ہالینڈ (ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل) 2011۔ جیب خالی ، ڈراما لکھنے کی تیاری
آصف رضا میر نے کہا :
مولانا کبھی تو وقت پر آ جایا کریں
اظہر عزمی
یہ 2007 کی بات ہے خاندان غلاماں ( ملازم پیشہ ) کے ایک فرد نے کاروبار کا آغاز کیا ۔ جس سال دفتر کھولا ، اسی سال محترمہ بے نظیر بھٹو کو قتل کر دیا گیا ۔ ملکی معیشت کا پہیہ کیا بیٹھا ، ہم جیسے نئے کاروباری گھٹنیوں چلنے چلتے رک گئے ۔ کچھ حالات کی شام ظریفی اور کچھ ہمارے کاروباری تجربات میں کمی ۔۔۔ چار سال تک کاروبار گھسیٹا لیکن بات نہ بن پائی ۔
2011 میں مالی معاملات دگر گوں ہوتے گئے ۔ سوچا کیا کریں ۔ ڈراما لکھ لیتے ہیں ۔ کچھ پیسے کما کر گھر کا دال دلیہ چلا لیں گے ۔ NTM کے زمانے میں بقر عید کا خصوصی مزاحیہ کھیل ” قربان جائیے ” لکھ چکے تھے ۔ اسی طرح 1999 میں پی ٹی وی کے لیے ایک سٹک کام سیریل ” آگے آگے دیکھئے ” ضبط تحریر میں لا چکے تھے ۔ آصف رضا میر بلیزن میں ہمارے باس تھے ۔ اب وہ A & B پروڈکشنز کے تحت متعدد ڈرامے بنا کر ملک کے بڑے ٹی وی چینلز کو دے رہے تھے ۔
ہم نے ایک دن آصف صاحب کو کال کی ، بات ہوئی ، مدعا بیان کیا ، بولے : مولانا دو روز بعد 3 بجے آ جائیں ۔ اپنے ساتھ ڈراموں کے ون لائنرز ( بنیادی خاکہ) لے آئیے گا ۔ ہم فارغ آدمی ایک امید کی کرن نظر آئی ، دل لگا کر کچھ ون لائنرز لکھے اور مقررہ وقت سے آدھے گھنٹے بعد پہنچ گئے۔ زندگی اور موت کہ جس پر کسی کا کوئی اختیار نہیں ، ہم امتحانی سینٹرز کے علاوہ کبھی وقت پر نہیں پہنچے ۔
خیر A & B پروڈکشنز کے دفتر پہنچے تو باہر گاڑیوں کے ساتھ اتنی موٹر سائیکلیں کھڑی دیکھیں کہ کسی کورئیر سروس کے دفتر کا گمان ہوا ۔ اندر گیا تو عجب گہما گہمی کوئی شوٹنگ کے لیے نکل رہا تھا تو اداکار آ جا رہے تھے ۔ ہم نے سوچا اتنے مصروف لوگوں میں مجھ جیسا بے مصرف آدمی کا کیا کام ! ون لائنرز کے کاغذات گول کیے ہوئے ہاتھ میں تھے جن پر ہاتھ کا پسینہ گھبراہٹ کی کہانی سنا رہا تھا ۔ ریسیشنسٹ کو آنے کا بتایا تو بولی : آپ بیٹھیں ۔ ہم بیٹھ تو گئے لیکن اس نے آصف صاحب کو ہمارے آنے کا نہ بتایا یا ہم یہی سمجھے ۔
اب ا ن ت ظ ا ر کی لمبی گھڑیاں آہہنچی تھیں ۔ مجھ جیسے کسی بھی نفسیاتی آدمی کے لیے سب سے کٹھن کام ریسیشنس پر انتظار کرنا ہوتا ہے ۔ کوئی آئے اور اسے فورا اندر بلا لیا جائے تو جی چاہتا کہ یہاں سے نکل بھاگو اور جب وہ شخص جاتے ہوئے آپ پر ایک نظر ڈال لے تو لگتا جیسے کسی نے سینے میں خنجر اتار دیا ہو ۔ دفتر کا پیون خود سے ہزار گنا بہتر لگتے ہے کہ وہ جب چاہے اندر باہر جا سکتا ہے ۔ آپ کو مستقل یہ وہم کھا رہا ہوتا ہے کہ سب آپ کو انتظار کرتا دیکھ رہے ہیں ۔ گھڑی کی سوئی اس انتظار کی کیفیت میں گلے میں چھبتی محسوس ہوتئ ہے ۔ ریسیشنسٹ اگر چائے پانی کا پوچھ لے تو گردن سے زیادہ شرٹ کا کالر اکڑ جاتا ہے ۔
ماحول سے پیدا ہونے والی وقتی احساس کمتری ذہن میں شک کی سائیکل چلانا شروع کردیتی ہے جس کا ہینڈل جب جہاں چاہے گھوم جاتا ہے ۔ خوش شکل و لباس پرفیوم میں نہائے ، انگریزی زدہ لوگ دکھیں تو ویسے ہی اپنی شکل ، لباس اور پسینہ زہر لگنے لگتا ہے اور یہاں یہ زہر کھلے عام میسر تھا ۔ بے وقعتی کی قنات ذہن میں لگنا شروع ہو جاتی ہے جس میں ہم اکیلے فروکش ہوتے ہیں ۔ ہاتھ میں گول کیے کاغذات کہہ رہے ہوتے ہیں : آپ کے ساتھ تو جو کچھ ہونا ہے ، وہ اپنی جگہ ہمیں کیوں ذلیل کرانے پر تلے ہیں ۔
