اقراء
تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ اقراء۔۔۔ تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب)اللہ تعالی نے علم اور حکمت کو اپنی نعمت بنایا اور اس نعمت کی تکمیل سرور کائنات، حضرت محمد علیہ الصلوۃ والسلام پر کی ہے۔ آپ ﷺ نام کے ذریعے کتاب و حکمت کی یہ نعمت عالمین میں تقسیم ہو رہی ہے۔
قرآن پاک کی ابتدائی آیات غار حرا میں نازل ہوئیں، فرستادہ حق، حضرت جبرائیل آپ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے۔ حضرت جبرائیل نے آپ ﷺسے فرمایا پڑھیے!
آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ اس پر حضرت جبرائیل نے آپ کو سینہ سے لگایا اور دوبارہ کہا پڑھیے ! آپ مسلکی ٹیم نے دوبارہ فرمایا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ اس طرح یہ مکالمہ اور عمل تین مرتبہ دہرایا گیا اور پھر سید نا حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ابتدائی آیات پڑھیں۔ اللہ زمین اور آسمان کا نور ہے۔ فرشتے اللہ تعالی کی نورانی مخلوق ہیں اور حضرت جبرائیل” فرشتوں میں افضل و مقرب ترین گروہ کے سردار ہیں۔
آیات مبارکہ پر غور و فکر سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات کی تخلیق سے متعلق آیات کا علم اللہ کے نور پر مشتمل ہے جو اللہ تعالی کی طرف سے آپ ﷺ کو منتقل کیا گیا۔
اقرا باسم ربک الذی خلق
پڑھیے رب کے نام سے جس نے تخلیق کیا۔
خلق الانسان من علق
انسان کو پیدا کیا کھنکھناتی مٹی سے۔
اقرا و ربک الاکرم
پڑھیے اپنے رب کے نام سے جو بڑا کرم والا ہے۔
الذي علم بالقلم
جس نے علم سکھا یا قلم سے۔
علم الانسان مالم يعلم
انسان کو علم سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی ابتدائی آیات میں تخلیق کا علم بیان فرمایا اور آخری آیات میں دین اور اپنی نعمت کی تکمیل کا بیان کیا ہے۔ ابتدائی آیات میں تخلیق کے دو مراحل یا رخ علیحدہ علیحدہ بیان کیے گئے ہیں۔ پہلے مرحلے میں علم الفلم کے تحت ارواح کی اولین تخلیق کا ذکر ہے۔ اس میں تمام انواع شامل ہیں۔ تخلیق کا یہ مرحلہ وسائل کے بغیر وجود میں آیا۔ دوسرے مرحلہ میں انسان کے لیے ایک میڈیم “علق“ کا بیان کیا گیا ہے۔ علق عصری وجود ہے جو روح انسانی کے لباس کی حیثیت رکھتا ہے۔
تخلیق کائنات سے ذات کے اندر موجود لا شمار پوشیدہ صفات کا مظاہرہ ہوا۔ ان صفات کا سب سے کیا گیازیادہ علم صرف انسان کو سکھایا گیا ہے۔ معرفت اور حقیقت جاننے کی صلاحیت انسان کو عطا کی گئی ہے اور اسی شرف کی بناء پر وہ دیگر مخلوقات سے افضل ہے۔ اللہ تعالی کی ذات کی طرح اللہ کی صفات کا علم بھی لا محدود ہے۔ کسی مخلوق میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ اپنے و ہم ، گمان، خیال، ادراک، وجدان یا علم میں اللہ تعالی کی ذات یا کسی صفت کا احاطہ کر سکے۔ اللہ تعالی کی ان صفات کا محض جزوی علم انسان کو عطا کیا گیا ہے جو کائنات سے متعلق ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا عطا کر وہ یہ قلیل علم بھی انسان کے لیے لامحدود وسعت رکھتا ہے۔
اللہ تعالی عالم الغیب والشہادۃ ہیں۔ ذات باری تعالی نے اس کائنات کو امر و خلق کے تحت تخلیق کیا ہے۔ غیب کے علوم میں علم القلم، علم الكتاب يا علم الاسماء اور عالم امر کے قوانین و فارمولے شامل ہیں جبکہ عالم شہادت میں عناصر کے علوم کار فرما ہیں۔ صفات یا نور کے منزل سے روشنی، رنگ اور عناصر بنتے ہیں۔ قرآن پاک میں تخلیق کے دونوں زرخ تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔
مادہ بھی اللہ کی تخلیق اور علم الہی ہے جو قلم، لوح، امر کے زون سے گزر کر عناصر کا رنگ و روپ اختیار کر لیتا ہے۔
پہلے مرحلے میں علم القلم کے تحت کن فیکون ہوا اور ارواح تخلیق ہوئیں۔
دوسرے مرحلے میں الست بربکم کہہ کر اللہ تعالی نے ارواح کو اپنی صفات کا مشاہدہ اور تعارف کرایا۔
تیسرے مرحلے میں احسن تقویم کے تحت ان صفات کا علم انسان کو سکھایا گیا۔
چوتھے مرحلے میں جب انسان عالم دنیا یا اسفل السافلین میں پیدا ہوتا ہے تو کائناتی شعور سے پست تر مادی شعور میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس طرح تخلیق …. کئی مراحل سے گزرتی ہوئی عالم دنیا کے مادی شعور میں داخل ہو جاتی ہے۔
اجتماعی شعور کے مقابلہ میں انسان انفرادی شعور میں اتنا محدود ہو جاتا ہے کہ روز ازل کیا گیا عہد، مشاہدہ اور علم الاسماء کے تحت نیابت و خلافت کا منصب اور علم پیس پر وہ چلا جاتا ہے اور انسان زمان و مکان کا پابند اور وسائل کا محتاج بن جاتا ہے۔ انسان کا مادی شعور اتنا محدود ہے کہ وہ مختلف اوقات میں مظاہر یعنی آسمان، سورج، چاند، آگ، پتھر حتی کہ حیوانات کو بھی اپنا معبود تسلیم کر لیتا ہے۔ جبکہ فطرت کی آفاقی نشانیاں انسان کی عقل و شعور کو مادہ کے پس پردہ موجود ایک کائناتی حقیقت یعنی روح کے شعور و حواس کی آگاہی بخشتی ہیں…..
