اسلامی تعلیمات کی روشنی میں
مثالی میاں بیوی
قسط نمبر2
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ۔۔۔ مثالی میاں بیوی ) اس کی حوصلہ افزائی کرو، اس سب و شتم کا نشانہ مت بناؤ۔
مساوی تخلیق ذمہ داریاں الگ :اسلام نے کسی خاص وجہ سے مرد کو قوام کہا ہے لیکن اسلام اس چیز کو پسند نہیں کرتا کہ مرد اس فضیلت کو بیوی کی جنگ کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کرے اور نا ہی مرد کی یہ فضیلت عورت کی کوئی خامی ناقص پین یا کمتری کو ظاہر کرتی ہے۔ قرآن حکیم نے ان کھو کھلے عقائد کو رد کیا ہے اور زور دے کر کہا ہے کہ اصل خلقت میں مرد و عورت برابر ہیں نہ تو مرد ہی اعلی عنصر سے پیدا ہوا ہے اور نہ عورت گھٹیا عنصر سے بلکہ ایک ہی عنصر یعنی مٹی سے اور ایک نفس سے پیدا ہوئے
ہیں چنانچہ فرماتا ہے:
اے لوگوں اپنے اس رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک نفس سے پیدا کیا اور اسی سے جوڑا خلق کیا اور ان دو سے بہت سارے مرد اور عورتیں (زمین پر) پھیلا دئیے ” [ سورہ نساء (4): 1]
نبی کریم ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا۔
النساء شقائق الرجال ” عورتیں مردوںکی جڑواں تخلیق ہیں“۔ [مسند احمد، ترمذی] قرآن کریم اور تعلیمات نبوی میں عورت اور مرد کو تخلیق اور پیدائش کے لحاظ سے برابر قرار دے کر عورت کی شان بیان کی گئی ہے اسے عزت کا حق دار بتایا گیا ہے۔
نیز قرآن اجر کے لحاظ سے بھی مرد اور عورت کو مساوی قرار دیتا ہے۔ فرماتا ہے:جو بھی نیک عمل کرے مرد ہو یا عورت در حالیکہ وہ مومن ہو پس ہم ضرور اسے (دنیا میں) پاکیزگی ( اور آرام ) کی زندگی عطا کریں گے ، اور (آخرت میں) ان کے اعمال کا نہایت اچھا صلہ دیں گے۔ [ سورۂ کل (16): 97]
مرد اور عورت کے درمیان طبیعی اختلاف بہر حال موجود ہے جو ان کے حقوق و فرائض کے علیحد و علیحدہ تعین کا سبب بنتا ہے۔
میاں بیوی کے حقوق :پیغمبر اسلام خاتم النبیین حضرت محمد مال ہم نے عورت کے حقوق کو خاص اہمیت دی ہے
حضور نبی کریم نے ارشاد فرمایا:” تم میں سے بہتر آدمی وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے لیے بہتر ہو ۔ “ [ ترمذی، دارمی، ابن ماجہ ]
ایک مقام پر فرمایا:تم میں سب سے بہتر شخص وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لیے بہتر ہو۔“ [ترمذی]
ایک بار ایک صحابی کو جو زہد و عبادت کی طرف زیادہ متوجہ ہونے کی وجہ سے اپنی اہلیہ سے غافل رہتے تھے ، بلوایا اور فرمایا، اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے۔ “ [بخاری شریف]
یہ ایک عورت کا حق ہے کہ اس کا احترام کیا جائے۔ اس احترام کا اظہار اس کے اچھے کاموں کی قدر سے بھی کیا جائے۔اپنی اہلیہ کی تعظیم و تکریم کا یک طریقہ یہ بھی ہے کہ دوسروں کے سامنے ان کی خوبیاں بیان کی جائیں اور اہلیہ کا شوہر پر مان بڑھایا جائے۔
بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ بیوی کے سرالیوں اور اپنے احباب میں اپنی بیوی کی خامیاں بیان کرتے ہیں۔ دراصل یہ رویہ بیوی کی نہیں خود شوہر کی تذلیل کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ قرآن مجید نے میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے۔ بھلا اپنے ہی لباس کو داغدار کر کے نوچ کر یا میلا کر کے آدمی بذات خود بھی کہیں با وضع نظر آسکتا ہے؟؟… یقینا نہیں!… حضور نبی کریم ملی ای ایم کا فرمان ہے مومن کے لئے تقویٰ کے بعد صالحہ بیوی سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں…. [ سنن ابن ماجه ]
یہ ہے عورت کا بحیثیت بیوی مقام و مرتبه …. شوہر کا خیال رکھنے والی خوب سیرت بیوی کو اللہ کا بہت بڑا انعام سمجھنا چاہیے۔