خاصا وقت گزر گیا اب برداشت نہ ہوا ۔ ریسیشنسٹ سے کہا کہ کیا آپ نے ” اظہر عزمی صاحب ” کی آمد کا صاحب کو بتایا ہے تو بولی : سر آصف صاحب مصروف ہیں ۔ فارغ ہوتے ہیں تو بلاتے ہیں ۔ اس نے سر کہا تو گویا سر سے پیر تک B positive بلڈ کی ایک بوتل جسم میں انڈیل دی اور ہم پھر کرسی پر براجمان ہوئے ۔ اب ماحول سے پہلی جیسی اجنبیت ختم ہو رہی تھی ۔ ایک نو آموز فنکار ساتھ آ بیٹھے تو ہم نے وقت گزاری کے لیے ان سے بات چیت شروع کر دی ۔ اندازہ ہوا کہ وہ تو ہم سے زیادہ گھبرایا ہوا ہے ۔ ہم نے فورا اس کو زندگی میں اعتماد کی دولت پر ایک لیکچر دے دیا ۔ اعتماد کا یہ لیکچر دراصل ہم خود کو دے رہے تھے ۔
اس کا نمبر آیا تو وہ چلا آ گیا ۔ اب ہم پھر اکیلے ہو گئے ۔ بس سب کو آتا جاتا دیکھ رہے تھے ۔ ابھی ذہن اسی شش و پنج میں تھا کہ آصف صاحب خود ہی نیچے تشریف لے آئے ۔ مخصوص مسکراہٹ اور بلیزن والا جملہ دہرایا : مولانا کبھی تو وقت پر آجایا کریں ۔
سالوں بعد آصف صاحب کی پرانی بے تکلفی دیکھ کر دل بڑا ہو گیا ۔ آصف صاحب کے جملے میں ہلکے سے طنز کے ساتھ بے تکلفی کی جو اپنائیت بھری چاشنی ملی ہوتی ہے ، اسے صرف وہی جان سکتا ہے کہ جو ان سے ملتا رہا ہو ۔ میں نے ریسیشنسٹ کو دیکھا تو وہ بھی اس بے تکلفی پر حیران تھی ۔ ہم نے بھی دل میں سوچا کہ تم کیا سمجھ رہی تھیں ، ہم کوئی ملازمت کے چکر میں آئے تھے کیا ؟ ۔
آصف صاحب وہیں میرے ساتھ بیٹھ گئے اور بولے : مولانا کیا لے آئے ؟
میں نے کہا : سر بہت لمبا انتظار کرا دیا ۔
کہنے لگے : جو آپ کا وقت تھا اس پر تو آپ آئے نہیں ۔ شکر کرو وہ صاحب جلدی چلے گئے اور ویسے بھی کچھ دیر پھر ایک میٹنگ طے ہے ۔
میں نے کہا : چلا جاتا ہوں ، دوبارہ آ جاؤں گا
جواب میں بولے : آپ ہر بار لیٹ آئیں گے ۔ بہتر ہے جو وقت ہے اسے بہت جانیں ۔
میں نے ون لائنرز کے پیپرز سیدھے کیے اور ان کے حوالے کر دیئے ۔ بولے : پڑھ کر سنا دیں ۔
آصف صاحب کا کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ مجھ سے کس طرح مخاطب ہوں ۔ کبھی مولانا ، کبھی اظہر صاحب ، کبھی اظہر عزمی اور صورت حال ناخوشگوار ہو تو خالی اظہر کافی ہے ۔ دھیان رہے کہ لوگوں کا آنا جانا لگا ہے اور ہم ون لائنرز سنا رہے ہیں ۔ جب سب سن لیا تو ہاتھ پکڑ کر فرسٹ فلور پر اپنے کمرے کی جانب لے گئے لیکن کمرے کے باہر لگی ایک میز پر دو کرسیاں خالی دیکھ کر وہیں بیٹھ گئے ۔ اب وہ ون لائنرز ان کے ہاتھ میں تھے ۔
ابھی ان کے کمنٹس آنا باقی تھے ۔ بات شروع کی تھی کہ بالکل ڈرامائی انداز میں ایک خوش شکل و خوش لباس خاتون داخل ہوئیں ۔ آصف صاحب نے کرسی سے کھڑے ہو کر ان کا استقبال کیا اور کہا کہ آپ میرے کمرے میں بیٹھیں ، میں آتا ہوں ۔ ان کے جاتے ہی بولے : مولانا اب آپ سے بات چیت مشکل ہے ۔ میرا چہرہ اتر گیا لیکن کوئی چارہ نہ تھا ۔ ہاتھ ملا کر جانے لگے ، ایک دم پلٹے اور میز پر پڑے میرے ون لائنرز اٹھا لیے ۔۔۔۔ اور میں بوجھل قدموں سے سیڑھیاں اترتے ہوئے سوچنے لگا کہ اس کہانی کا ہیرو تو پہلی قسط میں ہی مر گیا ۔ اب سوچتا ہوں خالد محمود شانی کا شعر ترمیم کے ساتھ یاد آ رہا ہے ۔
جس طرح آپ نے ” رائٹر ” سے لی ہے رخصت
صاف لگتا ہے ” رابطے ” میں نہیں آئیں گے
باقی آئندہ