکا تھا۔ اس نے مجھ پر اپنی ماں کے قتل کا الزام لگایا اور پھر گھر چھوڑ کر چلا گیا۔ اس نے اپنے باپ کی بھی ایک نہ سنی۔
قدرت نے مجھے ظلم کا بدلہ دے دیا۔ اب میں اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے تشریتی ہوں مگر وہ مجھے سے شدید نفرت کرتا ہے، میرے گھر کا رخ نہیں کرتا۔
اب میں اپنی عمر کے آخری حصے میں ہوں آج میں یہ اعتراف کر لینا چاہتی ہوں کہ میں نے خود پر احسان کرنے والی ایک صابر عورت پر ظلم کیے۔ میں نے ہی اپنی بھابھی کے علاج سے غفلت برت کر انہیں اس دنیا سے چلے جانے پر مجبور کیا تھا۔ ہاں ہاں اس طرح میں اپنی بھائی کی قاتل ہوں۔
مکافات عمل
بچوں کی کلکاریاں گھر کو خوشیوں سے بھر دیتی ہیں۔ میری خوشیوں سے لبریز، پر سکون زندگی میں ایک ننھے سے فرشتے کی آمد میری خوشیوں میں کئی گنا اضافے کا سبب بنی۔
وہ میری اپنی اولاد نہ تھا۔ وہ ہمارے پڑوسیوں کا بچہ تھا یہ لوگ کچھ ہی عرصہ پہلے کراچی آئے تھے۔ وہ لوگ ہماری بلڈ نگ میں شفٹ ہوئے تھے۔
ایک دن سکندر کی ماں نے مجھ سے اپنے بچوں کو پڑھانے کی درخواست کی۔ میں نے اپنے گھر والوں کی اجازت سے ان کی اس درخواست کو قبول کر لیا۔ سکندر آٹھ نو سال کا ہی رہا ہو گا اس وقت ، مگر اس کے۔۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جنوری 2025
![]()

