اجنبی بیرسٹر
تحریر۔۔۔سید نوشاد کاظمی
(قسط نمبر1)
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اگست 2017
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ اجنبی بیرسٹر۔۔۔ تحریر۔۔۔سید نوشاد کاظمی)ہندوستان کے مرکز مہاراشٹر کے شہر ناگپور میں ایک ایسی ہستی نے جنم لیا جسے مسلمان ہی نہیں بلکہ تمام اقوام کے لوگ اپنا بزرگ مانتے ہیں۔ خود ناگپور کا مہاراجہ جو مرہٹہ خاندان سے تھا، اس ہستی کا بہت بڑا معتقد ہوا۔ اس عظیم روحانی ہستی کو دنیا بھر میں حضرت باباتاج الدین اولیا ؒ کے نام سے یاد کیاجاتاہے ۔ برصغیر پاک و ہند کے مشہور بزرگ، غمزدہ و بے نوا طبقہ کے دکھوں کا درماں ، شہنشاہ ہفت اقلیم حضرت بابا تا ج الدین ناگپوری کی زندگی کے ایک گوشہ کا احوال
گھاس پھونس کی بنی، گنبد نما چھت والی جھونپڑی کے داخلی راستے کے بائیں جانب مونجھ کی چارپائی بچھی تھی، جس کا چوکھٹا بڑے بڑے بے ڈول ڈنڈوں سے بنا ہوا تھا۔ چارپائی پر تہمند سمیٹے ، پگڑی باندھے آلتی پالتی مار کر بیٹھے سانولی رنگت کے موٹے سے گول مٹول شخص کو جھونپڑی کے عقب میں اُگے برگد کے دیو ہیکل درخت کی ٹھنڈی چھاؤں نے راحت کا سامان میسر کر رکھا تھا ….
چارپائی سے دس پندرہ فٹ کے فاصلے پر بنے مٹی کے چولہے کے پاس ‘‘تندیب’’ نہایت پریشان و مضطرب بیٹھی تھی۔ دھوپ کی تمازت اب کافی بڑھ چکی تھی، لیکن برگد کے گھنی چھاؤں نے جھونپڑی اور اس کے مکینوں کو اپنی آغوش میں لے کر سورج کی حدت سے بچا رکھا تھا۔ چارپائی پر بیٹھے شخص کے چہرے سے بھی گہرے غم و اندوہ کے آثار ہویدا تھے۔ بجھے چولہے پر دھری خالی سیاہ کالی دیگچی کا ڈھکن زمین پر الٹا پڑا تھا، جس پر ابلے ہوئے سوکھے چاولوں کو ایک چڑیا اکھیڑنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ تندیب جو گھٹنوں میں سر دابے عمیق سوچ میں مستغرق چولہے کی باگر میں پڑی مدتوں سے ٹھنڈی ہو جانے والی راکھ میں انگلیاں پھیر رہی تھی۔ اچانک گردن گھما کر چارپائی پر بیٹھے ہوئے شخص کو مخاطب کرکے بولی۔
‘‘ رامن! ایک کام کرو …. ہمارا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ ہمیں ہماری زمین واپس مل سکتی ہے’’۔
تندیب کی آنکھوں میں جہاں چند گھڑیاں پہلے نا امیدی و یاسیت کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ اب امید و یقین کے دئیے جگمگانے لگے تھے۔
‘‘کس طرح ؟ …. کیسے ؟ …. کیا تیرے ہاتھ میں الہ دین کا چراغ آگیا ہے؟ ’’
چارپائی پر بیٹھے رامن نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