رفیق بنیں ۔۔۔۔ فریق نہیں:اسلام کی تعلیمات یہ ہیں کہ اگر میاں یا بیوی کے اندر کچھ چھوٹی موٹی خامیاں بھی موجود ہیں تو اس بناء پر اُس سے نفرت نہ کی جائے، اُسے قابل تعزیر نہ سمجھا جائے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
ان کے ساتھ اچھے طریقے سے بود و باش رکھو ، چاہے تم انہیں نا پسند کرتے ہو۔ عین ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو بُرا جانو اور اللہ تعالی اس میں بہت بھلائی کر دے“۔ [ سور ونساء (4) :19] رسول الله علوی این نام کے ایک فرمان کا مفہوم ہے کہ مرد کو عورت کی عیب جوئی اور اس سے ناپسندیدگی کا اظہار نہیں کرنا چاہیے، اگر اس کی کوئی عادت بری ہے جو اسے نا پسند ہے تو دوسری عادت
اور خصلت اچھی بھی ہو گی جو اسے خوش کر دے سے خوش کر دے گی۔ ( بحوالہ صحیح مسلم]
اسلام کی تعلیمات میاں بیوی کے تعلق کے حوالے سے دونوں کو ایڈ جسٹمنٹ کے اصول بتاتی ہیں۔ شادی کا بندھن ایسا کچا دھاگہ بھی نہیں کہ محض کسی معمولی خرابی کو دیکھ کر توڑ دیا جائے۔ خرابیاں کس کے اندر نہیں ہوتیں؟…. غلطیوں سے کون میرا ہے ؟…. بیوی کو اس کی اچھائیوں اور برائیوں کے ساتھ قبول کیا جائے۔ معمولی خرابی کو اس اچھے بند حسن توڑنے کی تباہ کن خرابی میں تبدیلی نہ کیا جائے۔ شوہروں کو چاہئے کہ وہ بیوی کو فرشتہ نہ سمجھیں۔ وہ بھی ان کی طرح ایک انسان ہے۔ جیسے شوہر یا مرد کوتاہیوں سے مبر انہیں اسی طرح عورت کا معاملہ بھی ہے۔ کسی بات پر اسے غصہ بھی آسکتا ہے ، آپس میں کچھ کھٹ پٹ بھی ہو سکتی ہے اور ڈانٹ ڈپٹ تک معاملہ بھی پہنچ سکتا ہے لیکن ایسے مواقع پر تحمل اور برداشت سے کام لینے کی ضرورت ہے نہ کہ غصہ کو مزید بڑھاوا دینے کی۔
احادیث مبارکہ میں شوہر و بیوی کے حقوق کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مردوں کو بیوی سے اچھے سلوک کی زیادہ تاکید کی گئی۔ اسلام کسی بھی قسم کی خانگی بے اعتدالی کے سخت خلاف ہے۔ چنانچہ بیوی کے لیے بھی کچھ باتوں کا جانا نہایت ضروری ہے کہ جس طرح شوہر کے ذمے بیوی کے حقوق عائد کئے گئے اسی طرح اللہ اور اس کے رسول ندیم نے عورت کے ذمے شوہر کےحقوق بھی بیان فرمائے ہیں۔
عورت اپنے شوہر کے گھر اور بچے کی راعی و نگراں اور حفاظت کرنے والی ہے۔ [ بخاری] رسول اللہ علیم سے پو چھا گیا کہ سب سے اچھی عورت کون ہے ؟ آپ مان کریم نے فرمایا کہ وہ عورت جو اپنے شوہر کو خوش کر دے جب وہ اس کو دیکھے اور اس کی فرماں برداری کرے جب وہ کوئی حکم دے اور اس کے خلاف نہ کرے نہ اپنے نفس میں اور نہ اپنے مال میں جس کو وہ نا پسند کرے [ سنن نسائی، مشکوۃ]
حضور پاک می کنیم فرماتے ہیں ” صالح بیوی وہ ہے کہ جب تم اسے دیکھو تو تمہیں خوشی محسوس ہو، اسے کوئی حکم دو تو وہ مان لے اور جب گھر سے دور ہو تو وہ تمہارے گھر بار اور ناموس کی حفاظت کرے“۔ [سنن ابن ماجہ ]
رسول کریم میم کی تعلیمات یہ ہیں کہ آدمی کے اندر بڑائی، تکبر، اقتدار کی ہوس نہ ہو۔ یہ منفی اوصاف بیوی کے اندر ہوں یا شوہر کے اندر، دونوں صورتوں میں ازدواجی تعلقات کی خرابی کا سبب بنتے ہیں۔ اللہ تعالی نے جوڑے اس لیے بنائے ہیں کہ دنیا کا نظام خوش اسلوبی کے ساتھ چلتا رہے۔ میاں بیوی کا رشتہ قائم کرنے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ دونوں میں سے کسی ایک فریق کو آقا اور دوسرے کو غلام بنادیا جائے۔ ہر شخص کی اپنی انفرادیت ہے۔ اللہ تعالی نے ہر ایک کو شخصی آزادی عطا فرمائی ہے جسے ختم کرنا ایک منفی طرز عمل ہے۔
بیوی کو پیر کی جوتی سمجھنے والے شوہر اور شوہر کو انگلیوں کے اشارے پر چلانے والی ہو ہاں ! …. دونوں کی طرز فکر اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اسلامی تعلیمات شوہر یا بیوی دونوں میں سے کسی کو فرعونیت، انانیت، شریا تخریب کا شکار نہیں ہونا چاہیے ایسی منفی سوچ ایک شخص نہیں بلکہ پورے گھر کے لیے نقصان دہ ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مئی 2022