Daily Roshni News

اقبال کی فکری اور فنی پرواز

اقبال کی فکری اور فنی پرواز

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )شاعروں کے بارے میں عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ تصوراتی دنیا میں جینے کے عادی ہوتے ہیں، ان کے قول و فعل میں موافقت ناگزیر نہیں ہوتی۔ وہ جو کہتے ہیں وہ تخیل کے زیر اثر کہتے ہیں اور جو کرتے ہیں وہ زندگی کے اصل حقائق سے متصادم ہوتا ہے، حقیقت سے لا شعوری طور پر دور رہتے ہیں۔ شعرا کبھی اچھے رہنما نہیں بن سکتے کیونکہ ان کا کوئی مخصوص نظریہ حیات نہیں ہوتا، ان کی زندگی کا سفر تخیل کے گھوڑے پر سوار دوڑتے ہوئے کٹتا جاتا ہے۔ ان کی کوئی منزل نہیں ہوتی، حیات عزم و استحکام اور یقین ِ محکم سے خالی ہوتی ہے۔ وہ زندگی کے تمام شعبوں کا ورق ورق چھانتے ہیں اور زندگی کے ہر منظر کو عارضی اور ہنگامی راحت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ جذبات اور اثرات کا ان کے ہاں گہرا عمل دخل ہوتا ہے، اسی لیے ان کے نظریات اور افکار کبھی کسی مستقل تحریک کی صورت اختیار نہیں کرتے اور نہ ہی سر ِراہ دنیا آنے والی مشکلات کا حل بتاتے ہیں۔ لیکن جب ہم حکیم الامت حضرت علامہ محمد اقبالؒ کی طرف دیکھتے ہیں تو وہ ہمیں شاعر تو نظر آتے ہیں لیکن اس قبیل کے تمام تر وصائف و خصائل سے الگ نظر آتے ہیں۔ ان کی اپنی پرواز اور اپنی منزل ہے اور شاعری کو زندگی کے لیے موزوں بنانے کا اپنا ہی انداز ہے۔ اقبالؒ کے تمام تر شعری فنی کمالات اپنی جگہ لیکن وہ حکیم بھی ہیں، فلسفی بھی۔ مفکر بھی ہیں اور مجدد بھی، خودی کے مبلغ ہیں اور رموز ِاسرار حیات کے عالم بھی۔ نظریہ بھی رکھتے ہیں اور تخیل کی بھی پرواز موجود ہے۔ جذبات و اثرات کے زیراثر دیکھے جا سکتے ہیں لیکن ان کے ہاں جذبہ بنیادی انسانی خرابیوں کے رد میں اُبھر کر سامنے آتا ہے۔ ان کے کلام میں درد ہے، فکر ہے، کامل حیات کے اسباق ہیں۔ الغرض کہ انسانی زندگی کے وہ تمام گوشے جنہیں منور کرنے سے حیات مقصدیت کی جانب سفر کرتی ہے وہ تمام اوصاف اقبالؒ کے ہاں مل جاتے ہیں۔ ان کے کلام کو اگر صرف شاعرانہ مدار میں رکھ کر ہی پرکھا جائے تو بھی اقبال کی قدرومنزلت اردو بلکہ فارسی ادب کے کئی شعرا سے بلند ہے۔ اگرچہ وہ خود کو شاعر کہلوانا پسند نہیں کرتے تھے اور کہتے تھے خدا اس شخص کو نہ بخشے جس نے مجھے فقط شاعر جانا۔ لیکن یہ بھی ناممکن ہے کہ اقبال کو شاعری سے الگ کر کے ان کی شخصیت پر بات کی جا سکے۔ انہوں نے تو اپنی زبان سے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ممکن ہے آنے والے دور کا نقاد مجھے شاعروں کی فہرست سے خارج کر دے۔ لیکن اقبال کی فنی زندگی کی جاودانی کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ پیغمبرانہ مشن کو آگے بڑھانے میں ملت ِ اسلامیہ کی رہنمائی کر رہا ہے۔

شیخ نور محمد جو خود بھی صوفی اور عارف تھے کہتے ہیں ابھی اقبال اپنی ماں کے رحم میں تھا کہ میں نے ایک خواب دیکھا، کیا دیکھتا ہوں کہ ایک وسیع و عریض میدان ہے اور لوگوں کا ایک جم غفیر ہے، زمین سے تھوڑی اونچائی پر ایک خوبصورت دلکش پرندہ محو ِپرواز ہے اور ہر کوئی اس پرندے کو پکڑنے کی کوشش کر رہا ہے اورخواہش رکھتا ہے کہ وہ پرندہ اس کے نصیب میں آئے، میں بھی اس ہجوم کا حصہ ہوں اور یہی خواہش کرتا ہوں کہ یہ نایاب پرندہ مجھے ملے۔ پھر اچانک وہ پرندہ میرے ہاتھ میں آجاتا ہے اور سارا ہجوم مجھے للچائی نظروں سے دیکھنے لگتا ہے۔ بلاشبہ وہ خوبصورت پرندہ حضرت اقبال ؒہی تھے جنہیں ان کے والد نے خواب میں دیکھا تھا۔ اقبالؒ کے کلام میں’ عقاب‘ جو مسلمانوں کے لیے تحریک و جذبے کا استعارہ ہے کا ذکر جا بجا ملتا ہے، اگر کوئی اس استعارے کی اساس ٹھونڈنے نکلے تو شاید اس کی ملاقات شیخ نور محمد کے خواب میں اُڑتے ہوئے پرندے سے ضرور ہوگی۔

