Daily Roshni News

اب اصل فیصلے کے دن میں وقت ہی کتنا باقی رہ گیا ہے

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )ہندو بھی گھوم پھر کر ایک پر ماتما کو مانتے ہیں جسے وہ ایشور کہتے ہیں جو کہیں بیٹھا اکیلا ہی یہ سارے نظام چلا رہا ہے مگر ہندووں کے یہاں ایشور کا کوئی مندر نہیں ہوتا ۔۔  ان کے یہاں جتنے مندر ہیں سب دیوتاوں کے ہیں. گویا ہندو اس مذہب سے واقف نہیں جس میں ”  ایشور ” کی براہ راست پرستش یا باتیں کی جائیں ۔۔ اسے ہر وقت ، ہر لمحے اپنے اندر اور باہر محسوس کیا جائے ۔۔   وه صرف اس مذہب کو جانتے ہیں جس میں ایشور اور بندے کے درمیان  دیوی دیوتاوں کو رکھ کر ان کی پرستش کی جاتی ہے ۔۔ اس سے مندر کے پجاریوں کی گنجائش بھی باقی رہتی ہے ورنہ اصل ایشور جس نے سارے دیوی دیوتاؤں کو پیدا کیا ، کائنات کی ہر شے کو پیدا کیا ، جو ہمیشہ سے ہمیشہ تک ہے

جو ہر جگہ خود ہی موجود ہے ، اس کے ذکر یا تعارف کے بعد بندے اور اس کے درمیان کسی دوسرے کی کوئی بھی گنجائش کیسے باقی رہ سکتی ہے ؟؟؟ پھر تو سارے فیصلے مخصوص حلیوں یا مخصوص عبادت کے طریقوں کے بجائے ان کے پیچھے چھپی نیت و ارادوں پر ہونے شروع ہو جاتے ہیں ۔۔۔۔ کس کے دل میں کتنا شوق ہے ، کتنی جستجو ہے ، اس پر ہونا شروع ہو جاتے ہیں

اس لئے انہیں ایشور اور اپنے درمیان کسی کو رکھنا ہی پڑتا ہے چاہے وہ بندر یا ہاتھی ہی کیوں نہ ہو انہیں رکھنا پڑتا ہے

ورنہ آخری طاقت کے آ تے ہی سارے فیصلے اس کی ذات پر ٹک جاتے ہیں ۔۔۔۔

انسانوں، جانوروں  یا پتھروں میں خدا کے مختلف روپ دیکھنے والے مذاہب کے بعد آ تے ہیں وہ مذاہب جو کسی نہ کسی طریقے سے یہ بات مانتے ہیں کہ خدا ایک ہی ہے اور وہ ہمیشہ انسانوں سے کتاب کے ذریعے ہی بات کرتا ہے ایسے مذاہب کو ہم اہل الکتاب کہتے ہیں ، ان میں سب سے پہلے یہو دی ہیں ، جو صرف اس دین کو جانتے ہیں جس میں وہی خدا کے لاڈلے اور قریبی ہیں اور اس کے پاس صرف انہی کی نجات ہے ۔۔ نیک اعمال یا باقی انسانوں کو بھی خدا کی ہی تخلیق سمجھنے  کی بنیاد پر نجات ملنے والے دین سے وه واقف نہیں ۔۔۔ عیسائی صرف اس دین سے واقف ہیں جس میں ” پادری ” انہیں خدا کے بیٹے کا تعارف دیتا ہے اور پھر آ گے خدا کا بیٹا سارے معاملات سنبھالتا ہے ، وہ بھی براہ راست خدا سے ہدایت مانگنے یا اس کو ہر وقت گواہ سمجھ کر فیصلے کرنے والے دین سے آ شنا نہیں ۔۔۔ باقی بچے مسلمان تو ان میں بھی اکثر اپنے اور اللہ کے درمیان کسی دوسرے کو

کسی نہ کسی شکل میں کھڑا کرنے میں باقیوں سے مختلف نہیں حالانکہ ان کے پاس تو قرآن جیسی کتاب بھی موجود ہے جو اس رب کے تعارف سے بھری ہوئی ہے جو انسان کے

