Daily Roshni News

اجنبی بیرسٹر….تحریر۔۔۔سید نوشاد کاظمی…(قسط نمبر2)…بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اگست 2017

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ اجنبی بیرسٹر۔۔۔ تحریر۔۔۔سید نوشاد کاظمی)
رامن کے دل و دماغ میں طوفانوں کے جھکڑ چل رہے تھے۔ کیا بھگوان کی تعلیمات یہی ہیں ، اس کے اندر مذہب بیزاری اورشکوے شکائتوں کے جذبات بگولوں کی شکل اختیار کر چکے تھے ….
بھلا یہ کیسا قانون ہے کہ قرض کے عوض رہن رکھی گئی زمین قرضہ چکا دینے کے بعد بھی اسے نہ مل پا رہی تھی۔ وہ اور اس کا بھائی کوڑی کوڑی کے محتاج ہو چکے تھے۔ اب زندگی کی قوت بھی اس سے چھن رہی تھی…. وہ اور اس کی بیوی دوسروں کی زمینوں پر کولہوکے بیل کی طرح دن رات کام میں جتےرہتے ….
مگر حالت یہ تھی کہ بمشکل ایک وقت کاکھانا نصیب ہوتا …. بھگوان توسب کی ضرورت کے مطابق غلہ پیدا کرتاہے…. آخر اس کا حصہ کون ڈکار جاتا ہے؟؟ ….اور کیوں اسے نہیں مل پاتا؟ …. برسوں کی محنت شائقہ کے باوجود ان کے پاس ایک وقت کے کھانے کے سوا کچھ بچ نہ پاتا تھا اور دوسرے وقت فاقہ پڑتا تھا …. قرضہ جو رامن اور اس کے بھائی نے اصل رقم سے تین گنا زیادہ ادا کر دیا تھا،لیکن سود مرکب کی وجہ سے یہ رقم نہ صرف جوں کی توں موجود تھی بلکہ مزید بڑھی ہی چلی جارہی تھی۔
اپنے دھرم سے وہ بیزار ہو ہی چلاتھا، لیکن مسلمان زمینداروں میں بھی اس نے یہی کچھ دیکھا تھا …. اس کے ساتھ کام کرنے والے اکثر مسلمان کاشتکاروں اورمحنت کاروں کی حالت بھی اس جیسی ہی تھی، بلکہ اس سے بھی بدتر و فروتر۔ کچھ مسلمان نواب تھے، جاگیر دار تھے، لیکن نچلے محروم طبقہ کے مسلمانوں کی حالت زار اچھوتوں سے ملتی جلتی تھی …. اگرکچھ فرق تھا تو صرف یہ تھا کہ انہیں ان کے دھرم والوں نے اچھوت اور ملیچھ کا نام نہیں دیا تھا …. ورنہ تھے تو دونوں ایک جیسے …. رامن کے جذبات میں غصے کا عنصر اب پوری طرح حاوی ہو چکاتھا …. غصے سے اس کابدن تن گیا …. خون کی گردش تیز ہو گئی …. لیکن پھر وہ رونے لگا …. غصہ کے جذبات ٹھنڈے پڑتے گئے ….
جب اس کے جذبات کا جھکڑ کچھ سرد پڑا تو اس نے ایک آم کے پیڑ کے سایہ میں کھڑے ہو کر آنکھوں میں اتر آنے والا پسینہ پونچھا اور پھر جو سامنے دیکھا تو ایک پیڑ کے نیچے چند لوگ بیٹھے ہوئے نظر آئے۔ وہ جلد جلدی آگے بڑھا تو قریب پہنچنے پر تندیب کے بتائے گئے حلیے پر اس نے حضرت بابا تاج الدین کو پہچان لیا۔ ان کے چہرے پر نگاہیں پڑتے ہی رامن کے دل میں ہوکیں اٹھنے لگیں اور وہ ان کے قدموں میں پڑ کر بلک بلک کر رونے لگا ….