‘‘ہاں …. ہاں …. الہ دین کا چراغ نہیں بلکہ جگمگاتا سورج ہیں ۔جس سے سب کی امیدیں بر آتی ہیں۔ خوشیو ں کے دئیے دمکنے لگتے ہیں ’’۔
یہ کہتے ہوئے تندیب کے چہرے پر شادمانی و سرشاری اُبھر آئی ۔
‘‘ پہلیاں نہ بجھوا …. سیدھی بات بتا …. تو کیا سمجھتی ہے کہ ساہوکار ہماری رہن والی زمین واپس کر دے گا؟؟…. کسی صورت بھی نہیں کرے گا۔ اس نے ڈی سی کے ہاں زمین کی ملکیت کی نالش کر رکھی ہے …. ہم غریب، بے آسر ا و بے سہارا لوگ کیسے مقدمہ لڑ سکتے ہیں …. جس کی لاٹھی اس کی بھینس …. زبردست کا ٹھینگا سر پر …. زبردست کے آگے پیش نہیں چلتی …. افسوس …. ہماری زمین بھی گئی ، بیل بھی گئے…. ہمارے پلے تو ککھ نہ رہا …. بری طرح لٹ گئے ہم ۔ بھلا جس کے پاس اپنی زمین نہ ہو، مویشی نہ ہوں ، بھینس نہ ہو، بیلو ں کی جوڑی نہ ہو، اس شخص کی زندگی بھی کوئی زندگی ہوتی ہے…..؟ ؟ ’’
چارپائی پر بیٹھے رامن نے الجھن و پچھتاوے کے عالم میں گھٹنوں پر اپنے دونوں ہاتھ مار کر روہانسیصورت بنا کرکہا۔
‘‘ ارے …. ارے …. میری سن …. پریشان نہ ہو…. ہمارے ہاں جلد ہی لکشمی ڈیرے ڈالنے والی ہے …. ہمارے نصیب جاگنے والے ہیں …. پھر بھلے دن آئیں گے …. ہمارے پنڈ میں اوتار آئے ہیں ….میں بھی ان کے چرنوں کو چھوکرآئی ہوں ۔
وہ کنویں کے پاس جو آمو ں کے پیڑ ہیں …. وہاں کسی نہ کسی پیڑ کے نیچے دھونی رما کر بیٹھے رہتے ہیں …. تو ان کے پاس اپنی فریاد لے کر جا ۔ ‘‘ہماری گروی زمین ہمیں واپس مل جائے گی’’۔
‘‘ آخر وہ ہیں کون؟ ؟ ….’’ رامن نے چارپائی سے اٹھتے ہوئے نہایت متخیر لہجے میں تندیب سےپوچھا۔
‘‘با با تاج الدین ’’۔ تندیب سرشاری سے بولی۔
‘‘ کمال کرتی ہے تو …. وہ تو دوسرے دھرم کے ہیں ۔ ان کے پاس میں کیسے چلا جاؤں ؟؟؟’’۔
‘‘ وہ مسلمانو ں کے دھرم کے ہیں ، تو پھر کیا ہے؟ …. مرہٹہ راجہ جی نے بھی تو انہیں اپنے محل میں ٹھہرایا رہا …. مہاراجہ جی روزانہ خود ان کی قدمبوسی کرتے تھے …. کیا راجہ جی کا دھرم بھشٹ ہو گیا؟؟ …. تو ان چکروں میں نہ پڑ …. میری سن ! …. اور ابھی سے جا …. وہ کسی آم کے پیڑ کے نیچے ہی بیٹھے ہوں گے …. بس اس وقت تک ان کے پاس سے نہ اٹھنا، جب تک ہماری رہن شدہ زمین ہمیں مل نہیں جاتی ….’’
کافی وقت رامن اور تندیب کے مابین تکرار ہوتی رہی۔ رامن کے نزدیک تندیب کی باتیں فضول تھیں …. وہ نامی گرامی سادھوؤں کے پاس جاچکاتھا۔ مگرکہیں سے بھی کچھ حاصل نہ ہوا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ ساہوکاروں کو تو سادھوؤں اورپنڈتوں کی تائید و حمایت بھی حاصل تھی۔ صرف رامن جیسے لوگ ہی زمین پر بوجھ تھے ، جنہیں دھرم کے علمبرداروں کے بقول بھگوان نے بھی ملیچھ بنادیا تھا ….
