اس دور میں افغانستان ویزا لگوا کر جانے کا نیا نیا رواج ہوا تھا
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )اس دور میں افغانستان ویزا لگوا کر جانے کا نیا نیا رواج ہوا تھا ورنہ بغیر ویزے دخول کا راستہ ہمیشہ سے موجود ہی تھا۔ پاسپورٹ پر اس جھومر کا فائدہ نہیں ہوا تو خاص نقصان بھی نہ ہوا کہ تاحال کوئی ویزا ریجیکٹ نہیں ہوا، اس کے باوجود راقم کو افغانستان بطور پہلا بیرون ملک سفر کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔
کابل میں میرے ٹورسٹ ویزے کو ورک پرمٹ میں تبدیل ہونا تھا۔ اللہ کی شان ہے، وہ چاہے تو آسٹریلیا میں رہائش دے ڈالے چاہے تو کابل یا دبئی میں ملازمت۔ کابل میں میرے دو پرانے ازمنہ سکول کے لنگوٹیے میرے انتظار میں تھے۔ کچھ وہ لنگوٹیے تھے کچھ میں کھلے مزاج و دہن کا بندہ، وہاں پہنچا تو انہیں القابات میں برادران سے رابطہ شروع ہوا جو سکول میں چھوڑ کر ہٹے تھے۔ اللہ کے کرم سے ورک پلیس پر شدھ فرینک رہنا اب بھی راقم کی خصوصیات میں شامل ہے۔ اسد غدار اس کا گواہ ہے۔
کابل کے اس آفس میں جو ہم نے اپنے عمومی مزاج کے مطابق “جگر چل نہ باہر کا چکر لگاتے ہیں” مارکہ رابطہ شروع کیا تو دو دن تک تو “جگر” نے برداشت کیا۔ تیسرے دن وہ مجھے ایک طرف لے گیا اور سمجھانے لگا کہ آفس میں ہم چونکہ سینئیر ہیں لہٰذا سب کے بیچ میں بیٹھ کر اسے مخاطب کیا جائے تو “جگر” کی بجائے “آغا” سے کیا جائے۔ اس پر میرا”وٹ دا۔۔۔” کہہ کر ہاسا نکل جانا فطری تھا۔ چند لمحے غور کیا تو معلوم ہوا “آغا” تو سیریس ہے۔ اب میرا حتمی و سرکاری وٹ دا۔۔۔ نکل پڑا۔ یا اللہ۔۔۔ شو ھذا؟ میں کھلی زبان والا نفر اپنے سکول کے زمانے کے یاروں کو جن کے ساتھ اشلیل افلام اکٹھی دیکھیں، اب آغا آغا کہہ کر پکاروں گا؟ حد ہو گئی۔ بہرحال مجبوری تھی، آغا نے سنجیدگی سے درخواست کی سو ماننی پڑی۔
اب رواج یہ تھا کہ کام کاج ختم کر کے ہم اپنی اپنی شفٹ کے مطابق آفس سے رہائشی کمپاؤنڈ پہنچتے جہاں ہر دو تین بندوں کے لیے ایک کمرے کے ساتھ ساتھ ایک بڑا ہال موجود تھا۔ حال کے بیچوں بیچ کمرہ گرم رکھنے والی “سگری” موجود ہوتی کہ سردی ٹکا کر پڑا کرتی۔ سامنے ایک دیوار پر واجبی طول و عرض پر پھیلا ٹی وی لگا ہوتا جس پر لیپ ٹاپ کے ذریعے وی جی اے کیبل پر رات کھانے کے بعد قہوے کے ساتھ افلام بازی کا ماحول بنا کرتا۔ آفس میں چونکہ سبھی “سر” اور “آغے” تھے لہٰذا فلمیں بھی اسی مناسبت سے لگا کرتیں۔ میرا خیال ہے ان فلموں سے بہتر قاری وحید ظفر کی نعتیں رہتیں مگر کیا کیجیے کہ ہم تو ٹھہرے نووارد، عمران خان تو تھے نہیں کہ تبدیلی لائیں۔
ایک دن اس منی سنیما میں بیٹھے لوگوں کے پاس فلموں کا قحط پڑ گیا۔ اب تمام “سروں”، “جنابوں” اور “آغوں” کی تفریح کا سامان ہمیں کرنا تھا۔ ہم ٹھہرے ایک مجاہد۔ میرے پاس تب لیپ ٹاپ میں دیگر فلموں کے ساتھ ساتھ ساشا بیرن کوہن کی جانب سے شاہکار، بورات پڑی ہوتی۔ مجھے جانے کیا سوجھی، میں نے بورات اٹھا کر ٹی وی پر چلا دی۔
اب ویسے تو امید ہے آپ سب نے بورات دیکھی ہوگی، نہیں دیکھی تو میرا مشورہ ہے زندگی موت کا کوئی علم نہیں، فوت ہونے سے پہلے لازمی دیکھ لیجئیے۔ بورات ایک عدد انتہائی خبیث اور بیہودہ قسم کی کامیڈی ہے جس میں ہر قسم کے جوکس ہر قسم کے مناظر موجود ہیں۔ مثلاً زندگی میں پہلی بار قازقستان سے امریکہ نکلنے والا ایک بندہ جس کی ذہنی حالت راہ چلتی خواتین کو دیکھ کر مشت زنی کرنے والی دکھائی گئی ہے (استغفار)۔