پاس بیٹھے ہوئے لوگ بھی حیران وششدررہ گئے۔
بابا تاج الدین ناگپوریؒ نے فرمایا۔
‘‘ کیوں روتاہے رے؟ …. مل جائے گی تیری زمین …. مل جائے گی’’
پھر انہوں نے اسے دلاسہ دیا تو بے تاب و مضطرب رامن کو قرار سا آگیا۔ اسے کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہ پڑی تھی۔ بابا تاج الدین بغیر کچھ بتائے سب کچھ جان گئے تھے …. وہ چپ چاپ خاموش ان کے پاس بیٹھا رہا …. اور جب مجلس برخواست ہوئی تو بابا تاج الدین نے زور دار لہجے میں اسے مخاطب کرکے ڈانٹتے ہوئے فرمایا۔
‘‘ جا …. توبھی چلا جا …. اپناکام کر’’
رامن تو گھر سے ہی ان کا ساتھ نہ چھوڑنے کاتہیہ کرکے آیا تھا …. بھلا وہ کب جانے والا تھا…. ان کی بار بار کی ڈپٹ سے بھی وہ گھر نہ گیا۔ حتیٰ کہ پوراایک ہفتہ گزر گیا …. وہ سائے کی طرح ان کے ساتھ ساتھ لگا رہتا۔
حالات کاستایا ہوا شخص آسانی سے نہیں مانتا …. تلخ و تند تجربات زندگی اس کے اندر حقائق جاننے کی جستجو پیدا کردیتے ہیں …. وہ زندگی کی صداقتوں میں اتر کر انہیں کھولنا چاہتا ہے۔ اس کے دل کا غبار اور طوفان آہستہ آہستہ بیٹھتا ہے۔ …. اسے کوئی رام نہیں کر سکتا۔ صرف نبض شناس کسی کامل فقیر کی نگاہ کیمیا سے ہی اس کے دل کی صداقت کا بیج تناور درخت بن سکتاہے۔ ورنہ دل کی گہرائیوں میں حقائق و صداقتیں جاننے کا جذبہ، کارل مارکس، نطشے اور ہیگل جیسے لوگ پیدا کرتا ہے ، جن کے افکار آفاقی و ابدی صداقتوں کو مسخ و مبہم کر دیتے ہیں ….
بابا تاج الدین ناگپوریؒ نے متعدد بار اسے سختی سے کہا کہ وہ چلا جائے مگر وہ اپنی ضد پر ڈٹا رہا ….
ایک دن حضرت بابا تاج الدین ناگپوریؒ کوجلال آگیا۔ انہوں نے اسے آم کے ایک پیڑ کے نیچے بٹھا کر جلالی لہجے میں فرمایا۔
‘‘ تو قتل ہونے آیا ہے نا …. اس درخت کے نیچے بیٹھ جا ….اٹھنا نہیں ….اگر اٹھا تو میں تجھےمارڈالوں گا’’۔
بابا تاج الدین ناگپوری کے لہجے میں اتنا زیادہ اثر تھا کہ رامن درخت کے نیچے کسی پتھر کی طرح جم کر رہ گیا اور تھر تھر کانپنے لگا۔ بابا تاج الدین متواتر تین دن تک اس کی خبر گیری کرتے رہے اور تنبیہ کرکے چلے جاتے کہ
‘‘ خبردار …. یہاں سے ہلنا نہیں ….
