اس نے فیصلہ کیا تھا وہ سامنے بیٹھے مرد سے نہیں ہارے گی۔
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )ہر بار عورت مرد سے کیوں ہار جاتی ہے۔”وہ پھنکاری تھی۔سبز آنکھیں شعلہ گاہ تھیں۔وہ نہیں ہارے گی اس نے دیکھا اس کے کندھے جھکے ہوئے تھے اس عورت کا دل کانپا تھا “میں نے یہاں پہنچنے کے لیے اس دن کےلیے بہت کچھ قربان کیا ہے بہت کچھ برداشت کیا ہے۔میں نہیں ہاروں گی”اس نے فیصلہ کیا تھا چاہے سامنے صوفے پہ ہاتھوں میں ہاتھ دیے سر جھکائے سیاہ شلوار قمیض میں ملبوس وہ شخص چاہے اس کا سر جھک جائے وہ نہیں ہارے گی۔۔۔۔
وہ بس اپنی جگہ جم کے کھڑی تھی۔سامنے والے نے سر کو جنبش دی وہ جو جم کے کھڑی تھی آنکھوں سے دیکھتی اس نے نظریں جھکا لی تھیں اس مرد کا ایک مسئلہ تھا جب وہ آنکھوں میں دیکھتا تھا تو سیدھا اس کے دل تک جا پہنچتا تھا اس نے دل کو تالا لگایا۔کچھ دیر اس کمرے میں فقط سانسوں کی خوشبو تھی۔سامنے بیٹھا وہ سمجھ چکا تھا وہ خاموش ہے تو وہ ہار جائے گا جب وہ خاموش ہوتی تھی تو دماغ سے سوچتی تھی نفرتیں پالتی تھی۔جب بولتی تھی تو دل سے بولتی تھی وہ ہار رہا تھا وہ خاموش تھی۔وہ اٹھا تھا سارے میں کافور کی خوشبو پھیلی۔
اس عورت نے مٹھیاں بھینچی آنکھیں سرخ پڑیں۔
وہ جا رہا تھا۔۔۔
وہ رو رہا تھا۔۔۔۔
وہ ہار رہا تھا۔۔۔۔
وہ جمی رہی۔
وہ رکا ایک قدم ہاں فقط ایک قدم سنہرے کارپٹ پہ واپس پلٹے سفید لباس میں وہ سرخ پڑ رہی تھی۔وہ پلٹ کے اس کے پاس آیا تھا اس کی سانسیں گنیں وہ بے ربط تھیں وہ روئی روئی لگیں وہ تڑپا تھا اس نے اس لڑکی کا ہاتھ پکڑا اور نرمی سے اسے گلے لگایا تھا۔وہ ششدر تھی پریشان تھی غصے میں تھے دکھی تھی مگر جس وقت اس نے اسے گلے لگایا وہ فقط ایک عورت تھی وہ “آدم کی حوا تھی” وہ فقط معارج جہانگیر کی ماہینم بہزاد خان تھی وہ وہی ہو سکتی تھی۔سارے میں چنبیلی کی خوشبو پھیلی تھی مگر ابھی بھی کافور سے سہمی ہوئی۔۔۔۔وقت ایک نئی چال چلنے کو تیار تھا۔
#رقص_قلب #ثمرینہ_سحر