خیر، معاذ صاحب نے کابل کے اس کمپاؤنڈ میں سب کو اکٹھا بٹھا کر بورات چلا دی۔ اب جوں جوں بورات چلتی گئی، محفل میں بیٹھی عوام کے چہرے پر کنفیوژن پھیلتی گئی۔ اگلوں کو ہنسی بھی آئے مگر کھل کر ہنسنے سے لمحہ بھر قبل یاد آجائے کہ ہم تو آغے ہیں، ہم کیسے ہنس لیں؟ ہم تو سر ہیں ہمیں تو سنجیدہ رہنا ہے۔
تو بھیا ہوا یہ کہ تمام آغے اور جناب ایک ایک کر کے اٹھ کر کمروں میں جانے لگے کہ یہ کیا بیہودگی چلا دی ہے۔ آخر میں پیچھے میں اور میرے دو جگری آغے بچ گئے۔ اب وہ مجھے کہہ تو کچھ نہیں رہے مگر چہروں پر لکھا آرہا کہ دیکھا کہا تھا تجھے نہ کر ایسا، دیکھ اب سب تجھے برا سمجھ رہے ہیں۔ میں اپنی جگہ پریشان کہ خدایا چار مرد ایک جگہ اکٹھے ہوں اور کھل کر گپ نہ لگائیں کیسے ممکن ہے۔ خیر قدرے مایوسی کے ساتھ فلم بیچ میں بند کر کے ہم یعنی میں اور میرے آغے چل دیے اپنے کمرے میں جہاں لٹکے منہ کے ساتھ ہم سونے کی تیاری کرنے لگے۔
ابھی ہم سونے کے لیے لیٹنے ہی والے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ دروازہ کھولا تو ساتھ والے کمرے کا ترجمان ایک عدد یو ایس بی کے ساتھ در پر سوالی بنا کھڑا تھا۔
“یار معاذ بائی وہ فلم تو دینا جو ابی دیک رہے تے”
سوچا چلو، کوئی ایک روشن خیال تو سامنے آیا بھلے چھپ چھپا کر ہی مگر چلو کوئی تو قدردان ملا۔ میں نے فلم یو ایس بی میں کاپی کر کے دے دی اور واپس سونے لیٹ گیا۔ کچھ دیر بعد دروازے پر ایک بار پھر دستک ہوئی۔ ایک بار پھر ایک اور فقیر ہاتھ پھیلائے کھڑا تھا۔
“معاذ بائی فلم پکار دے”
ٹھیک ہے بھائی۔ تم بھی لے لو۔
کچھ دیر بعد پھر دستک۔ مزید کچھ منٹ بعد پھر دستک۔ پھر دستک۔
قصہ مختصر، اس کمپاؤنڈ کے ہر کمرے سے ایک ترجمان سائل بن کر در پر آیا اور اپنی حسرت ایک عدد یو ایس بی کے توسط سے پورے کرتا چلتا بنا۔ یعنی وہی “سر”، “جناب” اور “آغے” جو اکٹھے بیٹھ کر اپنا معززین والا چوغا اتارنے سے انکاری تھے، اکیلے بیٹھ کر وہی اشلیل فلم دیکھنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کر رہے تھے۔
سب مل کر بولو سبحان اللہ۔
سب کو بورات ہدیہ کرنے کے بعد میں اس وقت تو سوگیا البتہ صبح آفس پہنچے تو سارے آغوں سارے جنابوں کو بیک وقت مخاطب کر کے بتایا کہ تم کتنے بڑے منافق ہو، سالے سب نے اپنے اپنے کمرے میں وہی فلم مانگ کر دیکھی جو اکٹھے بیٹھ کر لگانے پر مجھے کمینہ مان رہے تھے۔ وہیں، اسی وقت میں نے یہ بھی اعلان کیا کہ بھاڑ میں جاؤ سارے مجھ سے کوئی امید نہیں رکھنی کہ آغا کہنا ہے یا سر سر حضور حضور کی تکرار جاری رکھنی ہے۔
اس تمام روداد کا لب لباب یہ ہے کہ یہ جتنے مجاہد برزخ پر شور مچا رہے تھے، اس کے بین ہونے پر بغلیں بجا رہے ہیں ان میں سے ۹۹ اعشاریہ ۹۹۹۹۹۹۹۹۹۹۹۹۹۹ فیصد وہی برزخ سکون سے اکیلے میں بیٹھ کر پوری دلجمعی اور خشوع و خضوع کے ساتھ دیکھیں گے۔ ان میں سے چند ایک امرودوں کی آپسی چمیاں دیکھ کر ہو سکتا ہے خود پر غسل بھی واجب کر لیں مگر فراغت پاتے ہی ہمارے فلم والے گروپ میں پہنچ کر بڑی سی استغفراللہ ہائے میں مر گئی ہائے میں لٹی گئی والی پوسٹ لگائیں گے، اسی فلمی گروپ میں جہاں واضح ہے کہ یہ ذکر و اذکار کی محفل نہیں بلکہ یہاں فلموں ڈراموں ہی پر بات ہوتی ہے۔
خیر ہمیں کیا، ہماری طرف سے برزخ پر چڑھیں۔ برزخ بیشک یوٹیوب پاکستان میں بین ہوا، دیکھ تو سبھی لیں گے۔
معاذ بن محمود / Film Walay فلم والے