یہیں بیٹھارہ ’’۔
چوتھے دن بابا تاج الدین اسے تنبیہ کرکے اسی درخت کے سائے میں چادر اوڑ ھ کر لیٹ گئے …. چند ہی ساعتیں گزری تھیں کہ رامن کا بھائی اسے تلاش کرتا ہوا آیا اور دور سے ہی ‘‘ رامن بھائی …. رامن بھائی ’’ پکارنے لگا۔ آواز سن کر رامن اپنی جگہ پر ہی کھڑا ہوگیا، آگے نہیں بڑھا ۔ بابا تاج الدین کے احکامات اس کے ذہن میں نقش ہو کر رہ گئے تھے۔ رامن کے بھائی نے جب اسے دیکھا تو وہ خوشی سے دوڑتا ہوا اس کی طرف آیا اور اس سے لپٹ گیا۔
رامن کے بھائی نے کہا کہ ‘‘ وہ کئی دنوں سے اسے تلاش کرتا پھررہا ہے۔ ہماری رہن والی زمین ڈی سی نے ہمیں ساہوکار سے واپس دلا دی ہے۔ ساہوکار کا دعویٰ ڈی سی نے مسترد کر کے ہمارے حق میں فیصلہ سنا دیا ہے اور میں نقل حکم بھی لے چکا ہوں ….’’ پھر رامن کے بھائی نے نہایت خوشی اور حیرت کے ساتھ رامن کو مخاطب کیا۔
‘‘چند دن قبل ہمارے گھر ایک ‘‘ اجنبی بیرسٹر’’ صاحب آئے اور انہوں نے پوچھاکہ‘‘ کیا تمہارا کوئی مقدمہ ہے؟؟’’ ….میں نے انہیں بتایا کہ ساہوکار ہماری زمین پر قابض ہے اور اس نے ڈی سی کے ہاں اپنی ملکیت کا دعویٰ دائر کر رکھا ہے۔ ہم مفلس اور نادار لوگ وکیل بھی نہیں کر سکتے۔ ہمارے پاس وکیل کی فیس کے پیسے بھی نہیں ہیں ۔ ’’
میری بات سن کر بیرسٹر صاحب بولے۔
‘‘ لاؤ زمین کے کاغذات مجھے دو میں تمہارا مقدمہ لڑوں گا اور فیس بھی نہیں لوں گا’’۔
چنانچہ میں نے کاغذات زمین ان کے حوالے کر دئیے۔ انہوں نے اپنی پہلی ہی پیشی پر مسلسل آدھا گھنٹہ بحث کی۔ ان کی بحث پر ڈی سی از حد متاثر ہوا اور ساہوکار کا دعویٰ خارج کرکے فیصلہ ہمارے حق میں دے دیا ….
بیرسٹر صاحب بحث کے بعد کہیں چلے گئے۔
دوسرے دن میں نے ‘‘نقل حکم’’ لی اور بیرسٹر صاحب کو بہتیرا تلاش کیا مگر کسی سے ان کا اتا پتا نہ معلوم ہو سکا۔ کوئی وکیل ان کو نہیں جانتا تھا۔ پھر تمہاری تلاش شروع کی اور آج تیسرے دن تمملےہو’’۔
بھائی کی باتیں سن کر رامن ہکا بکا رہ گیا اور حیرت کے عالم میں کبھی اپنے بھائی اور کبھی چادر لپیٹے لیٹے ہوئے حضرت بابا تاج الدین کو دیکھنے لگا ….
چند ثانیوں بعد بابا تاج الدین نے چہرے سے چادر ہٹائی تو رامن کا بھائی پکار اٹھا….
‘‘ یہی ہیں …. یہی ہیں …. بیرسٹر صاحب یہیہیں ’’۔
بابا تاج الدین ناگپوری نے دونوں بھائیوں کی طرف نظریں بھر کر دیکھا اور فرمایا۔
‘‘ یہ سب اللہ کی کرپا ہے رے’’
ان کے لہجے میں کچھ اس قدر سوز و اثر تھا کہ رامن کا دل سوزو محبت، مسرت و شادمانی، احساس ممنونیت و نیازیت سے لبا لب بھر گیا۔ اس کی آنکھیں چھلک پڑیں اور بے ساختہ وہ بابا تاج الدین کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ دھرانے لگا۔
‘‘ سب اللہ کی کرپا ہے رے ’’۔
رامن کے بھائی کی زبان کچھ پتھرائی اور اس کے لبوں سے بھی یہی الفاظ ادا ہوئے۔ رامن بابا تاج الدین ناگپوری سے رخصت ہو کر اپنے بھائی کے ہمراہ خوشی خوشی گھر جاتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ تندیب نے غلط نہیں کہا تھا۔
بابا تاج الدین چراغ نہیں سورج ہیں …. اس دھرتی پر اوتارہیں ۔ جن کی ذات کی روشن و منور کرنوں سے ظلمتوں اور گھٹاؤں میں بھی جگمگاتے دئیے روشن ہو جاتے ہیں اور جن کی کرنیں ہر سو جگمگ کرتی بکھر رہی تھیں ۔
آنے والے چار پانچ برسوں میں لوگوں نے دیکھا کہ رامن اپنا دھرم بدل کر‘‘خیر بخش’’ بن گیا تھا، جس نے اپنے محلہ میں مسجد تعمیر کروا لی تھی اور جو بے نوا و درماندہ، محنت کش،ہندو مسلم آبادی کے دکھوں کا مشترکہ مداوا بن چکا تھا۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اگست 2017

Loading