عمل یا عبادت کرنے سے پہلے جان لیتا ہے اس کا ارادہ کیا ہے ، نیت کیا ہے ۔۔ یہ سوچ، سمجھ کر شوق سے آ رہا ہے یا

بس پیچھے سے چلتی روایت سمجھ کے آ رہا ہے ۔۔۔ یہ اصل خدا سے دوری یا اس کے اور اپنے درمیان کچھ بھی شریک کرنے کا نتیجہ ہے کہ آ ج کا مسلمان تقوے والے دین سے یا اپنے ڈر و پرہیز سے باتوں کے مطلب نکالنے سے مجبور ہے ۔۔

وہ جس دین سے واقف ہیں وه ان کی تاریخی روایات، ان کے بزرگوں کے قصے کہانیاں سے منسلک ہے اور آخر میں وہی مخصوص حلیے ، طریقے یا بزرگ ان کی آخرت کے ضامن ہیں ۔۔۔

 وہ ان سے باہر نکل کر دور حاضر کی مناسبت سے کچھ دیکھ اور سن سکتے نہیں ہیں اور اپنے خود ساختہ دین کے دائروں میں قید ہیں اور یہی وجہ ہے کہ جب ایسوں کے سامنے اللہ رب العزت کی برائی بیان کی جائے ، اس کی قدرتوں، کرشموں، پاکیوں، شانوں کا ذکر کیا جائے یا اس دین کے دن کا تذکرہ کیا جائے جہاں بوٹیاں بولتی ہیں ، جہاں ایسے فرشتے ہیں جو کوئی سوال نہیں کرتے بلکہ مجرموں کی چہروں سے شناخت کرتے ہیں تو وہ ان باتوں کو شوق و توجہ سے نہیں سنتے ، ان پر زیادہ غور و فکر نہیں کرتے ، ان کے خیالات میں کوئی ہلچل پیدا نہیں ہوتی بلکہ الٹا جان چھڑاتے ہیں جیسے ان کے نہ سننے سے یا دھیان نہ دینے سے اصل سچائیوں کو کوئی فرق پڑ جائے گا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ خیر مرضی ہے انسانوں کی اور خاص طور پر جن کے پاس اللہ کا سچا اور انسانوں کے نام آخری پیغام ہے ۔۔۔۔

اب اصل فیصلے کے دن میں وقت ہی کتنا باقی رہ گیا ہے

 اور قرآن پاک بھی ایمان لانے والوں کو موت سے قبل اسی فیصلے کے دن کے بارے میں جاننے کی تاکید کرتا ہے ، یہ پوچھ پوچھ کر کہ تم کیا جانو کیا ہے فیصلے کا دن ، کاش تم جانتے کہ کیا ہے فیصلے کا دن ۔۔۔ اب اس کے بعد بھی

کسی نفس کے دل میں اتنے عجیب طریقے سے پیدا ہونے کے بعد ، ایسی شہکار کائنات پر خود گواہ بننے کے بعد ، اچانک گھیر لینے والی موت کو پیچھے لگا دیکھنے کے بعد بھی اس

فیصلے کے دن کے بارے میں جاننے کی تمنا نہ جاگے تو کوئی

بھی دوسرا اس بارے میں کیا کر سکتا ہے ، کیا کہہ سکتا ہے

حالانکہ اگر جان لیتے تو گناہوں سے تو شاید پھر بھی پاک نہ ہو سکتے لیکن کوئی کمی تو کرتے ، خود کو پاک اور دوسروں کو کمتر ثابت کرنے سے تو باز آ تے،  اللہ کی زمین پر فتنے یا فساد میں کوئی کردار تو ادا نہ کرتے ، خوامخواہ بے مقصد کے گناہ جیسے غیبت، حسد ، بدگمانی وغیرہ سے تو کنارہ کش ہوتے ، یہ جو ابھی بے دھیانی سے توبہ استغفار کرتے ہیں یہ سمجھ کے کر لیتے اور کونسا دوسرا  فرق قائم کر لیتے ؟؟  فرشتہ بن کر یا گناہوں سے مکمل پاک ہو کر تو پھر بھی دکھا نہ پاتے ۔۔۔

Loading