ماحولیاتی آلودگی
اور شہری مسائل کے حل
سیرت طیبہ سے رہنمائی
(قسط نمبر1)
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ نومبر2019
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ ماحولیاتی آلودگی اور شہری مسائل کے حل سیرت طیبہ سے رہنمائی)انسان کامل معلم اعظم نبی رحمت حضرت محمد رسول اللہ ﷺکی تعلیمات میں انسانوں کے سب مسائل کے لئے رہنمائی موجود ہے۔ معاملہ خواہ انفرادی ہو یا اجتماعی سیرت محمدی سے روشنی حاصل کر کے زندگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ حکومتی نظم و نسق ایک مشکل اور پیچیدہ کام ہے ۔ حکومت کے اولین کام امن و امان کا قیام اور عوام کو روزگار کی سہولتیں فراہم کرنا ہے۔
تعلیم، صحت، شہری منصوبہ بندی شہر میں اور شہروں کے درمیان راستوں کی تعمیر جیسے عوامی کام ہوں یا قانون کی پابندی کا احساس اجاگر کرنا ، والدین اولاد کے حقوق رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے حقوق کا خیال رکھنا، اساتذہ کی تکریم کاروبار اور دیگر معاملات میں سچ بولنا، پورا تولنا، ملاوٹ نہ کرنا جیسے معاشرتی اور اخلاقی معاملات ہوں تعلیمات نبوی سے حکومت اور عوام کے لیے ہر شعبے میں واضح اور قابل عمل رہنمائی ملتی ہے۔
قدرتی ماحول کا تحفظ بھی حکومت پر عوام کی مشترکہ ذمہ داریوں میں شامل ہے ۔ بیسویں اور اکیسویں صدی میں انسانوں کو در پیش کئی مسائل گزشتہ صدیوں کے مسائل سے بہت الگ ہیں۔ صنعتی ترقی اور شہروں کے بے ہنگم پھیلاؤ میں انسانی کو تاہیوں نے اس زمین پر آباد اٹھارہ لاکھ سے زائد انواع Species میں سے کئی ہزار کا وجود ہی مٹاکر رکھ دیا ہے. زمین پر ہزار ہا سال سے آباد دیگر کئی انواع آج اپنی بقا کے مسئلے سے دوچار ہیں۔ انسانوں کی اپنی خود غرضیوں اور بد اعمالیوں کی وجہ سے ہونے والی کئی ماحولیاتی تبدیلیوں ، غیر معیاری غذاؤں اکثر انسانوں کے بے ترتیب اوقات نے خود نوع انسانی کی صحت کے لیے سنگین خطرات پیدا کر دیے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ہماری رہائش گاہ مخطہ زمین کے وجود کو بھی آج کئی مخطرات کا سامنا ہے۔ حضرت محمد رسول اللہﷺکی تعلیمات پر ٹھیک طرح عمل کیا جاتا تو انسان کو آج ان مسائل کاسامنا ہی نہ ہوتا۔ موجودہ دور میں پچاس لاکھ سے زیادہ آبادی کے شہروں کی تعداد سینکڑوں میں چلی گئی ہے۔ بڑے شہروں میں ایک طرف تو لوگوں کو وسیع پیمانے پر روزگار کے مواقع ملتے ہیں لیکن ساتھ ہی اکثر بڑے شہروں میں کئی سماجی، معاشی، ماحولیاتی مسائل بھی بہت زیادہ ہوتے ہیں۔
ٹاؤن بلڈ نگ سے وابستہ ماہرین حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات سے رہنمائی لیں تو کئی شہری مسائل سے بچا جا سکتا ہے۔
زمین کے ماحول کے بنیادی حصے جس میں اس کی ساخت، فضا، پانی کے ذخائر اور زمین کو رنگینی اور غذائیت عطا کرنے والے نباتات اور دیگر حیاتیات شامل ہیں ایک دوسرے سے ایک ماحولیاتی توازن ایکو سسٹم کی زنجیروں سے جڑے ہیں۔ اس زنجیر کی ایک کڑی بھی متاثر ہونے سے ہر چیز اپنے توازن سے ہٹ جاتی ہے۔ اور نیا توازن بننے میں نہ صرف وقت لگتا ہے بلکہ وہ نئے مطالبات بھی رکھتا ہے۔ ام تعلق میں ہماری بے جامد اخلت زمین کو ہماری آنیوالی نسلوں کے لئے ناقابل رہائش اس تمام بنا سکتی ہے۔ فطری ماحول کی اہمیت و افادیت قرآن و حدیث میں کئی مقامات پر بیان کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے توازن میں بگاڑ سے منع فرمایا ہے: ترجمہ : ” آسمان کو اس نے بلند کیا اور میزان قائم کر دی اس کا تقاضہ ہے کہ تم میزان میں خلل نہ ڈالو ۔ [ سور در حمن آیت 7-8]
اگر انسان اس میزان اور توازن میں خلل ڈالے، انہیں برباد کرے، انہیں آلودہ کرے، تو اس کانتیجہ خود انسان کے لیے بہتر نہیں۔ فطرت سے جنگہ، میں شکست لازما انسان ہی کی ہو گی۔ انسان نے ماحول کو تباہ کرنے میں کوئی کسر ا پے نہیں رکھی۔ انسان اس زمین کو آلودہ کرنے میں ص حصہ دار تو ہے لیکن دھرتی کو آلودگی سے بچانے کے 1 لیے زیادہ سنجیدہ نظر نہیں آتا ۔ آج کی ماحولیاتی آلودگی انسان کی اپنی ہی حرکتوں کا نتیجہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ و خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا ہے انسان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔“سورہ حم السجدہ (41) : 71
