اسرائیل میں یہودی کہاں سے آئے؟
تحریر۔۔۔۔عبد السلام
ہالینڈڈ(یلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ اسرائیل میں یہودی کہاں سے آئے؟۔۔۔ تحریر۔۔۔۔عبد السلام)کسی نے یہ سوال پوچھا کہ یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ اسرائیل ایک زبردستی بنایا ہوا ملک ہے جبکہ یہودی پہلے سے اسی علاقے میں رہتے تھے۔ بات کو سمجھنے کے لئے یہودیوں کی مختصر تاریخ سمجھنی ضروری ہے۔
کوئی دو ہزار سال پہلے فلسطین میں یہودیوں کی حکومت تھی، لیکن مکمل آزاد نہیں تھی بلکہ رومن ایمپائر کے ماتحت تھی۔ پھر 70 سنہ عیسوی میں رومن ایمپایر نے اس یہودی حکومت کو تاخت و تاراج کردیا اور یہودیوں کا قتل عام کیا۔ بچے کچھے یہودی یورپ، عرب، ایران وغیرہ میں پھیل گئے۔ پھر جب فلسطین مسیحیوں کے ماتحت آیا تو عمومی طور پر یروشیلم میں یہودیوں کا داخلہ ممنوع تھا۔ یعنی یہود کو خود اپنے مقدس مقام میں عبادت کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ پھر حضرت عمر کے زمانے میں مسلمانوں نے فلسطین پر قبضہ کیا جو کہ مسیحیوں کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت ہوا تھا۔ مشہور ہے کہ معاہدے میں مسیحیوں کی ایک شرط یہ تھی کہ یہودیوں کو فلسطین میں داخلے کی اجازت نہ دی جائے۔ مسلمانوں کو یہ شرط منظور نہیں تھی تو معاہدہ اس بات پر فائنل ہوا کہ یہودی عبادت کے لیے آ سکتے ہیں۔ لیکن مستقل قیام کی اجازت نہیں ہوگی۔ صلیبی جنگوں کے دوران پھر یہ علاقہ مسیحیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ اس دوران بھی مسیحیوں نے یہودیوں کا قتل عام کیا۔ واپس جب یہ علاقہ مسلمانوں کے پاس آیا تو پھر یہودیوں کو امان ملی۔ مجموعی طور پر پچھلے دو ہزار سال میں یہود یورپ میں ذلت کی زندگی گذارتے رہے اور مسلمانوں کے علاقے میں امان پاتے رہے۔ اگرچہ اس معاملے میں کچھ استثنائات رہی ہیں۔
جب ہم بلاد شام کہتے ہیں تو اس سے مراد فلسطین، اردن، سیریا اور لبنان مراد لیتے ہیں۔ ان ممالک پر مسلم حکمرانی سے پہلے مسیحی بازنطینی یا easter roman empire حکومت تھی جو کہ رومن ایمپائیر کے مسیحیت کے اپنانے کے بعد بنی۔ ان علاقوں میں عام طور پر مسیحی رہتے تھے۔ مسلم دور حکمرانی میں ان علاقوں کی اکثریت مسلمان ہوگئی اور کچھ مسیحی ہی رہے اور اسلامی حکومت میں پر امن طریقے سے پھلتے پھولتے رہے۔ اس اعتبار سے اسرائیلی ریاست بننے سے پہلے فلسطین میں جو لوگ رہتے تھے وہ کوئی دو ہزارسال سے وہیں کے باشندے تھے جن میں مسلم اور مسیحی دونوں شامد ہیں۔ چونکہ اس دور میں بود و باش بدلنے کے لئے شہریت نام کی کوئ چیز نہیں ہوتی تھی اس لئے بہت امکان ہے کہ ان دو ہزار سالوں میں بہت سارے لوگ دوسری جگہ سے وہاں آباد ہویے اور بہت سارے لوگ وہاں سے ہجرت کر کے کہیں اور چلے گئے۔ یہ آبادی کی تبدیلی ایک فطری عمل کے تحت ہوئی جس میں زبردستی کسی کو وہاں سے نکالنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ چونکہ حکومتیں بھی بدلتی رہیں تو ایسے اکا دکا ناخوشگوا واقعات ہوئے بھی ہیں تو کوئی منظم طریقے سے آبادی کی تبدیلی کا عمل نہیں ہوا۔
بعد کے ادوار میں فلسطین عثمانی ترکوں کے ماتحت رہا، آس پاس کے علاقوں میں کچھ یہودی موجود تھے اور امن و امان کے ساتھ رہے، انہوں نے کافی زمینیں بھی خریدیں۔ 1948 میں جب مملکت اسرائیل کا سلطنت برطانیہ کے تحت قیام عمل میں آیا تو فلسطینیوں کو زبردستی ان کے علاقے سے نکال دیا گیا۔ یہ نکبہ کا واقعہ تھا اس میں اندازاً 7 لاکھ سے زائد فلسطینی اپنے گھروں سے بے دخل کردئے گئے۔ اس میں کچھ لوگ خوف کی وجہ سے خود بھاگے، لیکن بہت سوں کو فوجی جبر، خوف، قتل عام، اور دھمکی کے ذریعہ نکالا گیا۔ پھر دوسرے علاقے کے یہودیوں کو مثلا جرمنی، روس وغیرہ سے لا کر یہاں بسایا گیا۔ جن فلسطینیوں کو وہاں سے نکالا گیا ان میں مسلمانوں کے ساتھ مسیحی بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ بعد میں جنگیں، علاقوں پر قبضے، باہر کے یہودیوں کو مصنوعی طور پر مزید آباد کرتے چلا جانا اور دوسرے ایسے حالات پیدا کرتے چلے گئے جس کی وجہ سے وہاں پر فلسطینیوں کا رہنا ایک مشکل امر رہ گیا