ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔تحریر۔۔۔عبدالوحید نظامی )اہرام یا پیرامڈ (Pyramid) ایک ایسا عجوبہ ہے جو انسانی عقل و شعور اور جدید علوم کے لیے معمہ بنا ہوا ہے، اہراموں کی تعمیر دنیا کی سب سے پراسرار، قدیم اور مافوق الفطرت تعمیرات میں شمار ہوتی ہیں۔ تاریخی روایات میں اہراموں کو سب سے پہلے حضرت ادریس علیہ السلام اور ان کے بعد حضرت یوسف علیہ السلام کے بنوانے کا نام آتا ہے، اہراموں کے اسرار و رموز پر ہزاروں سال سے محققین، سائنسدان، مورخین اور روحانی اہلِ علم غور وفکر کرتے آئے ہیں۔ خاص طور پر مصری اہرامِ ثلاثہ (Pyramids of Giza) کو آج بھی انسانی عقل حیرت سے دیکھتی ہے۔ سائنسی علوم کی مختلف شاخیں، انجینئرنگ، آرکیٹیکچر، ریاضی، فزکس، مکینکس، علم الاعداد اور علم حروف اس پر خاموش ہیں
اہرام کی تعمیر میں استعمال ہونے والے پتھر کئی ٹن وزنی ہیں، جنہیں اُس دور کی ٹیکنالوجی کے بغیر بلند کرنا اج بھی معمہ ہے۔ پیمائش اور زاویوں کی درستگی اتنی حیران کن ہے کہ آج کے جدید آلات بھی اس مشکل کو حل نہیں کرسکتے۔ اہراموں کی تعمیر کا تعلق فلکیات سے بھی جوڑا جاتا ہے
اہرام کی سمتیں بالکل چاروں طرف (شمال، جنوب، مشرق، مغرب) کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ ان میں داخلے کا راستہ شمالی سمت میں ہےجو مقناطیسی توانائی سے منسلک کرتا ہے۔
محققین کے مطابق یہ ستاروں خصوصاً “Orion” بیلٹ کے ساتھ ہم آہنگی رکھتے ہیں۔
بعض سائنسدانوں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اہرام ایک قسم کا توانائی جمع کرنے والا آلہ ہیں، جو زمین کی ارتعاشی توانائی کو اپنی مخصوص شکل کے ذریعے مرکوز کرتے ہیں۔
بعض صوفیاء اور روحانی اسکالرز کا خیال ہے کہ اہرام کی شکل باطنی کائناتی علم اور روحانی ارتقاء کی علامت ہے۔ جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اگر مادے کو ایک نقطے پر مرکوز کر دیا جائے تو انرجی یا روح میں داخل ہوا جاسکتا ہے، روحانی نقطہ نظر سے تکون (Triangle) کا اوپر کی طرف زاویہ عروجِ روح اور خدا کی طرف سفر کو ظاہر کرتا ہے۔
اہرام میں استعمال ہونے والے تناسب اور زاویے علمِ ہندسہ اور علمِ اعداد کے انتہائی گہرے رموز پر مبنی ہیں۔ جیومیٹری کی رو سے اس کا زاویہ 87۔51 ڈگری بنتا ہے،
ان کا تعلق طلائی نسبت (Golden Ratio) اور فلکیاتی اعداد سے بھی بتایا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص اہرامی شکل کی بلڈنگ کے اندر بیٹھ کر مراقبہ کرے تو اُس کی توجہ، دماغی سکون اور روحانی قوت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ ہزاروں سال سے موجود کھانے پینے والی اشیاء محفوظ رہتی ہیں بلکہ ان کے اندر غذائی اور شفائی اثرات بڑھ جاتے ہیں، گندم، شہد، سبزیاں پھل اور دیگر اجناس پیرامڈ میں خراب نہیں ہوتے، حضرت یوسف علیہ السلام کے پیرامڈ گوداموں میں سات سال تک گندم کا ذخیرہ محفوظ رہا۔
