ابن انشاء
منقول تحریر
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ ابن انشاء۔۔۔ منقول تحریر )اردو کے نامور شاعر اور مزاح نگار ابن انشاء نے نہ صرف یہ کہ دلوں کے تاروں کو چھو لینے اور مست و بیخود کر دینے والی شاعری کی، بلکہ سحر انگیز کہانیاں، افسانے، سفرنامے، ناول اور کالم لکھے۔ ان کے علاوہ تراجم،بچوں کے عالمی ادب، مکتوبات اور دیگر ادبی اصناف پر کام کیا۔
دو شعری مجموعے، چاند نگر اور اس بستی کے کوچے میں 1976ء شائع ہوئے۔ 1960ء میں چینی نظموں کا منظوم اردو ترجمہ (چینی نظمیں) شائع ہوا۔
لیکن انہیں “اُردو کی آخری کتاب “سے بے پناہ شہرت ملی۔ اس کے علاوہ ان کے سفرنامے اور دیگر کتب بہترین اور بے مثال ہیں۔جبکہ ان کے شعری مجموعوں میں اس بستی کے اک کوچے میں، چاند نگر، دلِ وحشی اور بلو کا بستہ (بچوں کے لیے نظمیں) شاہکار ہیں۔
ان کا اصل نام شیر محمد خان تھا، 15 جون 1927ء کو جالندھر(ہندوستان) کے ایک نواحی گاؤں میں پیدا ہوئے۔
1946ء میں پنجاب یونیورسٹی سے بی اے اور 1953ء میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ 1962ء میں نیشنل بک کونسل کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ ٹوکیو بک ڈولپمنٹ پروگرام کے وائس چیئرمین اور ایشین کو پبلی کیشن پروگرام ٹوکیو کی مرکزی مجلس ادارت کے رکن تھے۔ روزنامہ جنگ کراچی اور روزنامہ امروز لاہورکے ہفت روزہ ایڈیشنوں اور ہفت روزہ اخبار جہاں میں فکاہیہ کالم لکھتے تھے۔ ابن انشاء نے یونیسکو کے مشیر کی حیثیت سے متعدد یورپی و ایشیائی ممالک کا دورہ کیا تھا۔ جن کا احوال اپنے سفر ناموں میں اپنے مخصوص طنزیہ و فکاہیہ انداز میں تحریر کیا۔
1955ء میں ابنِ انشاء کا اوّلین شعری مجموعہ ”چاند نگر“ شایع ہوا، تو ادبی حلقوں میں ایک دھوم مچ گئی۔انھوں نے مختلف ممالک کے سیّاحتی دوروں سے متعلق اپنی کتاب ”آوارہ گرد کی ڈائری“ میں ان ممالک کے حالات کو انتہائی دل کش انداز میں بیان کیا ہے۔
انشاء جی نے اردو ادب میں جدّت و ندرت کا تازہ کاری و شگفتہ نگاری پر مبنی ایک ایسے انداز کی داغ بیل ڈالی، جس کی اس سے قبل مثال نہ ملتی تھی اور ان کی اسی خوبی کے باعث اُنہیں بیسویں صدی کی ادبی دنیا میں اہم و ممتاز مقام ملا۔ انہیں اُن کی ادبی خدمات، شاعری، سفر ناموں، خطوط، فکاہیہ کالموں، تراجم، افسانوں، ناول نگاری اور دیگر ادبی و علمی کاوشوں کی بدولت ادبیاتِ اردو میں ”Man of Letters“ کے اعزاز سے نوازا گیا۔
اُن کے مقبولِ عام اور زبانِ زدِ عام کلام میں ”کل چودھویں کی رات تھی، شب بھر رہا چرچا ترا، انشاء جی اٹھو، اب کوچ کرو، فرض کرو ہم اہلِ وفا ہوں، فرض کرو دیوانے ہوں، ایک بار کہو، تم میری ہو، سب مایا ہے، یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، دروازہ کھلا رکھنا اور بلو کا بستہ وغیرہ شامل ہیں۔
وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے، وہ بیک وقت صحافی،شاعر،افسانہ نگار،کالم نگار اور سفر نامہ نگارتھے۔ انہیں ان کی معروف غزل ”انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو“ نے شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ ابن انشاء ملک کے معروف اخبارات و جرائد میں کالم لکھتے رہے ہیں، بطور شاعر ان کے متعدد مجموعے ”دل وحشی“ ”چاند نگر“ اور ”اس بستی کے کوچے میں“ شائع ہو ئے۔ ابن انشاء نے یونیسکو کے مشیر کی حیثیت سے مختلف یورپی و ایشیائی ممالک کے تفصیلی دورے کیے۔ جن کے احوال انہوں نے اپنے سفر ناموں ”ابن بطوطہ کے تعاقب میں“چلتے ہو تو چین کو چلیے“ ”دنیا گول ہے“ ”نگری نگری پھرا مسافر“ اور ”آوارہ گرد کی ڈائری“ میں اپنے مخصوص طنزیہ اور مزاحیہ انداز میں تحریر کیا۔ابن انشاء کے کالموں اور خطوط کے مجموعوں پر مشتمل کتب ”خمار گندم“ ”اردو کی آخری کتاب“ اور ”خط انشاء جی کے“ قارئین میں بے پناہ پزیرائی حاصل کر چکی ہیں۔
مشتاق احمد یوسفی نے ابن انشاء کے مزاحیہ اسلوب کے حوالے سے لکھا“بچھو کا کاٹا روتا اور سانپ کا کاٹا سوتا ہے۔ انشا جی کا کاٹا سوتے میں مسکراتا بھی ہے۔
”چاند کسے پیارا نہیں لگتا؟ لیکن انشا پر تو چاند نے جادو سا کر رکھا تھا
کل چودھویں کی رات تھی، شب بھر رہا چرچا ترا۔۔ کچھ نے کہا یہ چاند ہے، کچھ نے کہا چہرا ترا۔
زندگی کے آخری ایام میں حکومت پاکستان نے انہیں انگلستان میں تعینات کردیا تھا تاکہ وہ اپنا علاج کرواسکیں لیکن کینسر کے بے رحم ہاتھوں نے اردو ادب کے اس مایہ ناز ادیب کو ان کے لاکھوں مداحوں سے جدا کرکے ہی دم لیا۔ابن انشا کا انتقال 11 جنوری 1978ء کو لندن کے ایک اسپتال میں ہوا اور انہیں کراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔
منقول تحریر