علامہ اقبالؒ کے اندر جذبہ حریت اس وقت سر اُٹھاتا ہے جب وہ مسلمانوں کو متعصب ہندوﺅں اور انگریزوں کے درمیان غلامی کے دو پاٹوں میں پستے استحصال کا شکار ہوتے دیکھتے ہیں۔ اقبال ؒ کے ہاں غلامی محض جسمانی نہیں، فکری و ذہنی غلامی پر اقبال زیادہ ملول نظر آتے ہیں۔ جب وہ دونوں اقسام کی غلامی کا موازنہ کرتے ہیں تو فکری غلامی کو جسمانی سے زیادہ خطرناک قرار دیتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک اگر کوئی مسلمان اغیار کی تقلید کرنے لگتا ہے تواسے غلامی بلکہ موت سے تشبیہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں:

اپنی ملت پہ قیاس اقوام ِ مغرب سے نہ کر

خاص ہے ترکیب میں قوم ِ رسول ہاشمی

اقبال انسان کو زندگی میں تحریک پیدا کرنے کے لیے اُکساتے ہیں۔ اگر کوئی اپنی زندگی کا نصب العین متعین نہیں کرتا اور شب وروز کی روش پر زندگی گزارتا چلا جاتا ہے تو اقبال اُسے جدوجہد کرنے کے لیے جذبہ فراہم کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے لیے کوئی مقام و مرتبہ تلاش کر لے۔ اقبال کے ناقدین یہ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ چونکہ ان کی پیدائش ایک خاص ماحول میں ہوئی جو تحریک ِ آزادی پاکستان کا ماحول تھا لہذا اقبال اپنی شاعری سے لوگوں کو اس تحریک کے لیے کام کرنے پر اُکساتے تھے، یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں اس قدر جذبہ حریت پایا جاتا ہے۔ مان لیا کہ اقبال ایک خاص قسم کے ماحول میں پیدا ہوئے اور ان کی شاعری میں اس کی چھاپ نمایاں ہے لیکن جب ہم آج اپنی زندگیوں پر اقبال کے افکار کو منطبق کرتے ہیں تو وہ برابر پورے آتے ہیں، یوں لگتا ہے اقبال نے جو کہا اُس زمانے میں نہیں بلکہ آج ہمارے لیے کہا ہے۔ کلام ِ اقبال کی یہی خصوصیت اسے ابدی و اخروی بنانے میں اہم کردار اداکرتی ہے۔

یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتح ِ عالم

جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

اقبال ہر دور کا مفکر ہے ایک صفت جو اقبال کو دیگر تمام شعرا سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ کہ اقبال نے زندگی کے ہر پہلو میں کتاب ِالہیٰ اور سیرت ِ رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سے خوشہ چینی کی ہے ۔ وہ اپنی عملی و فکری زندگی کے ہر پڑاﺅ پر پیغمبر اسلام سے رہنمائی طلب کرتے نظر آتے ہیں۔ اقبال نے شاعری سے جو کام کیا ہے تاریخ ِ اسلام میں وہ بڑی بڑی تحریکیں اور شخصیات نہیں کر سکیں۔ اقبال کی شاعری پرُ لطف بھی ہے اور روح ِ ایمان کو جلا بھی بخشتی ہے۔ لاپرواہی اور زندگی کی دوڑ میں بھاگتے بھاگتے کچلے جانے والے جذبہ  خودی و ملت کو اقبال پھر سے زندہ کرتے ہیں اور انسان کو راہ  حقیقت پربلاتے ہیں۔ اقبال کی شاعری کے بعض موضوعات اقبال کے لیے خاص ہو گئے۔ مثلا ً عشق و محبت ہمیشہ سے شاعروں کے لیے تختہ مشق رہا ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر بعض شاعروں نے گمراہ کن تصورات بھی اخذ کر لیے لیکن اقبال نے عشق و محبت کے موضوع میں ایسے شاندار رنگ بھرے ہیں کہ من کی پاکیزگی سے لے کرعشق ِحقیقی تک کے تمام مراحل میں اقبال رہبر بن کر کھڑے ہوتے ہیں۔ اقبال کا باطنی مرد قلندر عوامی سطح سے بلند ہو کر ستاروں سے آگے جہان آباد کرتا ہے اور پھر ہر لحظہ نہ صرف خود متحرک ہے بلکہ ہر خاص و عام کو بھی تحریکی زندگی گزارنے کے لیے آمادہ کرتا ہے۔ دنیا ہو یا آخرت، عالم حیات ہو یا عالم بقا، ہر جگہ ہر مقام پر جذبہ عشق و محبت کی پرورش اقبال کی آخری منزل ہوتی ہے۔

عشق پہ بجلی حلال، عشق پہ حاصل حرام

علم ہے ابن الکتاب، عشق ہے ام الکتاب

جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء فی الدنیا و الآخرۃ

Loading