Daily Roshni News

افکارِ ضیاء الامت کی غلط تعبیریں

افکارِ ضیاء الامت کی غلط تعبیریں

ضیاء الامت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ ایک بلند پایہ عالمِ دین، ایک بیدار مغز اور روشن دماغ مفکر، اسلامی تعلیمات کے ترجمان اور ایک عظیم روحانی شخصیت اور صوفی بزرگ ہیں۔

آپ کی تعلیمات علمی وروحانی حلقوں میں ایک حوالے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ایسی معتبر اور مستند شخصیت کے افکار و نظریات کی درست تعبیر ہی ہماری فکری رہنمائی کر سکتی ہے۔

ذیل میں آپ کی فکر کے چند ان پہلوؤں کا تذکرہ کیا جاتا ہے جن کی بعض اوقات کسی نہ کسی طرح غلط تعبیر پیش کی جاتی ہے یا لوگ اس کا صحیح مفہوم سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔

اس ضمن میں یہ بات بھی یاد رہے کہ افکارِ ضیاء الامت کی صحیح تفہیم اور درست تعبیر میں آپ کی تحریریں اور آپ سے منقول مستند ملفوظات ہی سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس میں راقم کی ذاتی رائے کو کوئی دخل نہیں۔

اتحادِ امت کی دعوت اور مسلکی شناخت:

اس میں شک نہیں کہ حضور ضیاء الامت رحمۃ اللہ علیہ اتحادِ امت کے زبردست داعی اورمبلغ تھے اور اس ضمن میں آپ نے ان تھک محنت کی۔ آپ کی شدید خواہش تھی کہ مسلمان متحد ہو جائیں۔

لیکن اتحادِ امت کے لیے کی جانے والی کوششوں اور اس کی شدیدخواہش کے باوجود آپ کبھی بھی اپنی مسلکی شناخت سے دست بردار نہیں ہوئے۔

استادِ محترم پروفیسر حافظ احمد بخش صاحب لکھتے ہیں:

ان ساری رواداریوں او ر وسعتِ نظری کے باوجود حضرت ضیاء الامت زِیدَ مجدُہٗ عقائدِ اہلِ سنت کی ترویج اور ان کے اظہار میں کسی مداہنت کے روادار نہیں۔ (مقالات: جلد اول، صفحہ: 46)

مقالاتِ ضیاء الامت کو پروفیسیر حافظ احمد بخش صاحب نے حضور ضیاء الامت رحمۃ اللہ علیہ کی ظاہری حیات میں ہی ترتیب دیا تھا اور آپ کا تعارف بھی آپ کی ظاہری حیات میں ہی لکھا تھا۔

آپ نے نہ صرف خود کو اہلِ سنت کا ایک ادنیٰ فرد سمجھا بلکہ اس جماعت کے ساتھ اپنی شدید محبت کا اظہار بھی کیا اور اپنی تحریروں میں اس مسلک کی ترجمانی بھی کی۔

آپ لکھتے ہیں:

یہ سوادِ اعظم جس کا میں ایک ادنیٰ فرد ہوں،جس کی محبت میرے رگ و پے میں سمائی ہوئی ہے جس کے دینی عقائد پر میرا پختہ ایمان ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ انہوں نے دین کوجزوی طور پر قبول نہیں کیا بلکہ کلی طور پر قبول کیا ہے (مقالات، جلد اول، صفحہ: 37,38)

اپنے مسلک کی ترجمانی کے متعلق آپ خود لکھتے ہیں:

میں نے پورے خلوص سے کوشش کی ہے کہ ایسے مقامات پر افراط و تفریط سے بچتے ہوئے اپنے مسلک کی ترجمانی کردوں جو قرآن کریم کی آیاتِ بیّنات، احادیثِ صحیحہ یا امت کے علمائے حق کے ارشادات سے ماخوذ ہے۔ (ضیاء القرآن، جلد اول، صفحہ:11)

ان تصریحات سے یہ تو معلوم ہوگیا کہ حضور ضیاء الامت رحمۃ اللہ علیہ نے صرف اتحادِ امت کی دعوت ہی نہیں دی بلکہ اپنی مسلکی شناخت کو بھی اجاگر کیا ہے۔ خود کو اہلِ سنت کا فرد کہا ہے

اس کے ساتھ اپنی محبت کا اظہار کیا ہے۔ اس کے عقائد پر نہ صرف اعتماد کیا ہے بلکہ ان کی ترجمانی بھی کی ہے۔

یہاں یہ بات بھی واضح کر دینا ضروری ہے کہ حضور ضیاء الامت رحمۃ اللہ علیہ نے امامِ اہلِ سنت، مولانا احمد رضاخان صاحب رحمۃ اللہ سے بھی اپنا تعلق مضبوط رکھا۔

اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ نے دارالعلوم محمدیہ غوثیہ کے مقاصدِ تاسیس میں آپ کاتذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے :

یہ دارالعلوم فقہی مسلک حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا مقلد ہو گا جملہ سلاسلِ تصوف کاتہِ دل سے معتقد ہوگا۔ نظریاتی اعتبار سے ملت کے سوادِ اعظم اہل السنت و الجماعت کا ہمنوا ہو گا

جس کی ترجمانی اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے کی ہے۔(مقاصدِ تاسیس دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ)

لہذا حضور ضیاء الامت رحمۃ اللہ علیہ کے نظریہِ اتحادِ امت کی کوئی بھی ایسی تعبیر غلط اور من گھڑت شمار کی جائے گی جو ہم سے ہماری مسلکی شناخت چھین لے یا ہمیں ترجمانِ اہلِ سنت سے لا تعلق کردے۔ (جاری ہے)

بابر حسین بابر
دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف

Loading