صاحب امر کی حیثیت سے انسان مخلوق پر حکمران ہے، انسان کو اللہ نے خلیفتہ الارض بنایا ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن پاک میں انبیاء کرام کے معجزات و واقعات پر غور و فکر کی دعوت دی ہے۔ جس سے عالم شہادت اور عالم غیب کی تفہیم ملتی ہے۔ اللہ کی طرف سے ایک نور اور ایک روشن کتاب تمہارے پاس آچکی ہے۔
ہم نے ایک کتاب اتاری تا کہ لوگوں کو ظلمات سے نور کی طرف لے جائیں۔
حضرت محمد رسول اللہﷺ نے تمام تر تکالیف کو بیش بہا قربانیوں کے ساتھ برداشت کیا۔ یہ آپ ﷺ کا اعجاز و کمال ہے کہ آپ ﷺ نے قرآن پاک میں موجود علم نوع انسانی تک پہنچایا۔ اللہ تعالی نے قرآن پاک کی حفاظت کا وعدہ کر رکھا ہے اور قرآن کا سمجھنا بہت آسان کر دیا ہے۔ اقراء کے ذریعے اللہ کے محبوب ﷺ نے نوع انسانی کو محدود و مقید اور مجبور و پابند شعور سے نجات دلا کر توحید پر جمع فرمایا۔ انسان کا تعلق بر اور است اللہ سے جوڑ دیا، انسان کو بتایا گیا اور یاد دہانی کروائی گئی کہ : …. اللہ نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ ….. تم جہاں کہیں بھی ہو اللہ تمہارے ساتھ ہے۔
اللہ تو تمہارے اندر ہے تم دیکھتے کیوں نہیں۔ الله تو تمہاری رگ جان سے زیادہ قریب ہے۔
زیر تفکر علم دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک علم شریعت یا قال اور دوسرا علم معرفت یا حال کہلاتا ہے۔ دونوں علوم کا منبع قرآن پاک ہے جبکہ دونوں کا مقصد اللہ سے براہ راست ربط قائم کرنا ہے۔ شریعت سے جسم، لباس، جگہ کی کیفیات…. سمت رکعت اور اوقات کے تعین …. نیت، تکبیر، قیام، رکوع، سجدہ، تلاوت، تسبیحات، درود شریف، دعا اور سلام کا علم اور دیگر قوانین ملتے ہیں جبکہ علم معرفت میں مرتبہ احسان کے ذریعے بندہ عبادت کے دوران اپنی رگ جان سے قریب، اللہ کے سامنے حاضری کا مشاہدہ کرتا ہے یا اس کا دھیان و گمان کرتا ہے۔ جو کوئی بھی اس کی راہ میں کوشش اور جدو جہد کرے گا اللہ اسے اپنا راستہ دکھا دے گا۔
….. بنده فرائض کے ساتھ نوافل سے اس کا ربط
اور قرب چاہتا ہے تو پھر وہ بندہ کو اپنا بنا لیتا ہے اور اپنے بندہ سے محبت کرتا ہے۔ اگر بندہ اسے پکارے تو وہ جواب دے اور بندہ کچھ مانگے تو وہ اسے عنایت کرے۔ پھر !
اللہ اس کی سماعت بن جاتا ہے جس سے وہ سنتا ہے۔
اس کی بصارت بن جاتا ہے جس سے وہ دیکھتا ہے۔
اس کی زبان بن جاتا ہے جس سے وہ بولتا ہے اس کے ہاتھ بن جاتا ہے جن سے وہ پکڑتا ہے علم اور مشاہدہ مومن کی صفت ہے جبکہ مسلمان ہو نا اور مومن ہو نا الگ الگ بات ہے۔
کم علم یہ کہہ دیتے ہیں کہ وہ مومن بن گئے ہیں حالانکہ ایمان تو ان کے قلوب میں داخل نہیں ہوا ہے اور یہ تو فقط مسلمان ہوئے ہیں۔
اللہ تعالی نے انبیاء کرام کو خصوصی طور پر کتاب و حکمت عطا کی ہے اور یہی علم انبیاء کاتر کہ یا ورثہ ہوتا ہے۔ رب العالمین نے اپنے محبوب، سردار الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ پر دین کی تکمیل فرمائی اور اپنی تمام نعمتیں عطا کیں۔
سید نا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو اتنازیادہ علم عطا کیا گیا کہ آپ کی امت کا ایک عالم بنی اسرائیل کے نبی کے برابر قرار پایا ہے۔
سید نا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا ورثہ آپ ﷺ کا علم ہے۔ شریعت اور معرفت آپ کے علم کے دو رخ ہیں۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ نومبر 2019