صنعتی انقلاب، بڑے پیمانے پر جنگلات کی کٹائی وسیع پیمانے پر معدنی ایندھنوں کے جلنے کے نتیجے میں نے ہماری زمین پر گرین ہاؤس گیسوں اور گلوبل وارمنگ میں مسلسل اضافہ ہوتا ہے۔
ایکو سسٹم کا بگڑتا ہوا تو ازن ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ اوزون کی تہہ میں شگاف، گلوبل وارمنگ گرین ہاؤس ایفیکٹ، سونامی، گلیشیر کا تیزی سے پگھلنا، سمندر کی سطح بلند ہونا، ساحلی علاقوں میں خوفناک طوفانوں کا سلسلہ ، سیلاب، زلزلے اور طرح طرح کے خطرناک وبائیں اور امراض اس بگڑتے ہوئے توازن کا اظہار ہیں۔ دین اسلام نے انسان کے لیے پر سکون اور پر امن ماحول مہیا کرنے کا عملی بندوبست کیا ہے۔ قرآنی احکامات اور اللہ کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ کے سیرت اور اسلامی تعلیمات میں ماحول اور
معاشرے کے خامیوں کی اصلاح اور بہتر معاشرتی نظام قائم کرنے کے کئی اصول ملتے ہیں۔
ماحول اور صفائی:
قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں کئی مقامات پر طہارت، لطافت اور تزکیہ کے احکامات آئے ہیں۔ صفائی کو ایمان کا حصہ قرار دیا ہے الطهور و شطر الایمان” پاکی ایمان کا حصہ ہے “ نبی کریم صلی للی نام لیاتی نے فرمایا کہ صفائی نصف ایمان ہے۔ ہر قسم کی آلودگی اسلام کی نظر میں انتہائی ناپسندیدہ اور قابل رد ہیں۔ ان سے ماحول کو پاک و کے صاف رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اسلام نے ہر قسم کے ماحول کو پاک و صاف رکھنے کی تاکید کی ہے تاکہ انسان اس میں ذہنی، اخلاقی اور جسمانی طور پر خوش و خرم نظر آئے اور وہ زندگی آرام و سکون کے ساتھ گزارے۔ اللہ تعالیٰ تم پر کسی قسم کی تنگی ڈالنا نہیں چاہتا بلکہ اس کا ارادہ تمھیں پاک کرنے کا اور تمہیں اپنی بھر پور نعمت دینے کا ہے۔ تاکہ تم شکر ادا کرتے رہو۔ [ سورہ مائدہ:6] دھواں، آلودگی ، گلوبل وارمنگ اسلام انسان کو پیدائش سے لے کر موت تک صاف ستھرا رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اور اس میں انسانی جسم کی صفائی سے لے کر سوسائٹی ، گلی، محلہ اور اجتماعی صفائی کے احکامات بھی موجود ہیں۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے : ” مجھے اپنی امت کے اچھے اور برے اعمال دکھائے گئے۔ میں نے دیکھا کہ اچھے اعمال میں تکلیف دہ چیز کو راستے سے دور کرنا بھی شامل ہے …. نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ایمان کے ستر شعبے ہیں، پس اس میں سب سے افضل لا الہ الا الله اور سب سے ادنی راستے سے تکلیف دہ چیز کو دور کرناہے، اور حیا ایمان کا حصہ ہے۔ [مسلم]
رسول اللہﷺ نے فرمایا: لعنت کیے گیے لوگوں سے بچو ۔ صحابہ نے پوچھا یار سول اللہ ! وہ کون لوگ ہیں؟ فرمایا: وہ جو لوگوں کے راستے یا ان کے سایے کی جگہ میں غلاظت اور گندگی کرتے ہیں۔ [مسلم] اذیت زدہ چیزوں کی غلاظت میں گندگی، کانٹے، پتھر ، رکاوٹ، بول و براز، مردہ جانور وغیرہ سب شامل ہیں۔ اسلام نے ان اشیاء کو ہٹانا، راستے کو پاک و صاف رکھنا ایمان کی شاخ قرار دیا ہے۔ انسان جہاں بھی سکونت پذیر ہو وہ مقامات پاک صاف رہیں۔ سعد بن ابی وقاص فرماتے ہیں کہ رسول صلی السلام نے فرمایا: اللہ تعالی پاک ہے اور پا کی پسند کرتا ہے … پس تم اپنے گھروں کو صاف رکھا کرو۔ [مسند ابو یعلی ]
اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ شاہراہیں اور راستے محفوظ اور ہموار بنائے جائیں۔ نبی پاک ﷺ نے لوگوں کو گلیوں، راستوں ، سڑکوں اور شاہراہوں پر بیٹھے، رُکاوٹ پیدا کرنے اور بول و براز سے منع فرمایا۔ [ سنن ابن ماجہ ]
نبی پاک ﷺ کا فرمان ہے کہ گزر گاہوں کو تنگ و تاریک نہ رکھا جائے اور نہ انہیں بند کیا جائے۔ ایسے کاموں سے ماحول خراب ہوتا ہے اور لوگوں کے آرام میں خلل پڑھنے کا خدشہ ہوتا ہے۔
اللہ کے رسول حضرت محمد ﷺ کا فرمان ہے کہ مسلمان کی زبان اور ہاتھ (کی ایذا) سے دوسرے محفوظ رہتے ہیں۔ اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ہو سکتا، جس کا ہمسایہ اس کے شر سے محفوظ نہ ہوں۔ [ صحیح بخاری: صحیح مسلم]
حضرت معاویہ بن حیدہ سے روایت ہے کہ۔۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ نومبر2019