تاسف، غم، محرومی ،بے بسی ، بے بضاعتی اوربے توقیری نے رامن کو ریزہ ریزہ کر دیا تھا اور وہ اندر سے ٹوٹ کر بکھر چکا تھا۔ تاہم آخری کوشش کے طور پر اس نے تندیب کے اصرار پر حضرت بابا تاج الدین ناگپوریؒ کی خدمت میں حاضر ہونےکافیصلہ کر لیا۔
بابا صاحب کو تلاش کرتے کرتے رامن بہت تھک چکا تھا۔ غضب کی گرمی میں اس کا لباس پسینے سے بھیگ گیا تھا۔ بابا تا ج الدینؒ کا کوئی ایک ٹھکانہ نہیں تھا …. و ہ کبھی ایک درخت کے نیچے ہوتے تھے اور کبھی دوسرے درخت کے نیچے …. مسلمان فقیروں کاکچھ پتہ نہیں چلتا تھا، جدھر جی چاہا نکل گئے۔ وہ چاشت کے وقت گھر سے نکلا تھا اور اب دوپہرڈھل چکی تھی …. سورج آگ برسا رہا تھا اور را من کے دل میں بھی آگ بھڑک اٹھی تھی، جس کے الاؤ لمحہ بہ لمحہ بڑھتے ہی چلے جا رہے تھے۔ اس کے اندر بغاوت اور مسلسل بغاوت کے تیز جذبات ابھر رہے تھے۔ مذہب سے اس کا یقین اٹھ چکاتھا۔ آخر دنیا میں ہر بڑا آدمی چھوٹے آدمی کوکھا کیوں رہا ہے …. بڑے بڑے جاگیردار ، زمیندار، ساہوکار، مہاجن وسیع و عریض زمینوں کے مالک چھوٹے موٹے کاشتکاروں ، محنت کاروں اور کسانوں کی زمینیں ہتھیا کیوں لیتے ہیں ۔ ان کی ہوس تو کسی طرح پوری نہیں ہوتی اور انہیں مذہبی لوگوں سے تحفظ بھی حاصل رہتا ہے …. کیا اوتار، سادھوؤں کی یہی تعلیمات ہیں ؟؟؟ ….کیا انہیں یہ سب کچھ دکھائی نہیں دیتا…..؟؟
وہ اپنے دھرم پر غور کرتا رہا …. غور کرتارہا …. اسے کچھ سجھائی نہ دیا۔ عقل عاجز آگئی …. ساہوکار جس نے اس کی زمین رہن رکھی تھی، اس کے ہی دھرم کا تھا۔ پھر یہ ظلم آخر کیوں ؟؟ …. اتنی عدم مساوات کیوں ؟؟۔ بھگوان تو سب کاہے۔ سب اسی کی پیدائش اورمخلوق ہیں …. پھر بھگوان نے مظلوموں ، بے نواؤں ، بے سہاروں اور بے آسروں کاحق غصب کرنے والوں اور انہیں کچل کر رکھ دینے والوں کو اقتدار ، طاقت، عزت و شرف کیوں دے رکھا ہے؟ …. رامن تھا تو ان پڑھ، لیکن کچھ معاملہ فہم بھی تھا …. کئی سو سالوں سے مسلمان بھی اسی دیش میں رہ رہے تھے مگر کئی مسلمانوں کے ہاں بھی وہ سب کچھ رائج تھا، جو ہندؤوں کے ہاں تھا۔
گو مسلمان مساوات کا درس دیتے تھے، کہتے تھے ہم سب برابر ہیں ، لیکن عملی طور پر ایسا کوئی مظاہرہ رامن نے نہیں دیکھاتھا …. گو ان کے ہاں ذات پات نہ تھی، لیکن اس کی خاموش و بے نام شکلیں موجود تھیں۔
ہندو ہوں یا مسلمان، جاگیردار ، ساہوکار ایک جیسی خصلت و عادات رکھتے تھے …. غاصب ، ظالم اور مکار۔ یہ اگرہمدردی کااظہار بھی کرتے تو اس کے پیچھے بھی ان کی کوئی غرض مخفی ہوتی تھی۔ زمیندار مسلمانوں کے ہاں بھی کئی لوگوں نے کم و بیش وہی۔۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اگست