اہراموں کا وجود اپنے اندر علم و حکمت کا کتب خانہ ہیں اور روحانی ارتقاء کے مراکز ہیں، جن کا مطالعہ نت نئے علوم وایجادات کی بنیاد بنا ہوا ہے، اس میں چھپی علامتیں دائرہ اور تکون کے نظریے سے بھی جڑی ہیں، کتاب “نظریہ دائرہ و تکون” اپ پڑھ چکے ہیں۔
اہرام صرف ایک تاریخی عمارت نہیں، بلکہ انسانی عقل، فلکیات، ریاضی اور روحانی اسرار کا حسین امتزاج ہیں۔ اہرام (Pyramid) اور نظریہ دائرہ و تکون کا آپس میں تعلق انتہائی گہرا ہے، کیونکہ اہرام کی اصل رمز ہی تکون اور دائرہ میں چھپی ہوئی ہے۔ اہرام کی چاروں اطراف کی دیواریں مساوی الساقین تکون (Isosceles Triangle) کی شکل میں ہیں۔ ہر تکون کی چوٹی اوپر جا کر ایک نقطہ (Point) پر ملتی ہے، جو عروج و کمال کی علامت ہے۔
تکون میں تین زاویے ہوتے ہیں:
1۔ بنیاد (Base): مادّی دنیا، جسمانی زندگی۔
2۔ دو پہلو (Sides): روحانی سفر اور علم کا راستہ۔
3۔ چوٹی (Apex): الوہیت اور کمالِ حقیقت۔
یعنی اہرام کی شکل ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ انسان مادی بنیاد سے سفر شروع کر کے روحانی عروج تک پہنچ سکتا ہے
اہرام کی تعمیر میں دائرے کا حساب چھپا ہوا ہے، اہرام کی اونچائی اور بنیاد کا تناسب اس طرح رکھا گیا ہے کہ اگر بنیاد کے اردگرد ایک دائرہ کھینچا جائے تو اُس کا محیط (Circumference) اور اہرام کی بلندی π (پائی) کے اصول کے قریب آ جاتے ہیں۔
اس میں “دائرہ اور مربع” کے باہمی تعلق کو ظاہر کیا گیا ہے۔
دائرہ کمال اور اکملیت کی علامت ہے، جبکہ تکون ارتقاء اور سفر کی علامت ہے ۔ نظریہ دائرہ و تکون کی رو سے اہراموں کا روحانی میکانزم یا فارمولا یہی بنتا ہے
دائرہ+ تکون = روحانی سفر+ منزل اس خا ارتقاء، تین جہات جسم، عقل اور روح ہے۔
۔ دائرہ و تکون کا اتحاد اہرام میں موجود ہے اسکے اندر انرجی ایک مخصوص مقام پر یعنی درمیان میں دائروں کی شکل میں کام کرتی ہے، اگر اوپر سے دیکھا جائے تو اہرام ایک مربع (Square) ہے جو زمین اور مادہ کی علامت ہے۔
اگر سامنے سے دیکھا جائے تو یہ تکون ہے جو عروجِ روح کی علامت ہے ، اور جب ان تناسبات کو ریاضی سے حل کیا جائے تو ان میں دائرہ کے اصول جھلکتے ہیں۔
یعنی اہرام دراصل دائرہ، مربع اور تکون کے امتزاج سے بنا ایک کامل نقشہ ہے جس پر تفکر کائناتی فارمولوں کا انکشاف کرتا ہے
دائرہ اللہ کی وحدانیت، ابدیت، لا محدود کائنات۔ کی علامت ہے اور
تکون: انسان کا سفر جسم (Base) نفس و عقل (Side روح (Apex)۔
اہرام = یہ سفر ایک کائناتی اور سائنسی فارمولا میں بند کر دیتا ہے۔
اس طرح اہرام صرف ایک عمارت نہیں بلکہ نظریہ دائرہ و تکون کی مجسم تصویر ہے۔