لندن سے ایک خط
فیضان عارف
آکسفورڈ یونیورسٹی اور عمران خان
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔لندن کی فضاؤں سے۔۔۔تحریر۔۔۔فیضان عارف)لندن کے بعداگر کوئی شہر مجھے اچھا لگتا ہے تو وہ آکسفورڈ ہے، یہ شہر اپنے پرسکون علمی ماحول اور آکسفورڈ یونیورسٹی کی وجہ سے مجھے پسند ہے۔ کئی برس پہلے جب میں پاکستان سوسائٹی کی دعوت پر ایک مشاعرے میں شرکت کے لئے آکسفورڈ گیا تو اس شہر کی علمی فضا کا اسیر ہو کر رہ گیا۔ اُن دنوں اردو کے نامور شعرا اکبر حیدرآبادی اور خالدیوسف بھی یہاں مقیم تھے اس شہر میں دنیا بھر سے آئے ہوئے ذہین ترین طلباء طالبات کے روشن چہرے دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ حصول علم کے لئے آکسفورڈ ایک خزانے کی حیثیت رکھتا ہے جہاں سے علم اور بصیرت کے موتی اور جواہرات چننے کے لئے پوری دنیا کے نوجوان یہاں آئے ہوئے ہیں۔ لندن سے دو گھنٹے کی مسافت پر آباد آکسفورڈ صرف ایک شہر ہی نہیں بلکہ علم و دانش کا بے مثال تاریخی حوالہ ہے۔ یہاں کی آکسفورڈ یونیورسٹی 1096ء سے اپنے تدریسی تسلسل کو جاری رکھے ہوئے ہے یعنی یہ دنیا کی دوسری قدیم ترین درس گاہ ہے (پہلی قدیم ترین یونیورسٹی اٹلی کی بولوگنا (BOLOGNA) یونیورسٹی ہے جہاں 1088 میں تدریسی سلسلے کا آغاز ہوا تھا)۔ میں چند ہفتے پہلے ایک بار پھر آکسفورڈ گیا تو میرے دیرینہ دوست اور آکسفورڈ سٹی کونسل کے سابق لارڈ میئر الطاف خان نے مجھے ایک ٹورسٹ گائیڈ کی طرح پورے شہر اور اس کی عظیم درسگاہ کا دورہ کرایا، موسم بہت خوشگوار تھا پورا شہر اور یونیورسٹی کی گلیاں اور راہداریاں سیاحوں اورطالبعلموں کی وجہ سے پُررونق تھیں۔ الطاف خان مجھے یونیورسٹی کے مختلف شعبوں، کالجز اور فیکلٹیزمیں لے گئے او ر اُن کی تاریخ اور اہمیت کے بارے میں حیران کن معلومات سے میرے علم میں اضافہ کیا۔ الطاف خان ایک شاندار انسان اور عمدہ سیاستدان ہیں جن کا آبائی تعلق آزاد کشمیر سے ہے وہ آکسفورڈ کے ہیڈنگٹن وارڈ سے گزشتہ طویل عرصے سے لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے کونسلر منتخب ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ اس شہراور یونیورسٹی کے بارے میں ان کی معلومات مقامی انگریزوں سے بدرجہا بہترہیں اس کے علاوہ وہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم پاکستانی طالبعلموں (اور ان کی تنظیم پاکستان سوسائٹی) اور پاکستانی پروفیسرز سے بھی رابطے میں رہتے اور ہر معاملے میں اُن کی ہر ممکن معاونت کرتے ہیں۔الطاف خان جیسے سیاستدان اوورسیز پاکستانی اور کشمیری کمیونٹی کے لئے قابل فخر اور ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے آکسفورڈ سٹی کونسل کے لارڈ میئر کے طور پر جو خدمات انجام دیں انہیں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ویسے بھی آکسفورڈ جیسے تاریخی شہر میں جہاں ایک لاکھ 64ہزار کی کل آبادی میں صرف 4 فیصد پاکستانی اور 9 فیصد مسلمان ہوں وہاں کسی اوورسیز پاکستانی کا لارڈ میئر منتخب ہونا ایک منفرد اعزاز کی بات ہے۔ میں نے الطاف خان سے جب آکسفورڈ کے مسائل اور پاکستانی کمیونٹی کے بارے میں استفسار کیا تو وہ کہنے لگے کہ اس ٹاؤن کی بنیاد آٹھویں صدی میں رکھی گئی اور اسے 1542 میں شہر کا درجہ حاصل ہوا۔ ابتدا سے ہی یہ شہر امن اور علم کا گہوارہ ہے اور عالمی توجہ کا مرکزہے۔آکسفورڈ میں آباد پاکستانی کمیونٹی کی اکثریت خوشحال اور تعلیم یافتہ ہے۔ میں نے پوچھا کہ آکسفورڈ میں رہنے والوں کو اس شہر کی تاریخی یونیورسٹی میں داخلے کے لئے کسی قسم کی کوئی رعایت یا سہولت دی جاتی ہے؟ میری بات سن کر الطاف خان مسکرائے اور کہنے لگے آکسفورڈ یونیورسٹی طالبعلموں کو صرف اور صرف میرٹ کی بنیاد پر داخلہ دیتی ہے، اس درسگاہ کا تعلیمی معیار بہت بلند ہے اسی لئے آکسفورڈ یونیورسٹی گزشتہ پانچ برس سے دنیا کی سب سے بہترین یونیورسٹی قرار دی جا رہی ہے۔ اس تعلیمی ادارے سے فارغ التحصیل لوگوں نے دنیا میں بڑے بڑے کارنامے انجام دیئے ہیں۔ ادب، سیاست، تاریخ، سپورٹس، سائنس، تحقیق، آرٹ، قانون، فنانس سمیت کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے پڑھنے والے لوگوں نے عالمی سطح پر کوئی نمایاں اور بڑا کام نہ کیا ہے۔ دنیا کے ذہین ترین طالبعلموں کو ہی اس درس گاہ میں داخلے کا اعزاز حاصل ہوتا ہے۔ البرٹ آئن سٹائن اور سٹیفن ہاکنگ سے لے کر مارگریٹ تھیچر اور ٹونی بلیئر تک، بل کلنٹن اور اندرا گاندھی سے بے نظیر بھٹو اور عمران خان تک، روپرٹ مرڈاک اور آسکروائلڈ سے ٹی ایس ایلیٹ تک سیکڑوں نامور شخصیات مختلف ادوار میں اس درسگاہ میں زیر تعلیم رہیں۔ اس ادارے کے 72 سابق طلبا ایسے ہیں جن کو مختلف شعبوں میں اعلی کارکردگی پر نوبل پرائز دیا جا چکا ہے جبکہ اس یونیورسٹی کے 120 طالبعلموں نے اولمپکس میڈل حاصل کئے۔پچھلے دنوں پاکستان میں آکسفورڈ یونیورسٹی کا بہت چرچا ہوا کیونکہ سابق وزیر اعظم پاکستان اور پی ٹی آئی کے بانی سربراہ عمران خان کا نام اس درسگاہ کے چانسلر کے امیدوار کے طور پر لیا جا رہا تھا لیکن جب یونیورسٹی کی طرف سے 38 امیدواروں کی حتمی فہرست جاری کی گئی تو اس میں عمران خان کا نام شامل نہیں تھا جس کا مطلب ہے کہ یہ تعلیمی ادارہ اپنے وقار اور عظمت کو برقرار رکھنے کے لئے کسی ایسی کھکھیڑ میں نہیں پڑنا چاہتا جس کی وجہ سے کسی ملک کے سیاسی حالات کے متاثر ہونے کا اندیشہ ہو۔ عمران خان کے خیر خواہ اور تحریک انصاف کے کارکن اورعہدیدار یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ عمران خان کے آکسفورڈ یونیورسٹی کا چانسلر منتخب ہونے کے بعد ان کی جیل سے رہائی کی راہ ہموار ہو جائے گی لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کو عمران خان کے سیاسی مستقبل سے زیادہ اپنا وقار اور ساکھ عزیز ہے ویسے بھی اس یونیورسٹی کی چانسلر شپ ایک اعزازی منصب ہے جس کی بنیادی شرط اس درسگاہ کا سابق طالب علم ہونا ہے۔ گزرنے والے سیکڑوں برسوں میں بہت سے قابل اور نامور لوگ اس اعزازی عہدے پر فائیز رہ چکے ہیں مگر کبھی کسی نے اس اعزاز کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال نہیں کیا۔ سالِ رواں میں 31 جولائی کو کرسٹوفرفرنسس پیٹن کے استعفے کے بعد سے چانسلر کا عہدہ خالی ہے، نئے چانسلر کے انتخاب کے لئے ووٹنگ کا پہلا مرحلہ 28 اکتوبر کو مکمل ہوا اور دوسرا مرحلہ 18 نومبر سے شروع ہو گا۔ نوابزادہ لیاقت علی خان اور ذوالفقارعلی بھٹو سمیت آکسفورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل درجنوں شخصیات مختلف ممالک کے وزیر اعظم یا سربراہِ مملکت کے عہدے پر فائیز رہ چکی ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں ان دنوں 26 ہزار سے زیادہ طالب علم زیر تعلیم ہیں جن میں 12470 انڈرگریجوایٹ اور 13920 پوسٹ گریجوایشن کے مختلف مضامین اور کورسز پڑھ رہے ہیں۔آکسفورڈ یونیورسٹی 43 کالجز پر مشتمل ہے جن میں دو ہزار سے زیادہ پروفیسرز، لیکچرراور ریسرچ سکالرز درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ اس درسگاہ میں تقریباً 350 مضامین اور کورسز پڑھائے جاتے ہیں اس ادارے کے کل ملازمین کی تعداد 16 ہزار سے زیادہ ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں پاکستان سے ہر سال 40 سے 50 طالبعلموں کو داخلہ ملتا ہے جن کی اکثریت حصول تعلیم کے بعد واپس وطن نہیں جاتی یا انہیں انکی تعلیمی قابلیت کے مطابق کوئی ملازمت میسر نہیں آتی اس لئے پاکستان کے اِن ذہین نوجوانوں کی قابلیت کا فائدہ امریکہ، برطانیہ، کینیڈا یا کسی اور ترقی یافتہ ملک کو ہوتا ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے پاکستانی طالبعلموں نے پاکستان سوسائٹی کے نام سے اپنی ایک تنظیم بھی قائم کر رکھی ہے، یہ آرگنائزیشن مختلف طرح کے ثقافتی، ادبی، سیاسی اور تفریحی پروگراموں کا اہتمام کرتی ہے، آکسفورڈ یونیورسٹی میں صرف پاکستانی طالبعلم ہی موجود نہیں بلکہ یہاں کئی پاکستانی پروفیسرز بھی درس و تدریس کی ذمہ داریں نبھا رہے ہیں جن میں پروفیسر عدیل ملک (ممتاز پاکستانی ادیب اور دانشور فتح محمد ملک کے صاحبزادے) اور اجمل حسین مغل کے علاوہ دیگر کئی اساتذہ شامل ہیں جبکہ ممتاز پاکستانی دانشور ڈاکٹر افتخار ملک بھی کئی برس تک آکسفورڈ یونیورسٹی سے وابستہ رہے ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی صرف ایک درس گاہ نہیں بلکہ علم کا ایک ایسا شہر ہے جو سیکڑوں برسوں سے دنیا بھر کے ذہین اور قابل لوگوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کر رہا ہے۔ یہ ادارہ علمی وقار اور معیار کی ایک شاندار علامت ہے۔ موجودہ دور تک کی ترقی اور خوشحالی میں آکسفورڈ کے سائنسدانوں اور مختلف شعبوں کے ماہرین کا ایک نمایاں حصہ ہے اس تعلیمی ادارے نے صرف بڑے بڑے لیڈرز اور دانشور ہی پیدا نہیں کئے بلکہ اُن ذہین لوگوں کی بھی تربیت کی ہے جنہوں نے ہماری اس دنیا کو جدید ٹیکنالوجی اور مستقبل کے بہتر امکانات سے روشناس کروایا۔ میں جب بھی آکسفورڈ جاتا ہوں تو دل میں ایک ہوک سی اُٹھتی ہے کہ کاش میں بھی اس عظیم درس گاہ کا طالب علم ہوتا۔
٭٭٭